مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کے چیئرمین اشرف صحرائی کے
چند روز قبل بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے جواں سال بیٹے کی یاد
میں تحریر۔
میں اسے جانتا نہیں تھا۔ نہ میں نے کبھی اس کو دیکھا نہ میں اس سے ملا۔
لیکن میں اسے "پہچانتا" ضرور ہوں۔ پہچانت تک بات نہیں میں اسے "مانتا"ہوں ۔
ایسے مانتا ہوں جیسے کسی "بڑے"کو ماننے کا حق ہوتا ہے۔ وہ ایسا بڑا ہے جو
مجھ سے بہت بعد دنیا میں آیا ۔ شاید اس کی عمر اتنی ہے جتنی عہد حاضر میں
اشفاق مجید وانی کی شروع کردہ تحریک ۔ اس تحریک سے روز اول سے ہم بھی جڑے
ہیں لیکن ہماری جڑت بس ایسی ہے جیسے رمضانی مسلمان کا تعلق اسلام سے ۔۔۔ اس
کی دھرتی میں بہت ساری انفرادیت ہے ۔ میں اس دھرتی کو اس لیے بھی سلام محبت
پیش کرتا ہوں کہ دس سال قبل جب ظلم و ستم کی انتہا تھی2010میں اس کے شہر
میں میری مائیں بہنیں بیٹیاں عید الفطر کے دن ہم کیا چاہتے آزادی کا فلک
شگاف نعرہ لگاتے میدان عمل میں اتر آئیں۔ دنیاکے لیے انوکھی مثال بنیں کہ
عید کے دن جب ہر مسلمان خوشی کا تہوار مناتا ہے وہ سرینگر میں آزادی کا
نعرہ لگاتے میدان میں اتریں ۔ وہ سر زمین جس کے مکینوں کو تپسی تہ آپ ٹْھس
کرسی۔۔ اس نے دنیاکی تواریخ حریت میں سنہرے باب رقم کیے۔ اس تحریک کے بانی
محمد مقبول بٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کا واحد حریت پسند ہے جس نے
اپنی جان کی قربانی دے کر قائد کا مقام حاصل کیا۔ اس سر زمین میں اشفاق
مجید وانی جیسا بانی کمانڈر انچیف عبدالحمید شیخ جیسا قائد، شبیر صدیقی
جیسا سربراہ تنظیم، بشارت رضا جیسا سالار ، ڈاکٹر عبدالاحد گرو جیسا قابل
فخر سپوت ، پروفیسر عبدالاحد وانی جیسا علم و دانش کا استعارہ اپنی قربانی
دے بیٹھے۔ مقبول بٹ کے گھر سے دو بھائی غلام نبی بٹ اور منظور بٹ قربان
ہوئے لیکن اس سر زمین کو وہ ایک اور منفرد اعزاز دے کر گیا۔ کسی لیڈر کا
لخت جگر میدان کارزار میں اترے دشمن سے دوبدو لڑائی کرے اور پھر اپنی جان
قربان کرے ۔ یہ اعزاز صرف اس کو گیا۔ برسوں پہلے کی بات ہے جب تقسیم برصغیر
کے وقت میرے آباؤ اجداد نے پونچھ کی سرزمین سے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف
بغاوت کر کے عسکری تحریک کا آغاز کیا تو غازی شیر دل کوٹلی کے محاذ سے اپنے
بھائی کی لاش لے کر آبائی گھر آئے تو ایسی ایک مثال قائم ہوئی تھی جب ان کی
ماں نے غازی شیر دل کو کہا تم کیوں زندہ آئے ہو؟ تمہیں بھی شہید ہونا چاہیے
تھا۔ آج جنید صحرائی اس غازی شیر دل کی ماں کی خواہش کو اپنی معصوم اور
خوبصورت جوانی قربان کر کے پوری کر بیٹھا۔ 5اگست2019کے بعد جب بھارت کا ہر
ظلم حد کو چھو رہا ہے پھر ایک ہی راستہ نجات کا رہ جاتا ہے۔ آزادی کا ایک
ہی ڈھنگ۔۔گوریلا جنگ، گوریلا جنگ۔۔۔ اس نے اعلیٰ تعلیم کے باوجود کسی بڑے
عہدے کو حاصل کرنے کے بجائے تاریخ کا دھارا پلٹنے استعمال کیا۔ چند سال قبل
جب وہ اپنے گھر سے میدان کارزار میں اترا تو اس نے علی الاعلان دنیا کو
باور کروایا کہ اب ہندوستانی سامراج سے نجات کے لیے صرف بندوق کا آپشن ہی
ہے اور پھر اس کے عظیم والد نے اس کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے اس
کی بھرپور وکالت کی۔ ہندوستانی حکام کی طرف سے دی گئی لالچ کو قبول کرنے سے
انکار کر دیا۔ اور اپنے لخت جگر کی آواز پر لبیک کہا۔ کل جب اس کا جنازہ
اٹھا تو یہ بھی قابل رشک منظر تھا کہ وہ بوڑھا باپ اپنے لخت جگر کی نماز
جنازہ کی امامت کروانے آگے تھا۔ تاریخ میں اس کو ہی نہیں اس کے باپ کو بھی
ایک منفرد و تاریخ ساز مقام و رتبہ عطا ہو گیا ۔ یہ عنایت صرف خوش قسمتوں
کو ملتی ہے جن کے لیے شاعر نے کہا تھا ۔۔۔ یہ بلند رتبہ جس کو ملنا تھا مل
گیا۔۔۔ ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔۔۔ کل جب قدرت کے سامنے ہر کوئی
اپنے اعمال لیے پیش ہو گا بہت سارے تحریکی قائدین کے سر اس وقت جنید صحرائی
کے سامنے احساس شرم سے جھکے ہوں گے کہ کیوں ان کے "پیارے"جنید صحرائی کی
طرح ہم نے قربان نہیں کیے۔ ہم اوروں کو درس دیتے رہے لیکن اپنے محفوظ رکھے
۔ وہ تو کل کی بات ہے آج دنیا میں ہی جنید صحرائی ایک مثال بن کر سامنے آ
چلا۔ اور اس کے عظیم باپ کو تاریخ نے سرخرو کر دیا۔ چلتے چلتے اتنا کہنا
فرض سمجھتا ہوں کہ مجاہدین کو اپنی حکمت عملی میں جنید صحرائی کی شہادت کے
بعد معمولی سی تبدیلی لانا ہو گی۔ آبادی میں پناہ لینے سے گریز کرنا ہو گا
اور اپنا مرکز و محور بالخصوص کمین گاہیں آبادی سے باہر بنانا ہوں گی۔
آبادی میں کمین گاہوں سے لوگوں کے قیمتی مکانات اور املاک کو انتقام میں
بھارتی فورسز تباہ کر دیتی ہیں۔ جس کا حاصل کچھ نہیں۔ اور موبائل فون کے
استعمال سے بھی گریز کرنا ہو گا ۔ جنید صحرائی کی شہادت کے یہ دو بہت اہم
سبق ہیں ۔ اس مبارک ساعت میں اس کے لیے میرا بس اتنا پیغام ہے۔۔۔ باریابی
جو ہو تمہاری حضور مالک تو کہنا۔۔۔ ساتھی میرے سوختہ جاں اور بھی
ہیں۔۔۔اپنے رستے ہوئے زخموں کے نشان دکھلا کر کہنا۔۔۔ایسے تمغوں کے طلبگار
اور بھی ہیں۔۔۔۔ا
|