تحصیل جتوئی تاریخ وجغرافیہ

قصبہ جتوئی ضلع مظفرگڑھ کاقدیم ترین قصبہ ہے بلوچ قبیلہ کی جتوئی شاخ کے نام سے اس کے مورث اعلیٰ میربجارخان نے ۵۱۶سال قبل ساحل مکران سے آنے کے بعداس کی بنیاد رکھی ۔ میربجارخاں کے متعلق تاریخ بلوچاں میں واضع ذکرتونہیں ہے مگراتناذکرضرورہے کہ ساحل مکران کے ساحل پر میرجلال خان کی اولاد میں میررندخاں، میرلاشارخاں،میرہوت خاں، اوران کی ایک صاحبزادی’’جتو‘‘تھیں۔جتوکی شادی میرجلال خان کے چھوٹے بھائی میرچاکرخان کے صاحبزادے میرمرادخان سے ہوئی جہاں سے غیرمصدقہ معلومات کے مطابق اس قبیلے کانام جتوسے جتوئی بنا۔ حالانکہ بلوچ قبائل کے علاوہ دیگرعام قبائل نسل مرد سے چلتی ہے مگریہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ جتوجوکہ ایک عورت تھی ان کے نام سے قبیلے کانام جتوئی کیسے بنا؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرجلال خاں کی نسل نے آگے چل کررنداورلاشارکہلواناشروع کردیااوران کے اندرباہمی چپقلش نے زورپکڑلیاتومیربجارخان نے تنگ آکراوراپنے قبیلے کوساتھ لے کردریائے سندھ عبورکرکے سیت پور مین داخل ہوگئے اس وقت ریاست سیت پورعلی پور کے قریب کے نزدیک قصبہ جہاں پرآج بھی اس وقت کے والی ریاست کامزارموجود ہے کے نہڑخاندان کی حکومت تھی اس وقت نہڑ خاندان کاطاہرخٓن حکمران تھاجس کی عیش وعشرت اوربدانتظامی کے قصے عام ہوگئے تھے۔اندرونی خلفشارزوروں پرتھاظلم، ہوس اورعیش و عشرت کی وجہ سے عوام کااعتماداٹھ چکاتھا۔ان تمام کمزوریوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے کئی مخالف ریاست کوکمزورکرنے کے درپے ہوگئے تھے۔ ریاست کاانتظام تقریباً ختم ہوکررہ گیاتھااس دوران میربجارخان واردہوااوراس نے اس علاقہ کوفتح کرکے قصبہ جتوئی موجود کے ساتھ اپنے مسکن کاعلان کردیااوردیکھتے ہی دیکھتے ان کاطوطی بولنے لگا۔اوراس طرح انہوں نے جتوئی قصبہ کی بنیادرکھ کر اس علاقہ کی ذمہ داری اپنے بڑے بیٹے میرنوتک خان کے سپرد کردی اوروہ اپنے دیگر بیٹوں کے ہمراہ علاقہ ساہیوال ضلع شاہ پورکی طرف روانہ ہوا۔اس طرح وہاں اس نے کافی علاقے پرقبضہ جمالیا۔کچھ عرصہ بعداس علاقے کاانتظام وانصرام اپنے بیٹوں کے حوالے کرکے خودلشکرسمیت سندھ کوہولیا۔کچھ عرصہ سندھ گزارنے کے بعدجتوئی آیاپھریہاں سے قصبہ شاہ پورروانہ ہواجہاں پران کاانتقال ہوگیاجہاں پران کامقبرہ بنایاگیااورساتھ مسجدبھی بنائی گئی جہاں پرمقبرہ آج بھی اپنی حالت میں موجودہے مگرمسجدکی حالت مخدوش ہے۔

میرنوتک خاں جوکہ جتوئی قبیلے کاسردارتھااس نے اپنی جائیداداپنی اولاد میں برابرتقسیم کی اپنے فرزندمیرلوہارخان کوعلاقہ جتوئی وگردونواح کامالک ومختاربنادیا۔یادرہے ڈیرہ غازی خان کی تاریخ میں لوہارخان کااصل نام لوہارخان قوم لوہارات جتوئی لکھاہے ۔ میرلوہارخان کے بعدان کے فرزندمیرجہان خاں، میرسیدخاں اول،میردولت خاں، میرسیدخاں دوم،میردولت خاں دوم ،میرسیدخاں سوم، میرحاصل خاں، میردوست علی خاں،میرکوڑاخاں اول،میرسیدخاں چہارم علاقہ کے تین واربنے۔

میرسیدخاں چہارم کے فرزندان سردارکوڑاخاں جتوئی دوم اورسرداربجرخاں جتوئی تھے سردارکوڑاخاں جتوئی محسن عوام تین واربنے۔انہیں اپنے علاقہ کی عوام سے بے پناہ محبت تھی عوام سے محبت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کے بچوں کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے 1899میں اپنی جائیداد کا۱/۹حصہ وقف کردیااس وقت کے لوکل فنڈموجودضلع کونسل مظفرگڑھ کوبرائے رفاہ عامہ ۰۰۰،۹۲)بانوے ہزار)کنال جس میں تیس مواضعات ہیں ان میں ضلع مظفرگڑھ،ضلع ڈیرہ غازی خان،ضلع راجن پوروغیرہ عطیہ کردیااوردوتہائی اپنی بیویوں میں تقسیم کردی ۔ ان کی وفات کے بعدان کے بھائی بجرخاں کے فرزندسیدخاں پنجم کے فرزندان نصراﷲ خان جتوئی اول ،سردارمحمدبخش خاں جتوئی سرداربجرخان دوم اورسردارمحمدشفیع خاں تھے۔سردارنصراﷲ خاں جتوئی اول قوم جتوئی لوہارات کے سردارمنتخب ہوئے اوران کے بعدسردارنذرمحمد خاں جتوئی (سدابہارایم پی اے ) نے جتوئی قوم کو سیاسی عروج دیااوعران کے فرزندان میں سردارعبدالقیوم خاں جتوئی سابق ایم این اے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ،وزیربرائے دفاعی پیدواررہ چکے ہیں

جکہ نصراﷲ خان جتوئی مرحوم صوبائی وزیررہ چکے ہیں مگرنصراﷲ خان جتوئی کی وفات کے بعدجتوئی گروپ کیلئے جیت جیسے خواب بن کررہ گیاہو۔

میربجارخان کے قائم کردہ قصبہ جتوئی کوتودریانے سندھ کی ظالم موجوں نے گھیرلیا جس کے دوحصے تھے ایک حصہ جس میں جتوئی سردارجبکہ دوسراحصہ لشکر،سپاہ ،اہل حرفہ رہائش رکھتے تھے۔سابقہ جتوئی اورموجودہ جتوئی میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے ایک حصہ کوآج بھی چھوٹاجتوئی جہاں آض بھی جتوئی سرداروں کی رہائش گاہیں ہیں جبکہ دوسرے حصہ کوبڑی جتوئی کہتے ہیں جہاں پرتمام کاروباری لوگ مختلف قسم کے کاروبار دکانیں ودیگرپیشے کے ساتھ آباد ہیں ۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندؤں کی اکثریتی آبادی بڑی جتوئی میں رہتی تھی جبکہ قیام پاکستان کے بعدہجرت کرنے والے جبکہ بھارت سے پاکستان آئے تواکثریت جتوئی جبکہ کچھ لوگ چھوٹے جتوئی میں ڈیرہ جمالیاتھا۔بڑی جتوئی میں بھی جتوئی خاندان کا ایک حصہ رہائش پذیرہے اوروہ بھی انگریز دورمیں ذیلدارہوتے تھے۔جبکہ چھوٹے جتوئی جن میں سردارکوڑاخان جتوئی محسن پاکستان انگریز دورمیں مجسٹریٹ تھے ۔

جتوئی خاندان کی اس تحصیل کیلئے کئی قربانیان ہیں مگرپچھلے تین الیکشن میں بدترین شکست نے نہ صرف جتوئی خاندان کومایوس کیابلکہ جتوئی گروپ کے سپورٹران وووٹران کو بھی جتوئی گروپ سے دورکرتادکھائی دیاہے ۔اگرجتوئی خاندان کی بات کرتے ہوئے سردارخان محمدخان جتوئی کی بات نہ کی جائے توزیادتی ہوگی جنہوں نے 2013کے الیکشن میں جیت کرنہ صرف لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے بلکہ کروڑوں کے کام کراکے اپنے حلقے کے لوگوں کے زخموں پرمرہم لگایالوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے عظیم رہنماسردارشہزادخان جتوئی نے کبھی عوامی مسائل سے نہ غافل ہوئے نہ خان محمدجتوئی کو ہونے دیاجتوئی کے عظیم منصوبوں جن جتوئی کرکٹ سٹیڈیم سولنگ،سڑکیں،گلیاں نالیاں،قبرستان کی چاردیواری،نہرکی مضبوطی کے علاوہ کئی ایسے کام ہیں جن کاذکرکرنے سے جگہ توکم پڑسکتی ہے مگرخان محمدکے کارنامے نہیں۔ یہاں پرتھوڑاساTHQہسپتال جتوئی کی توسیع کاخلاصہ پیش کرناچاہوں گاجوکہ 60سالہ ہسپتال ہے مگرکبھی کسی سیاستدان نے یہاں آنے کی زحمت نہیں اٹھائی اورانہ ہی کبھی مڑکردیکھامگرخان محمدجتوئی نے اپنی عوام کے دکھ کومحسوس کرتے ہوئے ہسپتال کووزٹ کیااوراس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے 9کروڑ50لاکھ کی گرانٹ منظورکرائی پھرایک کروڑ 29لاکھ روپے میں ہسپتال سے ملحقہ 40کنال 16مرلے اراضی خریدی اورآج THQہسپتال میں راقم نے خودوزٹ کیااورعوام کااعتماددیکھ کرتعریف کیے بنارہ نہ سکااگرسب سیاستدان خان محمدجتوئی کی طرح سوچنے لگیں توکوئی تحصیل کیاہمارے ملک کو ترقی کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.