تعلیم کو کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی
اہمیت ہے۔ اس اہمیت کو حکومت وقت کا وزیر اعظم مزید اجاگر کر سکتا ہے، ورنہ
اس ریڑھ کی ہڈی سے ایک پٹھے کو ہلا دیا جائے تو یہ بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی میرے وطن پاکستان میں ہو رہا ہے، تعلیم کے نام پر اسٹیج پر
تقاریر ہوتی ہیں، قوم کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چورن بیچا جاتا ہے،
تعلیمی نظام کو دُنیا کا بہترین نظام بنانے کے دعوے کیئے جاتے ہیں، اس پر
میری قوم کے نوجوان امیدِ نو لیئے شادمانے بچاتے ہیں، اور آنے والے اقتدار
کے ٹولہ کو اپنا محسن سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ایسا ہونا اور سوچنا بیوقوفی
کی علامت ثابت ہوتا ہے، جس ملک میں انگھوٹھا چھاپ، میٹرک پاس، گورنر، وزیر
تعلیم موجود ہو ں وہاں تعلیم کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ جن ممالک نے
تعلیم کو حقیقت میں ریڑھ کی جانا اور سمجھا انہوں نے تعلیم کو اہمیت دیتے
ہوئے ترقی کی راہوں کو پایا، ملائیشیا ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے مختصر
مدت میں عدیم المثال ترقی کی۔ آج ملائیشیا کو دنیا کی تیز رفتار ی سے بڑھتی
ہوئی معاشی طاقت تصور کیا جارہا ہے۔ ملائیشیا ایشیاء میں بہترین اقتصادی
ریکارڈ رکھتا ہے جس کی جی ڈی پی کی شرح اوسطاً 6.5 فیصد سالانہ ہے اور یہ
شرح گزشتہ پچاس برسوں سے قائم ہے۔ ملائیشیا کی معاشی ترقی اور مضبوط و
مستحکم نظام کے پیچھے ایک بڑی وجہ معیار تعلیم اور بہتر شرح خواندگی
ہے۔ملائیشیا کی قیادت نے اس حقیقت کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا کہ دنیا میں
معاشی ترقی کے لیے سب سے بنیادی چیز تعلیم ہے۔ تعلیم کے فروغ کے بغیر ترقی
و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس نے ملائیشیا میں تعلیمی
اداروں کو اپنے ایجنڈے اور معیشت کا اہم عنصر بنایا اور ملک میں تعلیم کو
اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرلیا۔تعلیم کا معیار بین الاقوامی تعلیمی
معیار کے برابر لانے کے لیے انقلابی اقدامات کئے اور آج ملائیشیا کی
یونیورسٹیاں دنیا کی معیاری جامعات میں سے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں زر، زن اور
زمین کو اپنی ترقی کے لیے اوڑھنا بچھونا بنا لیا، حال ہی میں کورونا کی وجہ
مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن شروع ہوتا ہے، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس وبا کے
پھیلا ؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن نرم کیا گیا یا پھر وقت کی نزاکت کے
مطابق لاک ڈاؤن کھول دیا گیا۔ میرے پاکستان میں تعلیمی نظام کی گنگا اپنا
ہی رنگ لیے ہوئے پروان چڑھ رہی ہے، حکمرانوں کو تعلیمی نظام کی کوئی فکر
نہیں جس کے بغیر ملکی ترقی ناگزیر ہے، سرکاری اساتذہ کو سکول کھلنے یا
کھلنے سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ان کو سیلری مل رہی ہے اور مزے کی بات یہ
بھی ہے سرکاری تعلیمی سیکٹر میں اسّی فیصد وہ ٹیچرز ہیں یا تو انہیں ان کے
معیار کے مطابق اچھی جاب نہیں ملی یا پھر وہ جو اچھی جاب کے لیے اوور ایج
ہونے سے بچنے کے لیے خوامخواہ کے ٹیچر ہیں، نجی ادارے اس بوجھ کو اپنے
کندھوں پر اٹھائے ہوئے تقریباًساٹھ فیصد تعلیمی شرح خواندگی میں اپنا کردار
ادا کر رہے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس نجی ادارے کے لیے کوئی جگہ نہیں، جو
عام نجی ادارے ہیں جن کی بلڈنگز کرایہ پر ہیں،ٹیچنگ سٹاف جو اپنی سفید پوشی
چھپاے گزر بسر رہے تھے وہ بے روزگار ہو گئے، حکومت سے جب تقاضا کیا گیا تو
انہوں نے ان کے لیے کوئی SOP تیار کرنے کی بجائے سختی سے نبٹنے کا حکم جاری
فرمایا۔حکومتی رویے نے یہ ثابت کیا کہ ہمیں تعلیم سے کوئی سروکار نہیں بلکہ
IKکی حکومت انصاف سکول لانچ کرنا چارہی ہے اور نجی اداروں کو بالکل ختم
کرنے کے درپے ہے، پھر نام نہاد فارمولے کے تحت ایک قوم ایک نصاب کی مد میں
ناقابل تلافی اسلامی اقدار اور تاریخ کو نقصان پہنچے گا، جس کا سوچ بھی
نہیں سکتے اور اس کا ازالہ بھی ناممکن ہو گا۔ نجی اداروں کے ختم ہونے سے بے
روزگاری اور شرح خواندگی میں بہت تیزی سے کمی واقع ہو گی۔ اگر گورنمنٹ
سیکٹر کا نظام تعلیم اتنا ہی اچھا ہوتا تو کم و بیش 95 فیصد سرکاری ملازمین
کے بچے نجی اداروں میں زیر تعلیم نہ ہوتے، ایک قوم نصاب ہو نے کے باوجود
ایسے نجی ادارے قائم رہیں گے جن میں بیوروکریٹس، امراء،حاکم وقت اور وڈیروں
کے بچے زیر تعلیم ہونگے، صرف اور صرف ایک عام اور متوسط طبقے کو چورن بیچا
جائے گا جسے لوگ بڑے شوق سے خریدیں گے، لیکن اس کے دور رس نتائج سے سب بے
خبر ہوں گے۔ یہ ایک ایسا پودا تیار کر دیا جائے گا جس کا سایہ کاٹنے کو
دوڑے گا لیکن پھر بھی اسی سایہ کو تکیہ بنانا پڑے گا۔ ہر دور میں تعلیم کے
نام سے قوم کو اُلّو بنایا گیا، کبھی دانش سکول تو کبھی کچھ اور اب انصاف
سکولز کا چرچہ ہونے کو ہے، یہ وہی وزیر اعظم کرنے جارہا ہے تو تعلیم کو
ریڑھ کی سمجھتا تھا، کرپشن کو ناسور لیکن آج اس کی ناک کے نیچے کرپشن بھی
کئی گناہ بڑھ چکی ہے اور تعلیم نظام بھی فیل ہو رہا ہے، نجی تعلیمی نظام کے
متعلق اس کے رائٹ ہینڈ وزیر تعلیم نے واضح کر دیا ہے اور یہ خود بھی اپنی
تقاریر میں One Nation One Corriculumکہا کرتا تھا۔ اب دیکھتے ہیں یہ اونٹ
کس کروٹ بیٹھتا ہے، میری قوم جس دن نظام تعلیم اپنی اہمیت کھو بیٹھا تو پھر
عام، متوسط اور سفید پوش کا جو حال ہو گا اسی نسل صدیوں بھول نہ پائے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ میرے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور اسوہ حسنہ
کے مطابق تعلیم نظام رائج ہو۔ میری قوم ذرا سوچیں ہمارے ساتھ ہونے کیا
جارہا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔ عین ممکن ہے میری یہ تحریر
اچھی نہ لگے لیکن وقت کا نتظار ضرور کرنا۔ شکریہ
|