عید پر رسنے والا دائمی زخم

سب کچھ بہت اچھاجارہاتھا،زندگی ایک خوبصورت اورحسین وجمیل کھیل تماشہ محسوس ہورہی تھی اورہم سب زندگی کے شب و روزسے لطف اندوز ہورہے تھے۔سوشل میڈیاپرزندگی کی زندہ دلی سے لگ رہاتھاکہ سب اچھاہے اوراب توکوئی پریشانی ہی نہیں رہی۔کچھ ایسانہیں جس کادکھ منایاجاسکے کہ جونہی 2019ء کاآخری سورج غروب ہوکر2020ءکی خوبصورت اورخوشنما صبح کا سورج طلوع ہوا دفعتاً کروناوائرس کاغلغلہ بلندہوا۔آغازمیں تو کسی نے نوٹس نہیں لیااوراسے چین کامسئلہ سمجھ کراپنی خوشیوں کاسفرجاری رکھالیکن دیکھتے ہی دیکھتےتمام اندازے غلط ثابت ہوگئے اورمارے خوف کے احساس نے یقین کاروپ دھارلیااور زندگی کاسفرختم دکھائی دینے لگاکہ زندگی رک گئی ہے اوروقت کے پاؤں جلنے لگے ہیں۔سب کے چہروں پرایک انجاناساخوف بری طرح چھاگیااوریوں لگتاتھاکہ موت کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں ہم سب، گویااندرسے آوازآنا شروع ہوگئی کہ آج اس کی باری ہے اورکل میری……..اپنے پیاروں کی جدائی سے زیادہ اپنی موت کے خوف نے اوسان خطا کردیئے۔

لیکن پوچھنایہ تھاکہ ہم توزندگی میں داخل ہی اس وعدے کے ساتھ ہوئے تھے کہ اسے محدودوقت کیلئے استعمال کریں گے، اچھے اورزندگی دینے والے کے احکام کے مطابق بسرکریں گے اورکبھی بھی واپسی کابلاوہ آئے گااورکسی میں انکارکی مجال تک نہیں ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیاہمیں 2020ء سے پہلے یہ سب کچھ معلوم نہیں تھاکہ ہم نے اس دنیاکے مختصرسفرکے بعدواپس بھی جانا ہے۔اس اینٹ،گارے،سریے،شیشے سے تعمیرکردہ مکانات،محلات، سرسبزپھلوں،پھولوں دیگربے بہانعمتوں کے عارضی عیش وآرام یکدم ہم سے چھین لئے جائیں گے۔اگرپہلے بھی ہمیں یقین تھاتوپھر2020ء کے آغاز سے ہی ایسی بے بسی،مجبوریوں،خوف ودہشت کے انبارسے گھبراہٹ اورپریشانی کیوں؟پچھلے چنددنوں سے لاک ڈا ؤ ن کی نرمی کے بعد بازاروں، شاپنگ پلازوں،مارکیٹوں میں پاگل پن کی حدتک انہی افرادکابے ہنگم رش دیکھتاہوں تویقین نہیں آتاکہ یہ سب وہی لوگ ہیں جوکچھ دن پہلے بھوک سے مررہے تھے ،آج ہزاروں لاکھوں کی خریداری میں مصروف ہیں ،ممکن ہے بہت سے لوگوں کومیری یہ مثال انتہائی ناگوارگزرے لیکن کہے بغیرچارہ بھی تو نہیں ۔

مجھے اپنے ملک سے نکلے ہوئے تقریباًنصف صدی ہوگئی ہے بلکہ یوں کہوں کہ لڑکپن کاسفرسراورچہرے پرسجی ہوئی ریش میں مکمل سفیدی میں بدل گیا ہے لیکن اس پردیس نے پاکستان کی محبت کوہرآنے والے دن میں میرے تمام جذبات و احساسات کو یکسرجوان رکھاہے تویہ غلط نہ ہوگا۔مجھے یہاں کے بہترین سوشل انصاف،تعلیم،علاج معالجہ اورانفرادی خوبیوں نے ازحدمتاثر کیا۔اگریہاں کے لوگوں کی عادات پرنظردوڑائیں توان کواپنی روایات،گھر بارسے بڑی محبت ہے لیکن وہ ہماری طرح ان دیواروں سے چپک نہیں جاتے،وہ قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لیتےہیں،بنجاروں کی طرح کمرپربیگ لٹکاکر کہیں بھی نکل جاتے ہیں،سڑکوں پر سونےمیں عارنہیں سمجھتے،ایک جھونپڑی کواپنامستقل مسکن بنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اورکچھ دیرقیام کرنے کے بعد اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے کسی اورجھونپڑی کارخ اختیارکرلیتے ہیں۔

لیکن اس کے برعکس ہم لوگ،میں اورآپ بلکہ ہماری کئی پچھلی پشتیں جیسے جیسے وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوتے ہیں، بڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں،ہم ذہنی دبا ؤ (ڈیپریشن)کاشکارہوجاتے ہیں۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خوبصورتی ، یہ طاقت،یہ حسن و جوانی،یہ مال ودولت،شان وشوکت اوریہ اقتدارجواس وقت ہمارے پاس ہے۔یہ کسی اورکومنتقل ہوجائے گا۔کل کوئی اوران تمام اختیارات سے مستفیذہورہاہوگااورہم یہ جانتے ہوئے بھی اس کیلئے تیارنہیں ہوتے ۔اسی لئے ہمارے ملک میں ریٹائرمنٹ کاکوئی تصورہی نہیں کیونکہ ہم تو ریٹائرمنت کی بجائے توسیع(ایکسٹینشن)پریقین رکھتے ہیں بلکہ اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دوسال اورکام کرلوں،میرابیٹا چھوٹاہے، اس کی تعلیم ابھی نامکمل ہے،وہ ڈاکٹریاانجینئربن جائے تو ریٹائرمنٹ لے لوں گا،بیٹی ہے،اس منصب کی بناء پرکسی اچھی جگہ شادی ہوجائے توپھرریٹائر ہو جا ؤ ں گا۔ایک اوراچھی سی گاڑی اورایک بڑاسا ڈیفنس یا کسی اچھی لوکیشن پرمکان بنالوں توپھرایک اورتوسیع کی خواہش دل میں نہ پالوں گاکیونکہ ہمارے ملک میں کوئی ریٹائرمنٹ لیتاہی نہیں کیونکہ ہمارے ہاں مرنے کے پلان کے بارے میں سوچناممنوع ہے۔ہم توبس جوان ہیں،جوان ہی رہیں گے، کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے بلکہ ہمارے منصب کی طاقت ہمارے ذہنی طورپرجوان رہنے کابیش بہاٹانک ہے،اسی لئے ریٹائرمنٹ کاکوئی پلان نہیں بناتے کیونکہ ہمارااس بات سے یقین ختم ہوگیاہے کہ ہم نے اس دنیاسے رخصت بھی ہوناہے حالانکہ ہم اپنی زندگی میں اپنے کئی چھوٹے بڑے عہدیداروں کواپنے کندھوں پرمنوں مٹی کے نیچے چھوڑکربھی آتے ہیں۔

دورنہ جائیں،کل ہی کی توبات ہے کہ اپنے لواحقین سے مل کرعیدکی خوشیاں منانے والے 97سے زائدمسافرخوشی سے دمکتے چہروں کے ساتھ لاہورسے کراچی جارہے تھےکہ منزل سے صرف اورصرف ایک منٹ قبل اجل نے ان کوآلیااوربچنے والے ایک عینی شاہدنے ٹی وی اینکرکویہ بتایاکہ جہازنے رن وے کوچھوبھی لیاکہ اچانک کپتان نے جہازکامنہ پھرآسمان کی طرف کردیا گویا اجل نے مسکراکرکہاکہ تم سب کی سانسوں پرختم شدکی مہرثبت کردی گئی ہے اورتمہاری دائمی منزل وہی ہے جس کاتمہیں اس دنیامیں آنے سے پہلے بتادیاگیاتھا۔کروناکی وحشت سے اگرہم کچھ سیکھ نہیں سکے توکم ازکم اس عیدپر سینکڑوں گھروں میں آج سارے اپنے پیاروں کادکھ منارہے ہیں،اسی حادثے سے ہی کچھ سیکھ لیں۔جانے والے تواس جہاں سے رخصت ہوگئے،مقتدر حلقوں سے کوئی بھی تحقیقاتی رپورٹ آئے،ان کی بلاسے لیکن ہم تواس بات سے واقف ہیں کہ اس سے قبل اسلام آبادکی پہاڑیوِں پر، چترال میں میرے انتہائی پیارے دوست جنیدجمشیدکے علاوہ دیگرچھ مسافربردارجہازوں کی تباہی کی المناک تحقیقاتی رپوٹس کے بعدایسی ہی ایک رپورٹ ہمارامنہ چڑانے کیلئے داخل دفترہوجائے گی لیکن ان شہدا کے ماں باپ اورلواحقین کے دلوں کازخم ہرعید پررستارہے گا۔

2020ء نے کم ازکم مجھے ایک سبق سکھایاہے کہ یہ زندگی بہت بے معنی اورمختصرہے اوراگرہم نے اب بھی اس کاسوچ سمجھ کربہترین استعمال نہ کیاتویہ کل اپنی مٹھی سے سرکتی ریت کو پھسلنے سے روک نہ پائیں گے اورپتہ بھی نہ چلے گا۔ابھی بھی وقت ہے،آپ پوسٹ کرونادنیامیں سانس لے رہے ہیں،کوشش کیجئے کچھ اچھاکرجائیں،بے آسرا،مظلوموں کی کوئی مددکر جائیں،کوئی ایساسلسلہ بناجائیں،کوئی ایسی مثال بن جائیں جوآنے والے وقتوں میں آپ کی تقلیدبن جائے۔
کیٹاگری میں : آج کاکالم، پاکستان
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.