امتحانات میں کی جانے والی محنت
تین طرح کی ہوتی ہے ، اول؛ پیپروں سے پہلے کی جانے والی محنت، دوم؛ پیپروں
کے درمیان اور سوم؛ وہ محنت جو پیپروں کے بعد کی جائے۔ہمارے معاشرے میں
تینوں محنتیں پورے جوش و جذبے کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ پنجاب میں میاں شہباز
شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں بورڈ ز کے امتحانات میں بوٹی مافیا کا
خاتمہ کر کے کافی نام کمایا تھا، اب اپنے موجودہ دور میں انہوں نے امتحانی
نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر کے اس میں ہونے والی بد عنوانیوں کا مزید خاتمہ
کرنے کی کوشش کی ، یہ الگ بات ہے کہ کمپیوٹر سسٹم کا پہلا سال ہونے کی وجہ
سے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، آہستہ آہستہ ہونے والے کام کو
یک دم کرنے سے اس میں یقیناً پریشانیاں تو ہوتی ہیں۔ خیال کیا جاتا تھا کہ
اس سسٹم کے بعد کسی کی مجال نہیں کہ جعل سازی کا ارتکاب کرسکے۔لیکن بد
قسمتی سے مافیا کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ کمپیوٹر میں سے بھی راستہ نکال
لیتا ہے۔
بہاول پور بورڈ کے قائم کردہ ایک سینٹر میں میٹرک کے پرچہ جات چیک کئے
جارہے تھے ،معلوم ہوا کہ متعلقہ بورڈ کا ایک اہلکار رفیق قریشی بھی یہ خدمت
سرانجام دے رہا ہے، اس کا تعلق دراصل بورڈ کی کنڈکٹ برانچ سے ہے ، نگرانی
اور چیکنگ کی ڈیوٹیا ں بھی یہی لوگ لگاتے ہیں، ’حسن ِ اتفاق‘ سے موصوف کی
زوجہ بھی اسی خدمت پر مامور تھیں۔ ڈیوٹیاں لگانا اور ان کے ذریعے سے مطلوب
افراد کی مدد کرنا اور ان سب کچھ کے نتیجے میں آمدنی میں اضافہ فطری بات
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے اس قسم کے ملازمین کی مالی حالت غم دوراں کی
پریشانیوں سے آزاد ہوتی ہے، ایک ایک کلرک کئی کئی گھروں کا مالک ہوجاتا ہے،
بڑی گاڑیاں رکھنے کی پوزیشن میں بھی آجاتا ہے۔
اگرچہ پنجاب حکومت نے سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کر کے پرچہ جات کی شناخت ناممکن
بنانے کا دعویٰ کیا ہے ، مگر ان کا یہ دعویٰ پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کے
سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا ہے جب ہمارے ذہین اہلکار ایسے سسٹم میں
بھی نقب لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یہ کام کسی فرد واحد کا نہیں ہوتا ،
اس میں اوپر سے نیچے تک پورا گروپ کام کرتا ہے ، اس ڈوری کا سرا کسی
بااختیار فرد کے دست ہنرمند نے ہی تھام رکھا ہوتا ہے۔چیئرمین بورڈ نے کہا
کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اہلکار مطلوبہ کوڈ کھولنے میں کامیاب ہوسکے ۔
کیونکہ بار کوڈنگ کا یہ سلسلہ لاہور میں ہے ۔ لیکن سب کو جاننے کا حق ہے کہ
بورڈ کا وہ اہلکار کس اختیار کے تحت پیپر مارک کر رہا تھا؟ کیا وہ اپنی
خاتون خانہ کا ہاتھ بٹا رہا تھا ؟ کیا بورڈ نے اسے یہ مینڈیٹ دے رکھا ہے کہ
وہ اپنی مرضی سے جاکر پیپر دیکھا کرے، اور ان پر نمبر لگایا کرے؟
بورڈ کا یہ مافیا اپنی پوری گینگ کے ساتھ متحرک ہوتا ہے ، جعلسازی کے خواہش
مند ایسے لوگوں سے رابطے میں ہوتے ہیں، وہ بڑی بڑی رقوم کی ادائیگی کر کے
نمبر لگوانے کا دھندہ کرتے ہیں، کام کو یقینی اور تسلی بخش بنانے کے لئے
مافیا کے لوگ خود جاکر مارکنگ کا فریضہ نبھاتے ہیں ، تاکہ کسی شک کی گنجائش
نہ رہے، اور معاوضہ جائز قرار پائے ۔بورڈ کے ارباب ِ اختیار کو ا س نقب زنی
کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے چار افراد کو معطل
کردیا ، اب انکوائری ہوگی، ہوسکتا ہے اسے کچھ روز معطلی کی سزا مل جائے اور
بعد ازاں روایتی بحالی کی خوشخبری۔
قابل غور امر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی بوٹی مافیا کے
خاتمے کے لئے کی جانے والی تمام سرگرمیوں کو ناکام بنانے والے یہ عناصر کون
ہیں؟ ان کے سرے کس کس مضبوط ہاتھوں میں ہیں؟ اگر یہ پیپر ڈی کوڈ ہو ہی نہیں
سکتے تو یہ انہونی کیسے ہورہی ہے ؟ کیا اس کرپشن اور بدعنوانی کا مرکز
لاہور میں ہی تو نہیں ؟ کہ جہاں سے کوڈ دستیاب ہوں ، وہاں سے ہی ڈی کوڈنگ
کا سلسلہ جاری ہو ، اور فی کوڈ حصہ وصول کیا جاتا ہو؟ کیا وزیر اعلیٰ
دوسروں کا حق مارنے والے اس مافیا کے خلاف کوئی سخت ایکشن لیں گے؟ |