عید کا کیا کہنا ؟ جو مسلمان کبھی خوش نہیں ہوتا وہ بھی
عید کے دن خوش ہوجاتا ہے اور جو مسلمان جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں
نہیں جاتا وہ بھی نہا دھو کرعید گاہ میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ
مسلمان عید کے دن خوش کیوں ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب حدیث پاک میں یہ ملتا ہے
کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ہر قوم کے لئے عید اور خوشی کے دن ہیں اور آج(
یعنی اختتام رمضان پر) ہماری عید کا دن ہے ‘‘َ َ َ َ۔اس حدیث مبارکہ سے پتہ
چلتا ہے کہ اجٹماعی طور پر خوشی منانا انسان کی فطرت کا تقاضہ ہے۔ اس کو
پورا کرنے کی خاطر دین اسلام میں یہ دن مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ عید
کے دن سارے مسلمان خوشیاں مناتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف
لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں 2دن خوشی منایا کرتے تھے، اب اللہ نے تم کو
ان سے بہتر2 دن عطا فرمائے ہیں( یعنی)عید الفطر اور عید الاضحیٰ۔‘‘
اسلامی تقویم میں دن سے پہلے رات آتی ہے ۔ عید الفطر کی ابتداء تو چاند کے
نظر آتے ہی ہوجاتی ہے ۔ عید کے دن کی ایک ایک سنت ہمیں یاد ہے اور ہم اس
پر عمل بھی کرتے ہیں ماشاء اللہ لیکن عید کی رات کے بارے میں حضور اکرم ﷺ
نے جو کچھ فرمایا اسے بھول جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عید کی تیاری کے
باقی ماندہ کاموں کو پورا کرنے کا یہی آخری موقع ہوتا ہے۔ اس بار کورونا
کی وباء کے سبب دنیا کے بہت سارے مسلمان عید کے دن کیے جانے والے مستحب
اعمال سے محروم رہیں گے لیکن یہی محرومی ہمیں عید کی رات کی جانے والی بہت
ساری مصروفیات سے بے نیاز بھی کردے گی۔ عید کی رات کو ہمارا قیمتی وقت جن
بازاروں کی نذر ہوجایا کرتا تھا وہ اس بار بند ہوں گے ۔ ہم لاکھ چاہ کر بھی
وہاں نہیں جاسکیں گے ۔ اس لیے کیوں نہ یہ پتہ لگایا جائے کہ نبی مکرم ﷺ نے
اس رات کے بارے میں کیا فرمایا :
عید کی رات کو فرشتوں میں خوشی کے سبب دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت
ان پر جلوہ فرماکر دریافت کرتے ہیں کہ بتاؤ، مزدور اپنی مزدوری پوری کر
چکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اجرت ملنی
چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :فرشتوتم گواہ رہو! میں نے محمدﷺ کی امت کے
روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لئے جنت واجب کر دی اسی لئے اس رات کا نام
فرشتوں میں ’’لیلۃ الجائزہ‘‘( یعنی) ’’انعام کی رات‘‘ ہے۔تو سوال یہ ہے کہ
اس رات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو نیک نیتی اور
اخلاص کے ساتھدونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا تو اس بندے کا دل نہیں مرے
گاجس دن اور وں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔‘‘کورونا کی وباء سے متعلق کوئی بھی
پابندی ہمیں عید کی شب عبادت و ریاضت سے نہیں روک سکتی ۔ اس سے پہلے چونکہ
ہماری شب ِ عید بازاروں کی نذر ہوجاتی تھی اس دل مردہ ہوجاتے تھے لیکن اس
بار مذکورہ حدیث کی روشنی میں اپنے قلب کو حیاتِ جاودانی عطا کرنے کا یہ
نادر موقع موجود ہے ۔ سو کوئی ہے جو نصیحت قبول کرے ؟
اس بار عید کی صبح نماز عید کے لیے نہیں جاپانے کا قلق ان لوگوں کو بھی
ہوگا جو آخری وقت میں مرتے پڑتے مسجد میں پہنچتے تھے کیونکہ نبیٔ پاک ﷺ نے
فرمایا : ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا
ہے۔ وہ گلی کوچوں راستوں میں کھڑے ہو کر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان
اور جنات کے علاوہ سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے امت محمدیہ کے لوگو! تم
اپنے رب کریم کی طرف نکلو، جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش
دیتا ہے۔ جب روزہ دار عید گاہ میں پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان فرشتوں
سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیئے جنہوں نے اپنے کام احسن
طریقہ سے انجام دے دیا۔ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ
یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دیدی جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے
فرشتو! تم گواہ رہو اُن کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش
ہو گیا اور ان کو بخش دیا ہے‘‘۔ اس طرح گویا جس نے شب میں اپنی بخشش کا
موقع گنوادیا اس کو صبح میں دوسرا موقع دیا جاتا ہے ۔ اس سال جو لوگ دوسرے
موقع سے محروم ہیں ان کے لیے پہلا موقع تو موجود ہی ہے۔
عید کے دن اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ : اے میرے بندو! تم مجھ سے
مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا
و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی
خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضگی سے ڈرتے رہوگے تمہاری خطاؤں اور
لغزشوں کو درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے نہ
تمہیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمہاری رسوائی ہونے
دوں گا۔ میں نے تم سب کو معاف کر دیا۔( اے بندے) تو نے مجھے راضی کرنے کی
کوشش کی تومیں تجھ سے راضی ہو گیا۔ یہ اعلان اور انعام و بخشش سن کر فرشتے
جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔
یہ بشارت یقیناً ان بندوں کے لیے جو اللہ کی حمدوکبریائی بیان کرنے کے لیے
عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں لیکن اگر وہ کسی مجبوری کے تحت یکجا نہیں ہوسکے
اور انہوں نے اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں بیٹھ کر وہی سب طلب کرلیا تو کیا
رب العالمین انہیں دھتکار دے گا ؟ جبکہ ارشاد ربانی ہے ’’اور جب میرے بندے
آپ (محمدؐ) سے میرے بارے میں سوال کریں تو (آپ ؐ کہہ دیں) میں یقینا قریب
ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا و پکار کو سنتا
ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ تو ان پر لازم ہے کہ وہ میری آواز پر لبیک کہیں اور
مجھ پر ایمان لائیں (یقین رکھیں) تاکہ وہ نیک راستہ پر آجائیں‘‘۔ اتفاق سے
یہ آیت روزوں سے متعلق احکامات سے بالکل متصل ہے اس لیے اگر ہم اپنے گھروں
میں رب کائنات سے وہی سب مانگیں گے جو عام حالات کے اندرعید گاہ میں مانگتے
ہیں تو وہ ہماری مجبوری کا لحاظ کرکے اپنی شانِ کریمی سے ہمیں نواز دے گا ۔
اس لیے کہ اس کا وعدہ ہے۔
عیدالفطر کی وجہ ٔ تسمیہ صدقہ فطر پر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ زکوٰۃ
الفطر فرض ہے ۔وہ لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گی جو رمضان میں روزہ کے
ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوگئے ہوں ۔ نماز عید سے پہلے جو اسے ادا کرے
گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہو گی،جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے
صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد،
غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے ‘‘۔ کورونا کی تمام تر پابندیوں کے باوجود ہمیں
اس کی ادائیگی کا پوراا موقع میسر ہے۔ عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھا
کر اپنے گھر سے عید گاہ کی جانب بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے جانے کی
سنتِ سے اس سال بہت سارے مسلمان محروم رہیں گے اور انہیں دوگانہ نماز کے
بعد امام کے خطبہ کو نہیں سن پانے کا بھی افسوس ہوگا لیکن عید کے دن مندرجہ
ذیل دعا نبی کریم ﷺ کیا کرتے تھے وہ تو ہم اپنے گھر پر بھی کر ہی سکتے ہیں
:
’’یا اللہ!ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں،یا
اللہ !ہمارا لوٹنا رسوائی اور فضیحتکا نہ ہو، اے اللہ! ہمیں اچانک ہلاک نہ
کرنا نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے
بھی رہ جائیں،اے اللہ! ہم تجھ سےدعا کرتے ہیں کہ ہمیں حرام سے اور دوسروں
کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی فضیحت سے بچا لے ،اے اللہ !ہم تجھ سے پاکیزہ
زندگی ،نفس کا استغناء، بقا، ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی
بہتری طلب کرتے ہیں، اے ہمارے رب!ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق، ریاء
بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اے دلوں
کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا اور
ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرما ، بے شک توہی سب کچھ دینے والا ہے‘‘۔
عام طور پر عید کی گہما گہمی میں ہم میں سے کم ہی لوگوں نے شعور کے ساتھ یہ
دعا مانگی ہوگی ۔ اس بار تنہائی میں یہ کرکے دیکھیں ۔ ہوسکتا ہے اسے خالق
کائنات اس کو شرف قبولیت سے نوازدے ۔
صحابہ اور تابعین نے عید کی انفرادی خوشی کے کئی انوکھے پہلو بیان کیے ہیں
مثلاً حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی5 عیدیں ہیں (یعنی خوشی کے
مواقع ہیں): پہلا تو یہ کہ ہر مومن جس دن گناہ سے محفوظ رہےیعنی اس سے کوئی
گناہ سرزد نہ ہو تو وہ اس کے لیے عید کا دن ہے۔ دوسراوہ دن کہ جب مسلم مرد
و عورت دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے تو وہ بھی اس کی خاطر عید کا دن
ہے۔ دنیا کو داغ مفارقت دینے والا دن بھی گویا عید سعید ہے۔ اس دارِ فانی
سے کوچ کرجانے کے بعد عید کا تیسرا موقع اس دن ا ٓتا ہے جب کو اہل ایمان
دوزخ کے پل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔ یقیناً اس دن مومنین کی خوشی کا
کیا ٹھکانہ کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچ گیا لیکن جو گرجائے اس کے لیے خوشی کا
موقع چوتھے مرحلے میں ہے یعنی اس دن جب مسلمان دوزخ سے بچ کر(اپنی سزا پوری
کرکے) جنت میں داخل ہو جائے۔ پانچواں اور سب زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہے جب
مسلمان اپنے رب کی رضا کو پا لے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن
کرلے۔ اس سے بڑا عید کا دن اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اس کے آگے ساری خوشیاں
ہیچ ہیں ۔
صحابۂ کرام نے ان باتوں کو اپنی زندگی میں برت کردکھایا ہے۔ حضرت علی ؓ کو
کسی نے عید کے دن خشک روٹی کھا تے ہوئے دیکھ کر پوچھا :اے ابو ترابؓ!آج
عید ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا:ہماری عید اُس دن ہے کہ جس دن کوئی گناہ سرزد نہ
ہوا ہو۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت انس ؓ نے سب پہلے ارشاد فرمائی ۔ اس سے پتہ
چلتا ہے کہ انسان کی خوشی اور غم کا تعلق مادی آسودگی مثلاً کھانے پینے
وغیرہ کے بجائے روحانی ارتقاء سے ہے جو گناہوں سے بچنے کے سبب حاصل ہوتا
ہے۔ حضرت وہب بن منبہ ؓ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: اس مسرت و
شادمانی کا دن ہے آپ کیوں رورہے ہیں تو حضرت وہبؓ نے فرمایا:یہ خوشی کا دن
اُس کے لئے ہے جس کے روزے مقبول ہو گئے ہوں۔حضرت شبلیؒنے عید کے دن لوگوں
کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا تھا : ’’لوگ عید میں مشغول ہو کر
وعید کو بھول گئے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فضائلِ عیدبیان کرتے ہوئے نہایت دلچسپ
موازنہ پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے
اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وعید اور
پکڑ سے بچ گئے۔عید ان کی نہیں جنہوں نے بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا
بلکہ عید تو ان لوگوں کی ہے جنہوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم
رہے۔عید ان لوگوں کی نہیںجنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے
پکائے بلکہ عید تو ان کی ہے جنہوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور
نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔عید اُن کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے بلکہ
عید تو اس کی ہے جس نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔عید اُن کی
نہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ
کر لیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پل سے کا میابی کے ساتھ گزر
گئے۔عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہو گئے بلکہ عید ان لوگوں کی
ہے جنہوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔ ہم نے پہلے قسم کی عیدیں تو
بہت ساری منائی ہیں۔ اس بار مجبوری میں سہی دوسری طرح کی عید منائیں ۔ بعید
نہیں کہ قیامت کے دن میزانِ عمل میں یہ ہلکی پھلکی عید دیگر بھاری بھرکم
عیدوں سے بھاری نکل جائے۔
|