زندگی فقط زندہ رہنا ہی نہیں بلکہ جینے کا نام ہے۔ہر لمحے
کو اس کی لذت کے مطابق اس سے لطف اندوز ہونے کو جینا کہتے ہیں۔ہم نے خود کو
اس جملے تک محدود کر رکھا ہے کہ "زندگی گزر ہی جائیگی" جبکہ زندگی نہیں
گزرتی _ انسان گزرتے چلے جاتے ہیں۔ جو اپنی کچھ یادیں کچھ باتیں چھوڈ جاتے
ہیں جو ہمیں انکی یاد دلاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔نفسا نفسی کے اس عالم میں حال تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے
کا وقت بھی نہیں ملتا۔نا تو کسی رشتے کو جوڑے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اور
نہ ہی کسی سے جڑے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ( رب کی ذات نے ہمیں زندگی گزارنے کے
تمام اصولوں سے متعارف کروایا ہے )ہم جان ہی نہیں پاتے کہ کس لمحے کس طرح
جینا ہے؟
وقت کا تناسب برقرار رکھیں۔لمحوں کو قید کرنا سیکھیں۔زیادہ سے زیادہ وقت
اپنوں کے ساتھ گزاریں۔کسی *چائے* کی پیالی کا ذائقہ ایسے اپنی زبان پر
جمائے رکھیں کہ عمر بھر نہ جانے پائے۔ کچھ میٹھے الفاظ کی چاشنی کو زبان
میں اس طرح گھول لیں کہ جب جب آپکے منہ سے کوئی لفظ نکلے تب تب ہر سو مٹھاس
پھیلتی جائے۔
●کسی سرگوشی، کسی مسکراہٹ، آسمان میں گھلتی دھوپ، گھنے درختوں کی ٹھنڈی
چھائوں، کوئی قہقہہ، کوئی سہ پہر، کوئی سناٹا، کوئی آنسو، کوئی ایسا جذبہ
جس نے پہلے آپکو توڑا اور پھر پتھر سا مضبوط بنا دیا، کوئی ڈھلتی شام، کوئی
اڑتی پتنگ ( قوس قزح کے خوبصورت رنگ) کوئی گہری خاموشی، کہیں کسی سے بچھڑ
جانے کا خوف، کسی کو دل میں بسانے کا جذبہ، کہیں ہلکی پھلکی خواہشات کا
اظہار، کبھی چھوٹی سی بات پہ دل جلا لینا، کہیں تنہا بیٹھ کر آنے والی
زندگی کے بارے میں سوچنا، کبھی بند آنکھوں سے کسی شخص کا چہرہ دیکھنا اور
آنکھیں کھولتے ہی مسکرا دینا، کبھی پانی پیتے پیتے منہ سے فوارے کی شکل میں
پانی اڑا دینا، کہیں دل میں رنجش رکھ لینا، کبھی کوئی روٹھ جائے تو مان
جانے کے لیئے اصرار نہ کرنا، کبھی دل میں محبت ہوتے ہوئے بھی اظہار نہ
کرنا، کبھی پرانی یادوں کو نئی باتوں میں رنگ دینا، کبھی مسکراتی ہوئی
زندگی کو ٹھکرا دینا۔۔۔۔۔۔اور ان تمام سے بڑھ کف یک طرفہ محبت کرنا اور پھر
اظہار کر دینا _ یہ ہی زندگی میں رنگ بھر دینے والی چیزیں ہیں۔ جب تک جہاں
تک ممکن ہو ان سے لطف اندوز ہوا کریں۔
خوش رہنے کے لیئے ایک چیز بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں
خوشی کا احساس تلاش کریں۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے کر دوسروں کو زندہ رکھیں۔
آپکی مدد سے کسی کو خوشی ملتی ہے تو دیر نہ کریں۔ بانٹنے کی صلاحیت پیدا
کریں۔ *علم بانٹیں* کوئی پیسوں کا طلبگار ہے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسکی
مدد کریں۔کس کو راستہ دے دیں۔کوئی آپکے دو بول (جو اس کی تعریف میں ہوں)
سننے کو بے قرار ہے تو اسکی تعریف کر دیں۔ کسی کو مشورہ چاہیئے تو مشورہ دے
دیں۔ کسی کو کچھ نہیں دے پا رہے تو سچے دل سے رب کے حضور اسکے لیئے دعا کر
دیں۔ کوئی اپنے کندھے پہ آپکی محبت بھری تھپکی کا طلبگار ہے تو کسی کو آپکے
دو لفظ درکار ہیں۔
یہ ہی ہیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں!
انہیں بانٹنے میں دیر نہ کریں۔ اگر آج آپ کسی کو ان سے نوازتے ہیں تو اس کا
اجر دنیا میں تو ملے گا ہی لیکن اللہ تعالی کی ذات نے جو تحائف آپکے نام کے
سنبھالے ہوں گے وہ آپکی سوچ سے بھی بالاتر ہیں۔
زندگی میں ترتیب پیدا کریں۔ کھانے اور سونے کا وقت مقرر کریں۔کچھ وقت اپنے
لیئے نکالیں جس میں آپ صحیح اور غلط کا تعین کر سکیں۔ اپنے کیئے ہوئے غلط
فیصلوں پر خیال کریں اور بذات خود انکی اتنی مذمت کریں کہ دوبارہ وہ غلطی
نہ دوہرائی جا سکے۔زندگی کے بہترین موڑ جو آپ پر اپنی وجہ سے گزرے ہیں انکی
بھر پور موافقت کریں۔بہتر کو بہترین بنانے کی کوشش میں لگ جائیں۔خود کسی کی
تنقید کا نشانہ نہ بنیں اور نا ہی کسی کو اپنی نظر میں اس مقام تک
لائیں۔اپنے فیصلے پر اپنے بڑوں کے فیصلے کو فوقیت دیں۔ جہاں ت ک ممکن ہو
خود کو مصروف رکھیں۔انسانیت کی فلاح کیلئے کام کریں۔ کبھی ایک کپ چائے گہری
تنہائی اور ڈوبتی شام کے ساتھ وقت گزاریں۔گھر لوٹتے پرندوں کی آوازوں کو
سنیں۔کبھی بلاوجہ دریا کے کنارے بیٹھ کر لہروں میں اٹھتی بے چینی کو محسوس
کیا کریں۔کاغذ کی کشتی سے جڑی یادوں کو تازہ کریں۔سیاہ رنگ کو بد قسمتی سے
منسوب مت کریں۔بوسیدہ پیڑوں اور پرانی حویلیوں کی صحبت میں کچھ وقت
گزاریں۔یہ ہمیں جھکے رہنے کا درس دیتی ہیں۔ خزاں کے موسم میں درختوں سے
جھڑتے پتوں کی چینخوں کو محسوس کیا کریں۔لوک داستانوں کو توجہ سے سنا
کریں۔برف باری کے خوبصورت لمحات کو نظروں میں بسا لیں اور قدرت کے مناظر سے
لطف اندوز ہوا کریں۔ *ماں کی گود* میں سر رکھ کر تسکین حاصل کر لیا
کریں۔جھرنے سے گرتے پانی کی ایک ایک بوند میں سے آنے والی بے حساب آوازوں
کو سنا کریں۔
_____یہ سب چیزیں تنہا تھیں اور ہمیشہ سے چیختی چلاتی اپنی تنہائی کا ماتم
کرتی رہتی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ تو اب ذرا انسان کی نا شکری پر غور
کریں۔اپنے نام کے جڑے بے شمار ناموں کے ہوتے ہوئے بھی کسی رشتے کی پہچان ہی
نہیں کر پاتا اور جنہیں جان لیتا ہے انہیں بھی اپنی نادانیوں میں کھو دیتا
ہے۔وہ محسوس ہی کر پاتا کہ انہیں کی بدولت تو زندگی خوبصورت ہے یا ہو سکتی
ہے۔ حقیقت میں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم انسان ہونے کا حق ہی ادا نہیں کر
سکے۔ اور انسانیت سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔
میں اور آپ (ہم سب) اگر ان باتوں کو اپنا لیں تو انشاللہ بہت جلد ہم تعلیم
یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی کہلائیں گے۔
#میری تحریروں سے اقتباس
*افراء عروج*
|