بچپن میں منائے جانے والی عیدوں کا سو چ کے ہی صبح کی اوس
جیسی نرم مسکراہٹ چہرے پر آ جاتی ہے کوئی شخص اپنا بچپن نہیں بھولتا دماغ
کے سب کانشیئس میں یادیں محفوظ رہتی ہیں جس میں خوشی، غم اور تکلیف سب شامل
ہوتا ہے۔میں جب بھی یادوں کے پٹ کھولتی ہوں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح
ٹکراتا ہے تو سب سے پہلے بچپن ہی یاد آتا ہے اور اس کے بعد بھینی بھینی سی
خوشبو آنے لگتی ہے ان عیدوں کی جو کہ حقیقی مسرت لیے ہوتی تھی۔
چاند کو چھت پر جا کر دیکھنے کا مزہ ہی اور تھا چاند دیکھ کر دعا پڑھ کر بس
جلدی ہوتی تھی کہ شاپنگ کی جائے وہ اہم شاپنگ سہیلیوں کے لیے عید کارڈ
خریدنا ہوتی تھی چھوٹے چھوٹے جھمکے کسی کے لیے،کبھی ہیئر بینڈ یا کبھی کلپ
خریدنا!پھر مرحلہ آتا تھا کارڈکے اندر کون سا شعر لکھا جائے جیسے!
ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
میری سہیلی لاکھوں میں ایک
یا
گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی
یا
عید آئی ہے سویاں پکی ہیں
سب نے چکھی ہیں
تم کیوں روتی ہو؟
تمہارے لئے بھی رکھی ہے۔
اور ایسے ہی بہت سارے شعروں کے ساتھ ساتھ وہ خاص جملہ جو نہ لکھتے تو
ادھورا سا لگتا تھا '' میری اور میرے گھر والوں کی جانب سے آپ کو اور آپ کے
گھر والوں کو دلی عید مبارک قبول ہو''
اللہ اللہ کرکے یہ مرحلہ ختم ہوتا تو یاد آتا کہ اپنے لیے چوڑیاں بھی تو
لینی ہے مہندی بھی لگوانی ہے آس پڑوس کی بڑی باجیاں سارے گھرکے کام نبٹا کے
مہندی کون لے کر بیٹھ جاتی تھی اور پھر سب سے پہلے میرا ہاتھ،میرا یہ والا
ڈیزائن کی آوازیں اور چائے چلتی دیر تک۔چاند رات پہ تو ہمیشہ ا لگ ہی سماں
ہوتا تھا کوئی بھاگ بھاگ کے کپڑے استری کرتا،کسی کو بال کٹوانے کی جلدی
ہوتی اور گھر کے بڑے شیر خورمہ کا سامان تیار کرنے لگتے تھے کہ صبح صبح سب
سے پہلے شیرخورمہ کھانا جیسے روایت بن گیا ہماری۔
صبح اٹھتے ہی پہلا کام ہوتا تھاکہ چینی والا پانی ہاتھوں پہ لگایا جائے
تاکہ مہندی کا رنگ اچھا آئے نماز عید ختم ہونے کا بے چینی سے انتظار ہوتا
تھاکہ کب جلدی سے بھاگ کر جائے اور اپنے والد صاحب سے عیدی لیں، پھر نکل
کھڑے ہوتے تھے ہم میلوں میں جگہ جگہ اسٹال دیکھ کر دل چاہتا تھا کہ سب
کھالو! چھولے، دہی بڑے،ٹھنڈی کولا، کلفی، آئس کریم کون، بن کباب،گولا گنڈا،
گول گپے اور ساتھ ساتھ جھولے بھی تو ضروری تھے۔
عید والے دن تو نئے کپڑے، نئی چپل اور میچنگ چوڑیاں پہنے ہاتھ میں میچنگ
پرس لئے اور اس میں موجود بہت ساری عیدی کا احساس بڑی خوشی دیتا تھا
سہیلیوں کو کارڈ دیتے اور ان سے ملنے والے لفافے کو کھولنے کی جلدی ہوتی
اندر کارڈ میں لکھی تحریر کو بغور پڑھتے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے جذبات
سے گندھے لہجے میں عید مبارک کہتے اور گلے لگا کر سارے گلے شکوے دور کر
لیتے تھے۔پانچ روپے سے دس روپے تک ملنے والی عیدی میں اتنی خوشی ہوتی تھی
کہ جیسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو بار بار گن کر دوسروں سے موازنہ کرتے
تھے۔صبح سے شام تک رنگین چشمے لگائے خوب گھومتے اور اس کے بعد جب گھروں کو
لوٹتے تو تھکنے کے باوجود یہ احساس توانائی دلاتا تھا کہ صبح ماموں،نانی یا
دادی کے گھر جانا ہے کزنوں سے ملنا ہے عیدی کتنی جمع کی یہ بھی تو پوچھنا
ہے مل کر پھر پارک جانا ہے خوب مزے اڑانے ہیں۔
دن گزر جاتے ہیں وہ لمحے بھولے نہیں جاتے ایک کتاب میں پڑے سوکھے گلاب کی
طرح جو پرانا تو ہوچکا ہے لیکن ایک لمحے میں ہمیں ٹائم مشین کی طرح ماضی
میں لے جاتا ہے سچی خوشیوں کا یہ عظیم صندوقچہ پل پل ہمارے ساتھ سفر کرتا
ہے وقت نکال کر جب بھی کھولو تو تازہ مہندی کی مہک اور چوڑیوں کی کھن کھن
بہت دیر تک سحر میں رکھتی ہے۔
بچپن کی وہ عید پیاری پیاری
جاگتے تھے رات ساری ساری
زیادہ عیدی ملنے پر وہ امیری ہماری
دل چاہتا ہے اسی پل میں جی لوں زندگی ساری
ازقلم: سمیرا ایم۔ ایس۔سایحہ (کراچی، پاکستان)
|