پچھلے کچھ عرصے ترکی صدر رجب طیب اردگان کی سرپرستی میں
بننے والا ڈرامہ غازی ارطغرل دنیا بھر میں کے مسلمانوں میں بہت مقبول ہو
چکا ہے۔ اس کی شہرت ایک سال پہلے ہی پاکستان میں بھی ہو چکی تھی، لیکن ایک
ماہ قبل وزیر اعظم کی ایڈوائس پر جب اسے سرکاری ٹی وی پر نشر کیا گیا تو
سوشل میڈیا پر کسی چیز کے وائرل ہونے کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ارطغرل کی
پہلی قسط صرف بیس دن میں پاکستان میں اتنے لوگوں نے دیکھی کہ خود ترکی میں
اتنے لوگوں نے پانچ سال میں دیکھی تھی۔ جس پر نہ صرف ترک حکومت بلکہ اس
ڈرامے میں کام کرنے والے کردار بھی حیران ہوگئے، اور پھر اپنے اپنے پیغامات
میں انہوں نے پاکستانی عوام کا شکریہ بھی ادا کیا اور لاک ڈاون ختم ہونے کے
بعد پاکستان آنے کا وعدہ بھی کیا۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ لبرل طبقہ اس ڈرامے
کے پاکستان میں نشر ہونے سے سخت بے چین ہے، اور ہر وہ حربہ آزمانے کی کوشش
کررہا ہے جس سے اس کی نشریات کو روکا جائے یا کم از کم اس کے اثرات کو ختم
کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ہمیں ان لبرلز کی طرف سے یہ کہنے اور سننے کو
مل رہا ہے کہ اس ڈرامے میں ترک روایات اور تاریخ دکھائی گئی ہے، ہمیں اس سے
کیا لینا دینا ہماری تو اپنی تاریخ اور اپنے ہیرو موجود ہیں۔ یہ وہی لبرلز
ہیں جنہوں نے پچھلے پچاس سال سے کبھی بھی انڈین فلموں اور انڈین کلچر کو
پاکستان میں امپورٹ کرنے پر دو حرف نہیں کہے تھے۔
چنانچہ ان لبرلز اور ان کے پروپیگنڈے کی زد میں آنے والے بعض عام مسلمانوں
نے بھی کثرت کے ساتھ ہرمسلک کے علماءسے وقتا فوقتا سوالات کے ذریعے اس
ڈرامے پر تبصرہ کرنے اور اسے دیکھنے کی شرعی حیثیت واضح کرنے کے لیے پوچھا۔
حالانکہ کئی دہائیوں سے عموما اور پچھلے چند سالوں سے خصوصا ہمارے ٹی وی
چینلز پر جس قسم کے بیہودہ، اور حقیقت سے کوسوں دور فحاشی،عریانی، بے حیائی
پر مبنی ڈرامے دکھائے جا رہے تھے ان کے بارے کبھی اتنی بحث نہیں کی۔ ہمارے
ہاں جس قسم کے ڈرامے اور ان ڈراموں میں جس قسم کے مناظر، لوگ،لباس،مکان اور
اقدار دکھائی جاتی ہیں وہ نہ تو پاکستانی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ
ہی شریعت میں ان کی کسی قسم کی گنجائش ہے۔
مجھ سے بھی اسی قسم کے سوالات ہوتے رہتے ہیں اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ
اس مسئلے پر تھوڑی سے گفتگو کرلی جائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں موسیقی اور غیر
محرم عورتوں کی تصاویر یا سین دکھانے کی گنجائش نہیں ہے، اور تقوے کا تقاضا
یہی ہے کہ اس قسم کی چیزوں کو دیکھنے سے اجتناب کیا جائے۔ اس ڈرامے کو
دیکھنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کوئی ثواب کا کام ہے، لیکن جن لوگوں کے
گھروں میں پہلے سے ہی ٹی وی موجود ہے اور وہ ٹی وی پراگر اور کچھ نہیں
دیکھتے صرف خبریں ہی سنتے ہیں تب بھی خبریں سنتے ہوئے انہیں عورت کا چہرہ
اس کی آواز اور طیارہ گرنے کی خبر کے ساتھ ساتھ ڈھول دھمکا بھی سننا پڑتا
ہے۔ اسی طرح جس کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنیٹ موجود ہے اور اس میں لازما
فیس بک، یوٹیوب،انسٹاگرام،وٹس اپ اور ٹک ٹاک بھی انسٹال ہے اور چاہتے نہ
چاہتے ہوئے بھی روزانہ کئی بار ویڈیوز ، تصاویر اور سٹوری کی شکل میں بے
تحاشہ میوزک،اور غیر محرم عورتوں پر نظر پڑتی ہے، اور ان کے پاس اس بات کا
اختیار بھی ہے کہ وہ سادہ بٹنوں والا موبائل ہی یوز کریں لیکن وہ پھر بھی
سمارٹ فون ہی یوز کرتے ہیں، ایسے میں اگر دیگر گند دیکھنے کے بجائے ارطغرل
دیکھ لیا جائے تو بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے۔ ہاں جو بندہ نہ ٹی وی
دیکھتا ہے اور نہ ہی سمارٹ فون استعمال کرتا ہے اور نہ اس کا سوشل میڈیا پر
کوئی اکاونٹ بنا ہوا ہے ، اس کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ ارطغرل ضرور
دیکھے۔
لیکن جو نوجوان سارا دن فیس بک اور یوٹیوب پر پہلے سے ہی فلمیں اور ایسے
بیہودہ ڈرامے دیکھتا ہے جن میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ شادی شدہ عورت کیسے
کسی دوسرے مرد سے دوستی لگا سکتی ہے، باپ کو اپنی بیٹی سے کیسے لو ہوجاتا
ہے، گھر میں دودھ دینے والا کس طرح خاتون خانہ سے ناجائز تعلق قائم کرلیتا
ہے، سکول پڑھانے والی ٹیچر کس طرح آٹھویں کلاس کے پندرہ سالہ لڑکے سے عشق
رچاتی اور ناجائز تعلق قائم کرتی ہے۔ گھر میں کام کرنے والی لڑکی یا لڑکے
سے گھر کے مرد یا عورت کا کس طرح خفیہ سیکس تعلق ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ایسے ڈرامے دیکھنے والے نوجوان کو اگر ترغیب دی جائے کہ وہ ہیرون چھوڑ کا
سادہ سگریٹ پی لیں یعنی ان بیہودہ ڈراموں کو چھوڑ کر ارطغرل دیکھیں تو کوئی
حرج والی بات نہیں بلکہ بہتر ہے۔
پچھلے چند سالوں سے جب سے سوشل میڈیا اور خصوصا ٹک ٹاک شروع ہوا ہے ہمارا
نوجوان خصوصا لڑکیاں بیہودگی کی ساری سرحدیں عبور کرچکی ہیں۔ اور دس دس
سیکنڈ کے بے مقصد اور بیہودہ کلپ بنا بنا کر اپنے وٹس اپ کی سٹوری میں لگا
تے ہیں جس سے نہ صرف اخلاقی بلکہ معاشرتی طور پر بھی بہت نقصان اور بڑے بڑے
سانحات کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی گھر اور عزتیں نہ صرف پامال ہوئیں
بلکہ سینکڑوں گھر اجڑے، طلاقیں ہوئیں،عزتیں تار تار ہوئیں، قتل ہوئے، بچے
یتیم ہو گئے۔
آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، کتاب پڑھنے اور تاریخ کا مطالعہ کرنے کا
سلسلہ صرف ڈگری حاصل کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، عام عوام تو عوام ہیں
خواص اور پڑھے لکھے لوگوں نے بھی کتابوں کو پڑھنا چھوڑ دیا ہے، حتی کہ
علماءتک دینی معلومات اور احادیث کے ریفرنس دیکھنے کے لیے امام گوگل سے
استفادہ کرتے ہیں۔ پہلے تعلیم، نالج، اور نظریات کو بنانے یا بگاڑنے کا جو
کام کتابوں کے ذریعے کیا جاتا تھا اب وہ سوشل میڈیا اور ویڈیوگرافی کے
ذریعے کیا جارہا ہے۔ زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ آلات علم بھی تبدیل ہو
گئے ہیں۔ اگر ہم ذرا گہرائی کے ساتھ صرف اس بات پر غور فرمالیں کہ آج کے
مسلمان اور سو سال پہلے کے مسلمان میں سوائے کلمے کے زمین آسمان کا فرق ہے
تو مبالغہ نہ ہوگا۔ آج کے مسلمان کا چہرہ، حلیہ ، وضع قطع، لباس، رہن سہن،
طور طریقے اور اطوار، بات چیت کا انداز، زبان ، اصطلاحات، رویہ حتی کہ دینی
اور مذہبی تصور ہر چیز تبدیل ہو چکی ہے۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا یہ تبدیلی
کیسے آئی؟ کیا یہ تبدیلی ہتھیاروں کے زور پر لائی گئی ہے؟ تو اس کا جواب ہے
نہیں۔ یہ تبدیلی ویپن وار سے نہیں بلکہ کونٹینٹ وار(مواد کی جنگ) کے ذریعے
لائی گئی ہے۔ اگر ہتھیاروں کے ذریعے یہ تبدیلی لانا ممکن ہوتی تو دو سو سال
تک یہاں انگریز نے حکومت کی تھی لیکن وہ بھی اتنی تبدیلی نہیں لا سکا جتنی
تبدیلی صرف تیس چالیس سال میں پرامن طریقے سے کونٹینٹ وار کے ذریعے دنیا
بھر کے مسلمانوں میں آئی۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے افغانستان کو مسلسل
جنگوں میں ہی دیکھا ہے پہلے دس سال تک روس پھر خانہ جنگی اور پھر بیس سال
سے امریکاوہاں ویپن وار لڑ رہا ہے لیکن افغانوں کا نہ کلچر تبدیلی ہوا، نہ
رہن سہن بدلا نہ زبان بدلی، نہ اصطلاحات بدلیں اور نہ دین و مذہب کا تصور
تبدیل کرسکا۔ افغان عورت آج بھی وہی برقہ پہنتی ہے جو تین سو سال پہلے
پہنتی تھی۔وہ الگ بات ہے کہ مسلسل جنگوں نے ان کی معاشی حالت ابتر کر دی ہے
جس کی وجہ سے معاشی مسائل اور پیٹ بھرنے کے لیے کچھ جرائم عام ہوئے ہیں۔
اس مختصر سی گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ آج حقیقت میں کونٹینٹ
وار نہ صرف لڑی جارہی بلکہ دشمن بڑی کامیابی سے فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا آگے
کی طرف بڑھ رہا ہے۔اور ہم ابھی تک یہ سوچ رہے ہیں کہ کونٹینٹ وار لڑنا جائز
ہے یا ناجائز ہے۔ چونکہ ترک قوم اپنی ایک عظیم تاریخ رکھتی ہے اور اس تاریخ
کی روشنی میں وہ بخوبی جانتے ہیں ہمارے آباو اجداد نے دشمن کے کس طرح چاروں
شانے چت کیے تھے، اور کس طرح ہمارے مسلمان بھائی بیس بیس سال مصنوعی پادری
بن کر عیسائیوں کی گرجوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے ذمہ داریاں نبھاتے
رہے اور ہمیں آج کے دشمن کو کس طرح ڈیل کرنا ہے، اسی لیے انہوں نے ارطغرل
نامی یہ سیریل لانچ کی اور واقعتا اس سیریل نے ذہنوں کی تبدیلی اور تاریخ
سے واقفیت حاصل کرنے کے حوالے سے توقع سے بڑھ کر کام کیا۔
اب ہمارا کرنے کا کام کیا ہے؟
چونکہ یہ سیریل دنیا بھر میں مقبول ہو چکی ہے اور اپنی تاثیر کے حساب سے
ایک موثر ہتھیار کے طور پر کام کررہی ہے، اور سب سے زیادہ مقبولیت اسے
پاکستانی نوجوانوں میں ملی ہے جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ خلافت
عثمانیہ کی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں مارکیٹ سے شارٹ ہو گئی ہیں اور لوگ
خلافت عثمانیہ کی مستند تاریخ پڑھنا بھی چاہتے ہیں اور جاننا بھی چاہتے
ہیں۔ کہاں ایک سال پہلے کا وہ وقت جب بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی خلافت
عثمانیہ کا نام تک نہیں جانتے تھے اور کہاں یہ ایک مہینہ کہ ٹک ٹاک پر
مسخرے کرنے والے پندرہ پندرہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں بھی خلافت عثمانیہ ،
اور اس کے قیام کے لیے ہونے والی جدوجہد سے واقف ہو گئے اور ان کا تجسس بڑھ
گیا ہے کہ ہم مزید مستند طریقے سے اس تاریخ کو جانیں۔ ایسے میں اہل علم اور
دین کا درد رکھنے والے مسلمانوں اور خصوصا علماءکی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ
وہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے دروس، خطبات اور تقاریر میں خلافت
عثمانیہ کو اپنا موضوع سخن بنائیں اور اس پیاس کو بجھانے کی کوشش کریں جو
اس ڈرامے نے نوجوانوں کے ذہنوں میں پیدا کی ہے۔ نہ صرف خلافت عثمانیہ بلکہ
خلافت راشدہ سے لے خلافت عثمانیہ تک کی ساری تاریخ سلسلہ وار بیان کریں۔
خلافت کیا ہے کیوں ضروری ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں یہ وہ موضوع ہیں جنہیں
بیان کرنے کی جتنی آج ضرورت ہے شاید اس سے پہلے اتنی نہ تھی۔
پہلے تو ہمیں بہت کچھ سمجھانا پڑتا تھا لیکن طیب اردگان کی ایک کاوش سے
سمجھانے کا کام بخوبی سرانجام دیا جاچکا ہے اور اب سمجھانے سے زیادہ اصل
حقائق بتانے کی ضرورت ہے۔ اس ڈرامے نے بلاشبہ ایک بہت بڑا جمود توڑا ہے اب
ہماری ذمہ داری ہے ہم اسے کیش کرتے ہیں۔
|