آج کی دنیا تیز ہے اور اس کو
سمجھنے کیلئے آپ کی حسیات بھی بہت تیز ہونی چاہئیں۔ انفرادی سطح پر تو کسی
بھول چُوک کی گنجائش ہوسکتی ہے لیکن قومی سطح پر ایسی کوئی بھی غلطی بہت
خوفناک نتائج کی حامل ہوتی ہے اور انہی نتائج سے بچنے کیلئے قومی سطح پر ہر
وقت انتہائی مستعدی کی ضرورت رہتی ہے۔
2مئی کو ایسی ہی ایک چُوک نے ہماری قومی زندگی ہلا کر رکھ دی ہے۔ غلطی بہت
بڑی تھی اور ذمہ داران کئی تھے لیکن سب سے زیادہ جن اداروں کو نشانہ بنایا
گیا وہ برّی و فضائی افواج اور پاکستان کی مایہ ناز اور خود مغربی رینکنگ
کے مطابق نمبر ون خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی تھی۔ یہ درست ہے کہ آئی ایس آئی
نے اسامہ بن لادن کے معاملے میں غفلت برتی ہے اگر وہ واقعی ایبٹ آباد میں
تھا یا نہیں دونوں صورتوں میں کوتاہی ہوئی ہے جسے بہادری سے تسلیم بھی کیا
گیا لیکن اس سے یہ سمجھ لینا کہ اس کی اہلیت مشکوک ہے انتہائی نا مناسب
ہوگا۔ آئی ایس آئی کی کارکردگی اور کارناموں کی فہرست اگر دیکھی جائے تو سی
آئی اے سے بہت طویل ہے اور اکثر مواقع پر اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا
اور یہ سب کچھ اپنے نسبتاً بہت کم و سائل میں رہ کر کیا جیسا کہ جنرل پاشا
نے اسمبلی میں بھی بتایا کہ جہاں سی آئی اے اپنے سورس کو کسی مخبری کیلئے
دس ہزار ڈالر دیتی ہے آئی ایس آئی دس ہزار روپے بھی بمشکل ادا کر پاتی ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کے وسائل کے بارے میں بہت ساری حکومتیں چیک نہیں رکھتی۔ سی
آئی اے کو اجازت ہے کہ وہ جس بھی طریقے سے چاہے اپنے فنڈز بنا سکتی ہے
اوراس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اور بغیر کسی آڈٹ کے اس کا موجودہ بجٹ
تقریباً تین ٹریلیئن ڈالر ہے۔ یقیناً آئی ایس آئی بھی ایک بڑا بجٹ رکھتی ہے
لیکن اس کے وسائل و ذرائع اور آلات سی آئی اے کی ٹکر کے نہ ہونے کے باوجود
اس کی کارکردگی کا گراف نہ صرف اس سے بلکہ را، موساد اور ایم آئی سکس کی
طرح دیگر بڑی ایجنسیوں سے زیادہ بہتر ہے۔ جیسا کہ اس بات پر آج کل بہت
تبصرہ ہوا کہ اگر ایک واقعے کو لیا جائے تو پھر 9/11کے بعد سی آئی اے کو
ختم ہو جانا چاہیئے تھا اگرچہ اس کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی
واقعہ نہ ہوا لیکن اس میں امریکہ کی ذہانت سے زیادہ اس کی طاقت کو دخل ہے
جسے وہ بے دریغ دنیا کے انسانوں اور خاص کر مسلمانوں پر آزما رہا ہے۔
حالیہ واقعے کے علاوہ دیکھیں تو پاک آرمی اقوامِ متحدہ کی افواج میں بہترین
کارکردگی دکھاتی رہی ہیں اور ملک کیلئے نیک نامی کا باعث بنتی رہی ہیں اور
یہی حال آئی ایس آئی کا ہے جس نے ہر مشکل وقت میں انتہائی مستعدی سے اپنے
فرائض سر انجام دیئے۔ اگرچہ مجھے اس بات پر فخر بالکل نہیں کہ آئی ایس آئی
نے ہی سی آئی اے کی ہر موقع پر مدد کی۔ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو گرفتار
کروایا تاہم یہ حقیقت تھی اور اب بھی ہے کہ سی آئی اے اور امریکہ ہمارے خطے
میں آئی ایس آئی کے بغیر چار قدم بھی نہیں چل پائیں گے اور آئی ایس آئی کو
بھی اپنی اہمیت کو محسوس کر لینا اور کروا لینا چاہیئے۔ سی آئی اے کے ساتھ
تعاون سے کوئی بھی پاکستانی خوش نہیں اور نہ امریکہ کو اس کا اعتراف ہے
بلکہ اس نے ہمیشہ پاکستان، اس کی افواج اور ایجنسیوں پر ڈبل گیم کا الزام
لگایا ہے اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں سوچ لینا چاہیئے کہ ہمیں اس سے تعاون
جاری رکھنا چاہیئے یا نہیں اور آئی ایس آئی کو خاص کر اس پر غور کر نا
چاہیئے۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا لیکن ہم تو بار بار ڈسے
جارہے ہیں اور سانپ ایک ہی ہے یعنی امریکہ۔ اگرچہ ہمارے عوام کو اس سے غرض
نہیں کہ امریکہ جیسا مکار اور دھوکے باز ملک ہمارے بارے میں کیا کہہ رہا ہے
لیکن بین الاقوامی طور پر یہ چیز پاکستان کی ساکھ کو نقصان ضرور پہنچا رہی
ہے۔ دوسری طرف ملک کے اندر بھی بہت سارے الزامات آئی ایس آئی اور فوج کے
نام لگا دیئے جاتے ہیں شمسی ایئر بیس کے معاملے کو لیجئے جسے خود سیاسی
حکومت نے ہی بیچا اگرچہ زمین بیچی گئی لیکن اتنی زیادہ زمین بھی کسی غرض سے
ہی خریدی جاتی ہے اور پھر اس کے موجودہ استعمال کی اجازت کیوں دی گئی ۔ ایک
اور اہم معاملہ جس میں آئی ایس آئی کو گھسیٹا گیا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا
تھا اس میں بھی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق حکومت کا ہاتھ ثابت ہوا۔
ان تمام حقائق کو مدّنظر رکھتے ہوئے اگر آئی ایس آئی اپنے فرائض کا از سرِ
نو تعیّن کر ے اور امریکہ سے معلومات کے تبادلے کا جو بار بار ڈھول پیٹا جا
رہا ہے اس تعاون کو امریکی مفاد کی بجائے صرف ملکی مفاد تک محدود کر دیا
جائے اور ان لوگوں، تنظیموں اور ملکوں کی خبر لینا شروع کر دے جو پاکستان
مخالف ہیں تو بہتر ہوگا۔ جس طرح سے آئی ایس آئی دنیا کی بڑی بڑی ایجنسیوں
کو کامیابی سے کائونٹر کر رہی ہے اور اسے بیک وقت کئی دشمنوں سے اکیلے
مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے اور آن دی ریکارڈ یہ بات موجود ہے کہ بڑی کامیابی سے
کر رہی ہے تو اس کی صلاحیتوں پر کسی شک کی گنجائش ہی نہیں آئی ایس آئی آج
بھی اتنی ہی با صلاحیت اور مؤثر ہے جتنی روس افغان جنگ کے دوران تھی اور
ویسا ہی کوئی کارنامہ اب بھی بعید از قیاس نہیں۔ لہٰذا نہ تو ملک کے اندر
اور نہ ہی ملک کے باہر اس کی صلاحیتوں پر کسی شک کی کوئی وجہ ہے اور آئی
ایس آئی کو بھی اپنی صلاحیتوں کو منوانے کیلئے نئے سرے سے تیاری کر کے
میدان میں اترنا چاہیئے۔ |