سوال جواب

یہ میری روح اتنی زخمی اور بے یارو مددگار کیوں ہے ۔ سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے مگر جواب ندارد ۔ یہ وجود زہر سے نیلا کیوں ہو رہا ہے ۔ وہ جو ایک سیاہ نقطہ تھا اس نے پھیل کر وجود کو تاریکی سے ڈھانپ لیا ہے اور کوئی درز نہیں چھوڑی جہاں سے روشنی کے داخلے کی امید بنے ۔ میری ذات ایسا جزیرہ جس کو سوچوں کا بھنور کھا گیا ہے ۔ میرے اندر ایسا موسم جس پر ہمیشہ کے لیے خزاں ٹھہر گئی ہے ۔ ایک لاش ہے سانس لیتی جس کو اٹھائے اٹھائے کندھے شل ہو گئے ہیں مگر ابھی اس بوجھ کو ڈھونا ہے جب تک اجل کا ہاتھ میرا ہاتھ نہیں تھامتا ۔ وہ خوشبو کی فضا کب کی تحلیل ہو چکی اور یہ زہریلی فضا جس میں سانس گھٹ گھٹ کر آتی ہے یہی مقدر ہے ۔ یہ ایسا زہر جو ہر سانس کے ساتھ میرے اندر کو جکڑ کر پھر سے آزاد کرتا ہے تاکہ اگلی سانس سے پھر جکڑ سکے ۔ پاؤں ایک جگہ ساکت ہیں مگر ذات سفر در سفر میں مصروف ہے ۔ وہ جو مجھے جانتے ہیں وہ مجھے نہیں جانتے ۔ میرے آس پاس رہنے والے میرے تلخ لہجے اور خاموشی کو دیکھتے ہیں اور طنز بھری باتیں اور مذاق اڑاتی نظریں میرا ہر وقت پیچھا کرتی ہیں ۔ مگر ان کو میری خاموش چیخیں اور ہنسی کے پیچھے چھپی کسک نظر نہیں آتی ۔ وہ دھنک جو میری آنکھوں میں بستی تھی کب سے سورج کی تپش سے جل گئی ۔ اور اس صحرا میں رات کی ٹھنڈک اور تاروں بھری رات اب راستہ بھول کر بھی نہیں آتی ۔ بس تپتی ریت کا سراب ہے جو بھگائے جا رہا ہے ۔ یہ کیسا ان دیکھا پھندہ ہے جو ہر لمحہ سوچ کے گرد دائرہ تنگ کر رہا ہے ۔ دیکھنے ، سننے کے باوجود کوئی شناخت باقی نہیں ، کوئی مطلب واضح نہیں ۔ ایک کنواں ہے جس میں اترتی جا رہی ہوں مگر اس کی گہرائی کہاں ختم ہو گی اس کی خبر نہیں ۔ یہ دھوپ چھاؤں کا کیسا امتزاج ہے جس میں صرف دھوپ کی تمازت ہی شدت سے چمکتی ہے جو چھاؤں کو نگل گئی ہے ۔ یہ اپنے اندر کا سفر ، اپنی ذات سے آگہی ، اپنے وجود سے ہی انکاری ایک سٹیج ہے جس پر ڈرامے کے کردار مختلف ہیں مگر کرنے والی ذات ایک ہے ۔ جو اپنے ڈرامے کی تخلیق کار بھی ہے اور اداکار بھی ہے مگر سب کچھ بس میں ہوتے ہوئے بھی کچھ بھی بس میں نہیں ۔ ایسا امتحان جس کے سوال بھی خود بنائے اور جواب بھی خود لکھے اور جانچ بھی خود کرنی ہے مگر اپنے لکھے الفاظ ہی بیگانہ ہو گئے ہیں ۔ اپنی شناخت اور تخلیق کار سے اپنا تعلق ہی توڑ دیا ہے سوال اور جواب میں ربط ٹوٹ چکا ہے ۔ جملے اپنی ترتیب بدل چکے ہیں لفظ اپنے معنی گم کر چکے ہیں ۔میں حیران پریشان ہوں کہ سوال کہاں سے ڈھونڈوں اور جواب کیسے تلاش کروں یہ اپنی ذات کا امتحان کیسے مکمل کروں ۔
 

Zulikha Ghani
About the Author: Zulikha Ghani Read More Articles by Zulikha Ghani: 13 Articles with 11887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.