یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک کسی چیز کی کما حقُّہ قدرو قیمت
کا اندازہ نہ ہو ، اُس وقت تک اُس کا نہ تو صحیح طور پر استعمال کیا جاسکتا
ہے ، اور نہ ہی اُس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ اس حقیقت کو
اس حکایت سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ اپنے ساتھیوں
کے ساتھ ایک باغ کے پاس سے گزرا اُس نے دیکھا کہ باغ کے اندر سے کوئی شخص
چھوٹے چھوٹے پتھر پھینک رہا ہے ۔ اتفاقی طور پر ایک پتھر با دشاہ کو بھی آ
لگا ۔با دشاہ نے اپنے خادمین کو اس سمت دوڑایا، کچھ ہی دیر میں خادمین ایک
شخص کو لے کر حاضر ہو ئے ۔ بادشا ہ نے اُس سے دریافت کیا :تم یہ کیا کر رہے
تھے ؟ اس نے کہا : مجھے ایک ویران مقام پر کچھ پتھر نظر آئے ، میںنے انہیں
اٹھالیا ، اورچلتے چلتے اس باغ میں آگیا ،اوراِن کے ذریعے سے پھل توڑنے کی
کوشش کر رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا : کیا تمہیں ان پتھروں کی قدر وقیمت کا
اندازہ ہے؟ اس نے کہا : نہیں!با دشاہ نے کہا: یہ پتھر حقیقتًا قیمتی ہیرے
تھے ،جنہیں تم نے غفلت اور نادانی میں ضائع کر دیا۔
ہمارا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے حیات کا متاعِ گراں اللہ تعالی نے بے طلب
ہمیں دے رکھا ہے، لیکن ہمیں اس کی اہمیّت کا احساس نہیں ہے ۔اللہ تعالی کا
کلام ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے :{اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا
وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ}ترجمہ: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ
ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد کھیل تماشہ نہیں ،لہو ولعب میں اشتغال تو ناسمجھ بچّوں
کا کام ہے ،دانا ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود ایسی نادانی کرنا ،انمول
سانسوںکا خزانہ ایسے ہی ضائع کردینا، آخر کیوں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی
حقیقت کو نہیں پہچانا ،اپنی صحیح قدرو منزلت کو نہیں جانا ۔ فی الواقِع
ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری زندگی کتنی قیمتی ہے،ہم نہیں جانتے کہ ہمارے سانس
کس قدر انمول ہیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:{ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ
عَدًّا} ترجمہ: تو ہم ان کی گنتی پوری کرتے ہیں۔
حضرتِ سَیِّدُنا امامِ حسن بصری رحمۃ اﷲتعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:جلدی کرو !جلدی
کرو!تمہاری زندگی کیا ہے؟ یہ سانسیں ہی تو ہیں کہ اگر یہ رُک جائیں تو
تمہارے اُن اَعمال کا سلسلہ مُنقَطِع ہوجائے ،جن سے تم اللہ عزَّوَجَلَّ کا
قُرب حاصِل کرتے ہو۔ اللہ عزَّوَجَلَّ رَحم فرمائے اُس شَخص پر جس نے اپنے
اَعمال کا جائِزہ لیا اور اپنے گُناہوں پر کچھ آنسو بہائے۔
یہ ایک مسلَّمَہ حقیقت ہے کہ جس انسان کو اپنی زندگی کی قدرومنزلت کا علم
نہ ہو، جو اپنی زندگی کی قیمتی گھڑیوں کو ضائع کرنے میں مشغول ہو، وہ
کامیابی و کامرانی کا کبھی منہ نہیں دیکھ پاتا، بلکہ ایسا شخص ہمیشہ غفلت
کی اندھیریوں میں گم رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا
فرمائی ہیں، خود فرماتاہے: { وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا
تُحْصُوْہَا}ترجمہ: اور اگر اللہ کی نعمتیں گِنو ، تو شمار نہ کرسکو گے۔
نیز اللہ تعالی نے یہ جمیع اشیاء ، انسان کی منفعت کے لیے پیدا فرمائی ہیں
۔ فرماتا ہے:{ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا}
ترجمہ: وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔
یوں تو اللہ ربّ العالمین کی گوناگوں نعمتوں سے حضرتِ انسان متمتّع ہو رہا
ہے، اور یہ تمام ہی نعمتیں نہایت گرانقد ر اور بے بہا ہیں ،لیکن وہ پاک و
بلند ذات جو خلّاقِ دو عالَم ہے، اُس نے اپنی نعمتوں کا نِعمُ البَدل بھی
پیدا فرمایا ہے ،اس حقیقت کو اس طرح سمجھئے کہ ایک شخص جسے اللہ تعالیٰ نے
اپنی متعدّد نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے ، اس کے پاس رہنے کے لیے بلند
وبالا ، آسائشِ زندگی سے مملو (پُر) خوبصورت اور کشادہ مکان بھی ہے،سفر کے
لیے عمدہ ترین کار بھی ہے ، خوبصورت و خوب سیرت فرمانبردار بیوی بھی ہے،ایک
حسین و جمیل بیٹا بھی ہے ۔ یقینََا اللہ کریم جلَّ و عَلا کی عطا کردہ یہ
تمام ہی نعمتیں انتہائی قیمتی ہیں،بڑی بیش بہا ہیں لیکن اللہ ربّ العالمین
نے ان کا نِعمُ البَدل بھی پیدا فرمایا ہے۔ اگر بندے کو عطا کردہ یہ نعمتیں
سَلب کر لی جائیں، تو بلاشبہ قادر ِ مطلق کی رحمت سے بعیدنہیںکہ وہ اپنے
بندے کو پہلے سے زیادہ خوبصورت اور وسیع مکان عطا فرمادے،اُس کے فضل و کرم
سے بعید نہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ صفاتِ حسنہ سے مُتّصف رفیقِ حیات اپنے
بندے کو عطا کردے،اس وہّابِ مُطلَق کی عطا سے بعید نہیں کہ وہ اپنے بندے کو
خوبصورت اور سعادت مند لڑکے سے پھر نواز دے۔ اُس پروردگار نے اپنی نعمتوں
کا نعم البدل بھی تیار کر رکھا ہے ، لیکن خالقِ کائنات کا نظامِ قدرت ہے کہ
اس نے انسان کو دنیاوی زندگی کی جو نعمت عطافرمائی ہے ، اگر بندہ اس عظیم
نعمت کو غفلت میں گزار دے ،اپنی حیاتِ مُستعا ر گناہوں کی آلودگیوں کی نذر
کر دے ، اور موت سے ہمکنار ہو نے کے بعد دوبارہ دنیاوی حیات عطا کیے جانے
کا سوال کرے تواس کا یہ سوال پورا نہیں کیا جائے گا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ زندگی کاجو سانس ایک بار ہم نے لے لیا ، وہ کسی
قیمت پر ہم دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے ۔جو دن گزار چکے ، لاکھوں کروڑوں خرچ
کر کے بھی ہم اسے واپس نہیں لاسکتے ۔ جو شَب ہم گزار چکے کتنے ہی جتن کر
لیے جائیں ، اب وہ دوبارہ مُیَسَّر نہیں آسکتی۔
حضرت ابو عمران الجونی بیان کرتے ہیں : جوبھی رات آتی ہے صدا دیتی ہے:
اپنی طاقت بھر جو نیکی کرنی ہے کرلو! اب قیامت کے دن تک میں تمہارے پاس لوٹ
کر نہ آؤں گی۔(البدور السافرۃ )
امام مجاہد علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں :جو دن بھی دنیا سے ختم ہوتا ہے ، وہ
یوں کہتاہے : تمام خوبیاں اللہ کو ، جس نے مجھے دنیا اور دنیا والوں سے
راحت بخشی۔ پھر اُسے لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اور قیا مت کے دن تک کے لیے اس پر
مہر کر دی جاتی ہے، حتی کہ اللہ تعالی ہی اُس کی مہر کھولے گا۔(البدور
السافرۃ )
امام مجاہد علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں:ہر آنے والا دن یہی کہتا ہے : اے
ابنِ آدم! آج میں تیرے پاس آچکا ہوں ، پھر آج کے بعد دوبارہ لوٹ کر
کبھی تمہارے پاس نہ آؤنگا ۔پس تو دیکھ لے تو مجھ میں کیا عمل کر رہا ہے؟
اور ہر آنے والی رات بھی یہی کہتی ہے۔ (البدور السافرۃ )
ہمارے شب و روز یوں گزررہے ہیں ، گویا کہ ہم آوارہ گرد مسافر ہیں ، جس کی
منزل متعین نہیں ہے ،جس کے پیش نظر کوئی مقصد نہیں۔ہماری حالت اُس نادان
بچے کی سی ہے، جس نے عقل و شعور کے زینے پر قدم نہ رکھا ہو، جو کھیلتے وقت
گِراں اور اَرزاں شے کے مابین فرق نہیں کر پاتا ،اُس کے ہاتھ میں آنے والی
شے خواہ قیمتی ہویا سستی وہ اُسے لیے اپنے کھیل میں مشغول رہتا ہے۔ اسی
ناسمجھ بچے کی مانند ہم بھی اپنی حیات کے متاعِ گراں کو کھلونا سمجھ بیٹھے
ہیں،ہم صبح سے لے کر شام تک کا وقت یونہی گزار لیتے ہیں ،پھر شام سے صبح
ہوجاتی ہے ہمیں احساس تک نہیں ہو پاتا کہ ہم نے دن کیسے گزارا ،اپنی قیمتی
رات کو کس طرح دوستوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر فضول، بے سروپا باتوں میں
بربادکر دیا۔یقینََا اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیکار و عبث پیدا نہیں
فرمایا،لیکن انسان کی حیات و موت کا فلسفہ کیا ہے ؟انسان کیا دنیا میں فقط
کھانے، پینے،سونے ،شادی کرنے اور مال و دولت کمانے کے لیے آیا ہے ؟یا اسے
دنیا میں کسی اور عظیم مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے
زندگی وموت کا فلسفہ قرآن کی روشنی میں
آئیے ہم قرآن ِمجید سے اِس فلسفہ موت و حیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
۔اللہ ربّ العالمین عزّوجلّ ارشاد فرماتا ہے:
{تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
قَدِیْرالَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ
اَحْسَنُ عَمَلًا}
ترجمہ: نہایت بابرکت ہے وہ ذات، جس کے دستِ قدرت میں بادشاہی ـہے۔ اور وہ
ہر چیز پر قادر ہے ۔اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے، تا کہ وہ تمہیں
جانچے ،کہ تم میں سے باعتبارِ عمل کون زیادہ اچھا ہے۔
ایک مقام پر سِرّ حیات سے یوں پردہ اٹھایا گیا ہے:{وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ
السَّمٰوتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرْشُہ عَلَی
الْمَآء ِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا} ترجمہ: اور وہی ہے
، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا ، اور اس کا عرش پانی
پرتھا ،تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے باعتبارِ عمل کون زیادہ اچھا
ہے۔
ایک مقام پر ہماری پیدائش کا راز یوں آشکار فرمایا ہے:{ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ
خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ}
ترجمہ: پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں جانشین کیا کہ دیکھیں تم کیسے
کام کرتے ہو ۔
ایک مقام پر فرما دیا :{اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً
لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا} ترجمہ: بے شک ہم نے
زمین کا سنگار کیا جو کچھ اس پر ہے کہ انہیں آزمائے کس کے کام بہتر ہیں۔
خلاصۂ آیات : مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ انسان کے فلسفۂ مو ت و حیات کو
واضح کر رہی ہیں کہ یہ موت و حیات کا تسَلسُل عَبث نہیں ہے،انسان اس رزم
گاہِ حیات میں صرف کھاپی کرجان بنانے،شادی کرکے گھر بسانے اور کام کر کے
پیسہ کمانے کے لیے نہیں آیا ۔ یہ دنیا کا بنائو سنگھار،اسکی زیب و زینت اس
لیے نہیں کہ دل اس میں لگا یا جائے بلکہ یہ تو امتحان در امتحان کی صورت ہے
۔موت و حیات کی پیدائش سے مقصود ابتلاء و امتحان ہے اللہ تعالیٰ موت و حیات
کے اس تسلسل سے ہماری آزمائش کر رہاہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتے
ہیں ،اس کی نعمتوں کی قدر کرتے ہیں ،یا اس کی نعمتوں کو اس کی معصیت کے
کاموں میں صَرف کر کے کفرانِ نعمت کا گھناونا جرم کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے :{اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسٰنَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ
نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا اِنَّا ہَدَیْنٰہُ
السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا}
ترجمہ: بیشک ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے تخلیق فرمایا تا کہ ہم اُسے
جانچیں ۔پس ہم نے اُسے سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا۔ ہم نے اسے راستہ
دکھایا، اب چاہے شکر گزار بنے یا نا شکرا ۔
اللہ تعالیٰ ہماری صبحوں سے بھی واقف ہے، اور ہماری شامیں بھی اُس سے
پوشیدہ نہیں۔ وہ ہمارے ظاہر کا بھی علم رکھتا ہے ،اور ہمارے باطن کا بھی۔
نہ تو ہماری خلوتیں اُس سے پردۂ خفاء میں ہیں، اور نہ ہی ہماری جلوتیں اُس
کے احاطۂ علم سے باہر ہیں ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :{ اِنَّ رَبَّکَ
لَبِالْمِرْصَادِ} ترجمہ: بیشک تمہارے رب کی نظر سے کچھ غائب نہیں۔
ہمارے امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔ہم میں سے ہر شخص غور کرے کہ وہ کس کام کے
لیے بھیجا گیا ہے ؟ اور کیا کام کر رہا ہے؟
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا فانی ہے ،جو یہاں آیا ہے اسے بہر حال ایک دن
یہاں سے کوچ کر نا ہے ،کوئی راضی ہو یا ناراض اس سے نظا مِ قدرت پر کوئی
اثر نہیں پڑتا’’کُلُّ مَن عَلَیھَا فَانِِ‘‘ایسا موجبہ کلیہ ہے جس کی کلیّت
کا کوئی بڑے سے بڑا مُلحِد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن متعدّد لوگ دنیا
کی لذّتوں میں مُنہمِک ہونے کی وجہ سے غفلت میں ایسے ڈوبے ہیں کہ انہیں موت
کا خیال مشکل ہی سے آتا ہے ۔اس حوالے سے لوگوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا
جاسکتاہے:
(۱) وہ جو دنیاکی رَعنائیوں ،رنگینیوں ،اور لذّتوں میں مشغول ہوتے ہیں،یہ
لوگ موت کو اصلًا یاد نہیں کرتے اور اگر کبھی کرتے بھی ہیں،تو افسوس کرتے
ہوئے کہ دنیا ہمارے ہاتھ سے چلی جائے گی ،یہ لوگ موت کوناپسند کرتے ہیں،اس
طرح موت کی یادانہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے
مزید دُور ہوجاتے ہیں ۔
(۲) جو اپنے گُناہوں سے تائب ہوچکے ،یہ لوگ موت کا اس لیے کثرت سے ذِکر
کرتے ہیں کہ ان کا دل خوفِ خُدا سے بھر جائے ، اور اُن کی توبہ کامل ہوجائے
۔ ان حضرات کا موت کو ناپسند کرنا اِس لیے ہوتا ہے کہ کہیں موت زادِ راہ
تیار ہونے سے پہلے نہ آجائے۔ اُن کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو محبوب سے
ملاقات کو ٹالتا ہے اس لیے نہیں کہ اُسے ملاقات پسند نہیں ،بلکہ اس لیے کہ
وہ پوری طرح تیار ہو کراپنے محبوب سے ملاقات کرنا چاہتا ہے ۔ان لوگوں کی
پہچان یہ ہے کہ ایسے لوگ ہمیشہ موت کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔
(۳) جو عارف کامل ہوتا ہے وہ ہمیشہ موت کو یاد کرتا ہے ،کیونکہ موت تو
محبوب تک پہنچانے والی ہے،ایسے لوگ تو عمومََا موت کے منتظر رہتے ہیں ،اُن
کی آرزو ہوتی ہے کہ گُناہ اور معصیّت کے گھر سے رہائی پا کر ، جلد از جلد
ربُّ العالَمین کے جوارِ رحمت میں پہنچ جائیں۔جیسے کہ بعض حضرات نے موت کی
آمد پر کہا:’’جَائَ الحَبِیبُ علیٰ فَاقَۃِِِ‘‘محبوب آتوگیا لیکن انتظار
کے بعد۔
ہمیں غور کرنا چائیے کہ ہمارا تعلّق کس قسم کے افراد سے ہے ؟ موت کو با
کثرت یاد کرنے والے کو تین عظیم فوائد حاصل ہوتے ہیں :
(۱)جلد توبہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔(۲)دنیا کا جتنا مال میسر آجائے اُس پر
قناعت حاصل ہوتی ہے۔(۳) عبادت کا ذوق و شوق حاصل ہوتا ہے ۔اس کے برعکس موت
کے فراموش کرنے والے کو بطورِ سزا تین چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے:(۱)توبہ
میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔)۲)دنیاخواہ کتنی ہی مل جائے اس کا پیٹ نہیں
بھرتا۔(۳)عبادت میں سستی اور کاہلی کا مرتکب ہوتا ہے۔
حضرت اُبیّ بن کَعَب رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رات کے دو
تہائی حصے گزر جاتے تو نبی کریمﷺ اُٹھتے اور فرماتے:اے لوگو!اللہ کو یاد
کرو،ہلا دینے والی چیز آپہنچی جس سے مُتّصِل پیچھے آنے والی آپہنچی ،موت
آچکی مع اُن تکالیف کے جو اُس میں ہیں ۔(مشکاۃ المصابیح)
|