افغانستان: عیسائی مشنریوں کی یلغار-قسط۱

جس وقت برصغیر پاک و ہند پر برطانوی انگریز مسلط تھے، اس دور میں ترویج عیسائیت اور مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کیلئے عیسائی مشنریوں نے جو ایک طوفان بدتمیزی اٹھایا تھا وہ آج بھی نہ صرف یہ کہ تاریخی کردار میں محفوظ ہے بلکہ اسی سخت امتحان و آزمائش کا سامنا آج افغان مسلمان کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے نام سے جو جنگ افغانیوں پر مسلط کی گئی ہے اس سے تو صرف ان کے جان و مال کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اندرون خانہ افغانستان کی نسل نو اور نوجوان طلبہ کو جس طرح اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ایمان سے محروم کرنے اور مرتد بنانے کیلئے عیسائی مشنریاں سرگرم ہیں یہ ان کے ایمان کو چاٹ رہی ہیں۔ اور کوئی بھی اس خطرناک سیلاب کے آگے بند باندھنے والا نہیں ہے۔ سوچا جا سکتا ہے کہ جب ہمارے ملک پاکستان میں جو ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اس کی شناخت ہی ” اسلامیت“ ہے، یہاں متعدد عیسائی مشنریاں، رفاہی اداروں اور خدمت عامہ کے پرکشش عنوانات کے پس پردہ ترویج عیسائیت کیلئے متحرک رہتی ہیں حالانکہ یہاں کا قانون ومعاشرہ انہیں اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لیکن پھر بھی اہل اسلام کیخلاف ان کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ اس قسم کی درجنوں رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں پاکستان میں کام کرنے والے عیسائی مشنریوں کے طریقہ کار، مقاصد، پس پردہ متحرکات اور اسباب و ذرائع کی مکمل تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور حکومت کو اس کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، پھر جب یہ دشمنان اسلام موجودہ وقت میں افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں، وہاں کی کرسی اقتدار پر انہی کے پروردہ انہی کی آشیر باد سے قابض ہیں اور انہیں وہاں اپنی کسی نوع کی سرگرمیوں سے روکنے ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں تو ان حالات میں عیسائی مشنریوں کیلئے اپنا مشن شروع کرنا، مسلمانوں کو رفاہی خدمات کے عنوان سے اپنے چنگل میں پھنسانا اور انہیں بہلا پھسلا کر عیسائیت کی دعوت دینا اور اسلام سے برگشتہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ اس جنگ کا کچھ وقت گزرتے ہی انہوں نے اپنا کام شروع کر دیا تھا مگر چونکہ وہاں آزاد ذرائع اطلاعات نہیں ہیں بلکہ جو کچھ امریکہ اور اس کے غلام چاہتے ہیں وہی دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کر کے حقائق کو مکمل چھپایا جاتا ہے۔ اس لیے حقائق پوری طرح سامنے نہیں آ پاتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ افغانستان میں سرگرم عیسائی مشنریوں کا ہے جن کی سرگرمیوں کو مکمل پردہ میں رکھا گیا ہے تاکہ خفیہ طور پر یہ مشن پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے اور اس لیے بھی تاکہ اس کے خلاف دیگر اسلامی ممالک سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہو۔ اس حوالے سے راقم کوجو شواہد ملے ہیں وہ قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں:

(۱)۔ ایک عربی جریدے کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی مشنریاں 2006ءسے اپنے مشن میں بہت تیزی سے سرگرمی دکھا رہی ہیں۔ اور اس وقت کابل شہر میں نصف درجن کے قریب خفیہ ارتدادی کیمپ بشکل چرچ بنائے گئے ہیں جہاں آزاد اور روشن خیال مسلمان نوجوانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے جمع کر کے انہیں عیسائیت کی تبلیغ کی جاتی ہے اور اسلام سے بیزار کیا جاتا ہے۔ اس جریدے میں افغان صحافی احمد شاہ کی ایک تفصیلی رپورٹ اور بیان سے ایسے متعدد حقائق بیان کیے گئے ہیں، جس میں اس نے اپنے مشاہدات و تحقیقات سے عیسائی مشنریوں کی افغانستان میں جاری اِرتدادی سرگرمیوں کی تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔ افغان صحافی کے بقول اس نے خود کابل میں متعدد خفیہ عیسائی چرچوں کا معائنہ کیا ہے اور وہاں کئی افغان باشندوں سے خود ملاقات کی ہے جو ان مشنریوں کی دعوت سے عیسائیت قبول کر کے مرتد ہو چکے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں کابل کے نواح میں واقع ایک گھر میں گیا جو ان سرگرمیوں کیلئے مرکز بنا ہوا تھا۔ اس مرکز کا نگران رستم خان کے فرضی نام سے شہرت رکھتا تھا اور اس کا تعلق تاجکستان سے تھا۔ لیکن درحقیقت وہ عیسائی تھا۔ اسی اثناء میں کابل یونیورسٹی کے چھ طالب علم اور دو طالب علم ایک دوسرے میڈیکل ادارے سے وہاں آ گئے۔ رستم خان نے سب کو انجیل کا ایک ایک نسخہ پکڑایا اور پھر انجیل کا درس شروع کر دیا۔ اور تقریباً گھنٹہ بھر کے قریب اپنے درس میں عیسائیت کے مشہہور عقیدہ تثلیث پر تقریر کرتا رہا اور اس کی حقانیت و سچائی ثابت کرنے کیلئے جہالت اور جھوٹ کے پلندوں سے خوب کام لیتا رہا۔


گھنٹہ بھر کی تقریر کے بعد اس کا سبق ختم ہو گیا اور میں ان طالب علموں کے ساتھ باہر آ گیا کیونکہ مکان خفیہ مرکز ہونے کی وجہ سے ظاہری سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ اور کشادہ نہیں تھا بلکہ یونہی سادہ اور تنگ سا تھا اور طالب علموں کی ایسی ہی ٹولیاں وقفے وقفے سے وہاں پہنچ رہی تھیں ،تو ایک ٹولی کی فراغت کے بعد جب وہ چلے جاتے اور مکان خالی ہو جاتا تب دوسرا گروپ تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچ جاتا۔ صحافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے خفیہ مراکز کا بل شہر کے علاوہ بغلان ،مزار شریف، قندوز، جلال آباد اور بامیان میں بھی موجود ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی منکشف ہوئی ہے کہ اس میں بھارت بھی ایک حد تک اچھی طرح ملوث ہے اور وہاں سے بھی عیسائی مبلغ خاص طور پر اس مشن کیلئے کابل وغیرہ میں متحرک ہیں۔ اس حوالے سے افغان صحافی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان نوجوانون کو جو شخص لیڈ کر رہا ہے اس کا فرضی نام ذکی بتایا جاتا ہے۔ یہ شخص نیو دہلی کے ایک بڑے چرچ سے یہاں افغانیوں کو عیسائی بنانے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ اس معاملے میں اس کی خاص معاون، تھائی لینڈ کی ایک عیسائی خاتون ہے جو بظاہر کابل کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر بنی ہوئی ہے۔ اور وہاں آنیوالے مریضوں سے تعلقات قائم کر کے، انہیں اپنے دام تزویر میں لا کر عیسائی بنانا اس کا آسان اور سہل حربہ ہے۔ نیز افغان صحافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے خود اس ذکی نامی شخص کی مدد سے کابل شہر میں سات ایسے چرچ دیکھے ہیں جو عیسائیت کی ترویج کیلئے خفیہ مرکز کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ صحافی بعض اہم مجالس میں بھی حاضر رہا ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ 2008ءمیں اس نے کرسمس کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی جس میں 150 خاص افراد جمع تھے۔ اس مجلس کے 4 ماہ بعد مجھے اطلاع دی گئی کہ یو کرائن سے مرکزی چرچ کا ایک وفد کابل اور بغلان کے مراکز کا دورہ کرنے آ رہا ہے۔ یہ وفد مئی 2008ءمیں افغانستان پہنچا اس وفد میں صرف دو افراد تھے ایک امریکی دوسرا یوکرائنی، اس وفد نے عیسائیت قبول کرنے والے نئے افراد کو خاص دعوت پر مدعو کیا۔ اور ان میں 12 افراد منتخب کر کے انہیں یوکرائن بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے عیسائیت کی تعلیم اچھی طرح حاصل کر کے واپس یہاں آ کر اس کی ترویج و اشاعت کا کام کر سکیں۔ پھر اس وفد نے ان ( مرتدین) کو عیسائی مذہب کی رسم کے مطابق غسل دیا۔ صحافی کا کہنا ہے کہ درحقیقت اس طرح کے خفیہ مراکز صرف کابل شہر میں دسیوں ہیں لیکن میں صرف سات تک رسائی حاصل کر پایا اور پھر متعدد ذمہ داروں کی اس طرف توجہ دلائی لیکن نہایت افسوس ہوا جب ہر طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہر ایک سوائے افسوس کے مزید کسی تعاون پر آمادہ نہ ہوا، بلکہ بعض کو تو افسوس کی بھی توفیق نہ ملی۔ اور ویسے بھی ظاہری بات ہے جب افغان سیاست کی کرسیوں پر بیٹھے ہی وہ لوگ ہیں جو امریکی مہرے اور اس کے غلام ہیں بھلا وہ ان سرگرمیوں کو کہاں روکنے کی جرات کر سکتے ہیں جو امریکی و برطانوی سرپرستی میں جاری ہیں۔ غالباً ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے:
چوں کفر از کعبہ برخیزد
کجا ماند مسلمانی؟

(۲) فرانسیسی مراسلہ نگار” ایمانویل دوبریک“ کی وہ تقریر جو اس نے نومبر 2011ءمیں کابل میں کی، اس میں اُس نے کہا ہے کہ ” مغربی عیسائیوں کی پوری کوشش ہے کہ افغانیوں کو دین اسلام سے پھیر دیا جائے اور انہیں عیسائیت میں داخل کیا جائے۔اس نے تقریر میں ایک افغان نوجوان کا بھی تذکرہ کیا جس نے 2006ءمیں ( معاذ اللہ) اسلام چھوڑ کر، عیسائیت اختیار کی تھی، اس میں یہ بھی بتایا کہ اس نوجوان کا کہنا ہے کہ جب میں نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی تو وہ رو رو کر بدحال ہو گئی۔ تقریر میں یہ بھی کہا کہ افغانستان کا دستور اگرچہ اسلام سے پھر جانے کو منع کرتا ہے اور جو کوئی اس ارتداد کا ارتکاب کرے اس کی سزا قتل تجویز کرتاہے لیکن اب چونکہ اس دستور پر عمل نہیں ہورہا تو یہ نوجوان جو اپنی مرضی سے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیا ر کر رہے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ دین اور عقیدے کے بارے میں کھلی آزادی دی جائے( گویا جب قانون پر عمل نہیں ہو رہا تو وہ قانون ہی سرے سے ختم کر دیا جائے.... واہ کیا عقلمندانہ بات ہے؟) اور تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی مشنریوں کے دعوے کے مطابق ایسے ہزاروں نوجوان ہیں جو عیسائیت اختیار کر چکے ہیں( یہ دعویٰ بھی اگرچہ عیسائیوں کی عادت کے مطابق مبالغہ ہے لیکن اتنی بات سے بہرحال ہمیں غافل نہ ہونا چاہیے کہ وہ اس میدان میں سرگرم عمل ہیں اور مسلمان نوجوانوں کو ان کے چنگل سے بچانا بھاری ذمہ داری ہے)۔

(۳) الجزیرہ نے ایک دستاویزی ویڈیو بھی اس حوالے سے جاری کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انہیں ایسی تصاویر ملی ہیں جس میں امریکی فوج کو افغانیوں میں انجیل تقسیم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ انجیل دو قسم کی تھی ایک زرد رنگ کی، دوسری سبز رنگ ۔ ان میں زرد رنگ والی پشتو زبان میں جبکہ سبز رنگ والی فارسی زبان میں تھی کیونکہ یہی دو زبانیں افغانستان میں سب سے زیادہ رائج ہیں۔ عیسائیوں کے ایک ادارے نے ان دو قسمی انجیلوں کو خاص افغانستان کیلئے طبع کرایا اور بھیجا تھا۔ یہ دستاویزی فلم بنانے والے بریان ہیوز کا اس پر تبصرہ یہ ہے ( جو بالکل واضح اور سچا ہے کہ ) امریکی و غیر ملکی فوج میں تو کوئی ایسا نہیں جو افغانی زبانیں بولتا ہو، اسی طرح یہ بات بھی نہیں کہ امریکی یا غیر ملکی فوجیوں کو افغانی زبانیں سکھانے کیلئے افغانی زبانوں میں انجیل مہیا کی گئی ہو تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان انجیلوں کا واحد مقصد انہیں افغانیوں میں تقسیم کر کے ان میں عیسائیت کی ترویج و اشاعت کرنا اور انہیں اسلام سے دور کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح اس ویڈیو میں بعض خالص مذہبی نوعیت کے جلسے دکھائے گئے ہیں جن میں افغانیوں میں عیسائیت پھیلانے کیلئے خوب زور دیا جا رہا ہے اور ایک موقع پر ایک عیسائی راہب امریکی فوج کو خاص اس حوالے سے لیکچر دے رہا ہے اور ترویج عیسائیت کی پرزور تاکید کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ” جس طرح ہمارے عسکری لشکر دشمن کے افراد کو موت کا شکار کرتے ہیں ہم پھر بھی لازم ہے کہ ہم عیسائیت کی طرف دعوت دے کر ان افغانیوں کے ایمان کا شکار کریں“۔

(۴) ایک افغان مرتد ’حسین اندر یاس‘ کا ایک طویل انٹرویو جو دسمبر 2009ءکو کابل پریس نیوز سے نشر ہوا، اس میں اس نے بتایا ہے کہ ہم پوری طرح تو یہ نہیں جانتے کہ افغانیوں میں عیسائیت قبول کرنے والے کتنے ہیں لیکن اتنی بات کا پورا یقین ہے کہ ان کی تعداد 5 ہزار سے 10 ہزار کے درمیان ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت افغانستان میں ہی موجود ہے۔ ان کے اپنے چرچ ہیں۔ مزید اس نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان میں بہت سے شہروں میں ایسے چرچ موجود ہیں۔ کابل قندھار، ھرات، مزار شریف، جلال آباد، بامیان ، غزنی، تخار، پکتیا وغیرہ ان میں سرفہرست ہیں۔ اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عیسائیت قبول کرنے والے ان افغانوں کی بیرون ملک بہت سی تنظیمات بھی موجود ہیں۔ ان کا نام” جمعیہ المسیحیین الافغان“ ہے ۔یہ تنظیمات بھارت، آسٹریلیا، ھالینڈ، برطانیہ، ناروے، میں سرگرم ہیں جبکہ یہ تنظیم پاکستان میں بھی موجود ہے لیکن یہاں خفیہ ہے۔ ان تنظیمات کی سرگرمیاں انٹرنیٹ پر بھی جاری ہیں اور باقاعدہ ان تنظیمات کی ویب سائٹس ہیں۔ جہاں سے یہ اپنا پیغام اور مشن اور باہم تعاون و رابطہ رکھتے ہیں۔

( جاری ہے)
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372801 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.