شوال اسلامی سال کا دسواں اور حج کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:اَلْحَجُّ اَشْھُرٌمَّعْلُوْمٰتْ۔حج کے مہینے (طے شدہ
اور) معلوم ہیں۔(البقرۃ) علما کی تصریح کے مطابق حج کے مہینے جن کے متعلق
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے؛اس سے مراد شوال،ذوالقعدہ اور
ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ حضرت عمرؓ،ان کے صاحب زادے حضرت عبد اللہؓ،حضرت
علیؓ،حضرت ابن مسعودؓ،حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ
رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہی روایت کیا گیا ہے اور یہی اکثر تابعینؒ کا قول
ہے۔( لطائف المعارف)
حج کا پہلا مہینہ
علما کا اس پر اجماع ہے کہ اشہرِ حج تین ہیں،جن میں سے پہلا شوال (اور
دوسرا ذوالقعدہ) ہے۔(فتح الباری)اور حج کے مہینوں میں سے ہونا شوال کے
مہینے کے لیے عظمت و فضیلت کی دلیل ہے۔آج بھی بہت سے لوگ اسی مہینے سے حج
کے لیے رختِ سفر باندھتے ہیں اورشوال المکرم سے حج کی تیاریاں شروع ہوجاتی
ہیں، جسے ’ماہِ فطر‘ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ یکم شوال عید اور گناہوں کی
مغفرت کا دن ہے، جیسا کہ حدیثِ انسؓ میں تصریح ہے کہ رمضان کے روزے وغیرہ
سے فراغت پر عیدگاہ آنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو گواہ بناکر
مژدہ سناتے ہیں کہ ’بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو‘ الحدیث۔
شوال کے روزے
ماہِ شوال میں عید الفطر اور صدقۂ فطر کے علاوہ ستۂ شوال (یعنی شوال کے
چھے روزے) صحیح احادیث سے ثابت ہیںاور جمہور فقہا کے نزدیک یہ روزے سنت
ومستحب ہیں۔فرض، واجب اور مسنون روزوں کے بعد تمام نفل روزے، جب کہ ان کے
لیے کوئی کراہت ثابت نہ ہو، مستحب ہیں، لیکن بعض روزے ایسے ہیں کہ ان میں
ثواب زیادہ ہے، من جملہ ان کے ستۂ شوال کے روزے بھی ہیں۔ (عمدۃ الفقہ) شیخ
عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں جو امر صحت کے ساتھ ثابت
ہوا ہے، من جملہ ان کے چھے دن کے روزے بھی ہیں۔ (ما ثبت بالسنہ)
شوال کے روزوں کی فضیلت
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے،
تو یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کی طرح ہے۔(مسلم)یہ اس وجہ سے ہے کہ امت محمدیہ
ﷺ کو ہر ایک نیکی کا ثواب دس گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے اور ان روزوں کے
متعلق تو صراحت موجود ہے۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول
اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص عید الفطر کے بعد چھے دن روزے رکھے، اس کو
پورے سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا، (کیوں کہ) جو ایک نیکی لائے، اس کو دس
گنا اجر ملے گا۔ (ابن ماجہ)
شوال کے روزے کس طرح رکھیں
ماہِ شوال کے چھے روزے-جس کے لیے کوئی شرط نہیں ہے- تین اماموں کے نزدیک
مستحب ہیں، مالکیہ کو اس سے اختلاف ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک بہتر یہ
ہے کہ ان روزوں کو متواتر چھے دن رکھا جائے۔مالکیہ کہتے ہیں کہ درجِ ذیل
صورتوں میں ستۂ شوال کے روزے مکروہ ہیں؛ (۱) اگر روزہ دار کوئی ایسا شخص
ہو، جس کی لوگ پیروی کرتے ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ مبادا یہ روزے واجب
سمجھے جانے لگیں گے(۲) یا ان روزوں کو عید الفطر کے اگلے دن ہی سے رکھنا
شروع کردے(۳) یا لگاتار چھے روزے رکھے(۴) یا ان روزوں کا اظہار کرے۔ مذکورہ
بالا باتوں میں سے کوئی بھی بات نہ پائی جائے تو یہ روزے مکروہ نہیں ہوں
گے، البتہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ان روزوں کا عید سے متصل رکھنا سنت ہے
تو یہ روزے مکروہ ہوں گے، اگرچہ روزے ظاہر نہ کیے گئے ہوںاور متفرق طور پر
ہی رکھے گئے ہوں۔حنفیہ کہتے ہیںکہ مستحب یہ ہے کہ یہ روزے متفرق دنوں میں
ہوں، مثلاً: ہر ہفتے میں دو دن۔ (کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ) فتاویٰ
عالمگیری میں بھی احناف کا یہی قول لکھا ہے کہ یہ چھے روزے جدا جدا ہر ہفتے
میں دودو دن مستحب ہیں۔ (ہندیہ)
علامہ شامی ؒفرماتے ہیں کہ صاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب ’تجنیس‘ میں لکھا ہے
کہ عید الفطر کے بعد شوال کے چھے روزے لگاتار رکھنے کو بعض فقہا نے مکروہ
قرار دیا ہے، لیکن مختار قول یہ ہے کہ یہ چھے روزے لگاتار رکھنے میں کوئی
مضایقہ نہیں ہے۔ حسن بن زیادؒ سے بھی منقول ہے کہ شوال کے چھے روزے لگاتار
رکھنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے، اس کے اور رمضان کے درمیان عید الفطر کے دن
کا فصل کرنا کافی ہے۔ ’حقائق‘ میں ہے کہ امام مالکؒ کے نزدیک عید الفطر کے
دن کے بعد متصلاً شوال کے روزے رکھنا مکروہ ہے، ہمارے (یعنی احناف کے)
نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ (شامی)
دو ٹوک فیصلہ
جس طرح مسلم کی روایت میں ’واتبعہ‘کے الفاظ کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ
کی روایت وارد ہوئی ہے، اسی طرح اس مضمون میں ثوبانؓکی روایت بھی آئی ہے،
جسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابنِ ماجہ کی روایت میں’ثم اتبعہ‘ کی
جگہ ’فاتبعہ‘ فاء سے ہے اور اس سے تعقیبِ حقیقی مراد نہیں ہے، کیوں کہ اس
میں عید کے دن کا روزہ لازم آتا ہے، پس اول ماہ میں یا اس کے بعد (پورے
مہینے میں کبھی) بھی (یہ روزے رکھنا) درست ہے۔(ما ثبت بالسنہ)اورحضرت
مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ ماہِ شوال میں چھے دن نفل روزہ
رکھنے کی فضیلت دوسرے نفل روزوں سے بہت زیادہ ہے، ان کو شش عید کے روزے بھی
کہتے ہیں، لیکن اس میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو عید کے اگلے دن
سے شروع کردے تب تو وہ ثواب ملتا ہے ورنہ نہیں،تو یہ خیال غلط ہے بلکہ اگر
مہینے بھر میں ان کو پورا کرلیا تو ثواب ملے گا، خواہ عید کے اگلے ہی دن
شروع کرے یا بعد کو شروع کرے اور خواہ لگاتار رکھے یا متفرق طور پر۔ (زوال
السنہ)
ایک اہم مسئلہ
زوال السنۃ میں ہےکہ بعض لوگ ان چھے روزوں میں اپنے قضاکے روزوں کو محسوب
کرلیتے ہیں کہ شش عید کے روزے بھی ہوجائیں گے اور قضابھی ادا ہوجائے گی،تو
ان روزوں میں قضاکی نیت کرنے سے شش عید کی فضیلت حاصل نہ ہوگی، البتہ قضاکے
روزے ادا ہوجائیں گے، اس لیے کہ یہ قواعد کے خلاف ہے، لیکن سیدی و مرشدی
حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کے فتاویٰ میں مرقوم ہے کہ بعض فقہانے
اس کی اجازت دی ہے۔ فی فتح القدیر: صام فی یوم عرفۃ مثل قضاء، أو نذر أو
کفارۃ و نویٰ معہ الصوم عن یوم عرفۃ، أفتی بعضھم بالصحۃ و الحصول عنھا۔ اھ
(حموی شرح الاشباہ والنظائر)احتیاط اسی میں ہے کہ قضا کی مستقل نیت
کریں۔(محمودالفتاویٰ)
شوال میں نکاح
ایک مسئلہ یہ بھی سمجھنے کا ہے کہ بعض لوگ شوال کے مہینے میں نکاح کو معیوب
سمجھتے ہیں، جب کہ اس مہینے میں نکاح کرنا مستحب ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت
ہے، وہ فرماتی ہیں :رسول اللہﷺ نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور میری رخصتی
بھی شوال میں ہوئی۔(مسلم)اسی لیے وہ اپنے متعلقین عورتوں کی رخصتی شوال میں
مستحب قرار دیتی تھیں ۔امام ترمذی نے اس پر مستقل باب باندھا ہے: باب: مَا
جَاءَ فِى الأَوْقَاتِ الَّتى يُسْتَحَبُّ فِيهَا النِّكَاحیعنی وہ اوقات
جن میں نکاح کرنا مستحب ہے ۔نیز امام نوویؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم
ہواہے کہ شوال میں نکاح کرنا اور شبِ زفاف منانا مستحب ہے۔ ہمارے اصحاب نے
اس کے استحباب کی صراحت کی ہے اور اس کے لیے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے
اور حضرت عائشہؓ کے اس قول کا مقصد اہلِ جاہلیت کے رواج کی تردید کرنا ہے ،
جو کہ آج بھی موجود ہے۔(شرح مسلم)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج بھی مسلمانوں میں جاہلیت کی یہی سوچ باقی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔واللہ ہو الموفق
|