اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم میں
ارشاد فرمایا ہے ۔
وَمِن آیٰتِہ اَن خَلَقَ لَکُم مِن اَنفُسِکُم اَزوَاجاً لِّتَسکُنُوا
اِلَیھَا وَجَعَلَ بَینَکُم مَوَدَّةً وَّرَحمَةًoترجمہ” اللہ کی نشانیوں
سے ہے کہ اس نے تمہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے کہ تم ان سے مل کر چین پاﺅ
۔اور تمہارے درمیان دوستی و مہر رکھی۔“
اس آیہ کریمہ میں اسلام کے خانگی نظام زندگی اور اہل وعیال کے ساتھ گزر بسر
کے لئے چند باتیں بطور اصل کے بیان فرمائی گئی ہیں۔
1۔مردوں کو بتایا گیا ہے کہ تمہاری بیویاں ،تمہاری ہی ہم جنس مخلوق ہیں
انسانیت میں تمہاری ہی طرح ہیں ۔تمہاری طرح ان کی بھی کچھ خواہشیں کچھ
جذبات اور کچھ احساسات ہیں ۔ان کی حیثیت لونڈی باندیوں کی نہیں۔
2۔عورتوں کی پیدائش کا منشاء یہ ہے کہ وہ مردوں کے لئے راحتِ قلبی اور
تسکین روحانی کا سرمایہ اور دلی سکون کا باعث ہوں۔
3۔مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے
پاس پائے اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر سکون و اطمینان حاصل کریں ۔
4۔مرد عورت کے تعلقات کی بنیاد، باہمی محبت واخلاص اور ہمدردی پر ہوئی
چاہئے۔ ان کے اندر دو طرفہ ایسی کشش و جذب اور میلان ہو نا چاہیے کہ وہ ایک
دوسرے کے خیر خواہ ،ہمدرد و غم خوار اور رنج و راحت میں شریک رہیں اور
زندگی کی منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہیں۔
5۔مرد عورت میں ایک دوسرے کے لئے وہ مانگ وہ پیاس وہ اضطراب کی کیفیت پائی
جاتی ہے کہ انہیں حقیقی سکون میسر نہیں آسکتا جب تک وہ ایک دوسرے سے جڑ کر
اور باہم شیر و شکر ہو کر نہ رہیں۔
الغرض قرآن کریم نے اس باب میں سخت تاکید کی ہے کہ وہ عہد و پیمان بیوی اور
شوہر کے درمیان شرعی طور پر وجود میں آئے ہیں ۔حتیٰ الامکان قائم رکھے اور
مقدور بھرا نہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے ۔
لیکن دو طرفہ تعلقات میں جب ہمدردی و غم خواری باقی نہ رہے ۔محبت و اخلاص
ناپید ہو جائے ۔وہ ایک دوسرے کے لئے راحت و تسکین کا سرمایہ نہ بن سکیں
۔حقوق زوجیت تلف ہونے لگیں غرض نبھاﺅ مشکل ہو جائے اور دفع شر کے لئے
علیحدگی کے سوا کوئی چاہ کار باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں شریعت مطہرہ نے
علیحدگی وجدائی کے لئے بھی ایک نظام ،ایک قانون دیا جسے عرف شریعت میں
”طلاق“ کہا جاتا ہے ۔
طلاق کے لفظی معنی چھوڑ دینے کے ہیں اور شریعت نے اسے ایک خاص چھوڑنے کے
معنی میں استعمال کیا ہے یعنی وہ افتراق یا جدائی بیوی شوہر کے درمیان واقع
ہو ، یا یوں کہہ لیں کہ نکاح سے عورت شوہر کی پابند ہو جاتی ہے ۔اس پابندی
کے اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں ۔
شریعت میں طلاق مباح ہے مگر بعض المباحات یعنی تمام حلال چیزوں میں خدا کے
نزدیک زیادہ ناپسندیدہ :۔اسی لئے شریعت نے اس نظام پر بھی چند پابندیاں
عائد کر دی ہیں جن کی وجہ سے طلاق کی اجازت کا استعمال محض وقتی اور ہنگامی
اثرات کا نتیجہ نہ ہو۔
طلاق کا وجود خاص خاص دشواریوں کے حل کے لئے ضروری ہے اور اس وقت طلاق کی
ضرورت ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے کسی حصہ جسم میں زہریلا مادہ پیدا ہو جانے
کے باعث اس کا جسم انسانی سے بذریعہ قطع و برید جدا کرنا ضروری ہو جاتا ہے
۔اگر چہ عضو کا کاٹنا بہرحال ناپسندیدہ سمجھا جائے ۔
طلاق دینے والے کو شریعت مطہرہ سمجھاتی ہے کہ اب وہ ایک ایسے خطر ناک فعل
کا اقدام کرنے لگا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند یدہ بھی ہے اور مبغوض بھی ۔
لہٰذا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ صرف یہی ایک صورت ،مرد کی بقاء و صحت
اور حفاظت عزت و ایمان کی رہ گئی ہے اس وقت تک اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے ۔
قرآن کریم نے اس کے لئے چند تفصیلی احکام دئے۔جو مندر ذیل ہیں ۔اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے :
1۔ ترجمہ:” اور اگر وہ عورتیں تمہیں نا پسند ہوں تو عجب کیا کہ ایک چیز
تمہیں پسند نہ ہو اور اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہے ۔“
مطلب یہ ہے کہ اگر عورت میں کوئی ایسا نقص موجود ہو جس کی بنا پر وہ شوہر
کو پسند نہ آئے تو بھی یہ مناسب نہیں کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اُسے
چھوڑ نے پر آمادہ ہو جائے ۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورت میں بہت سی
خوبیوں پر خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی اور انسانی ہستی میں بڑی
اہمیت رکھتی ہیں کہ اگر اس کی بیوی میں برائیوں کے مقابلے میں خوبیاں کہیں
زیادہ پائی جاتی ہیں ۔لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں کہ آدمی ازدواجی تعلق کو
منقطع کر نے میں جلد بازی سے کام لے طلاق بالکل آخری چارہ کار ہے جس کو
بدرجہ مجبوری کام میں لانا چاہیے۔
2۔سورة النساء میں ارشاد ہوتا ہے ترجمہ:”اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی
یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کر لیں اور
صلح خوب ہے ۔“
یعنی ایک عورت اگر اپنے سے اپنے شوہر کو پھر ا ہوا دیکھے کہ اس سے علیحدہ
رہتا ہے یا کھانے پینے کو نہیں دیتا یا نان نفقہ میں کمی کرتا ہے ۔یا مارتا
یا بدزبانی سے پیش آتا ہے اور اس سے دور دور رہتا ہے تو طلاق و جدائی
اختیار کرنے سے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ عورت اپنے حقوق کا کچھ حصہ ،شوہر پر
معاف کردے ۔ اسے خوش کرنے کے لئے اپنے حق میں سے کچھ چھوڑ دے ۔مثلاً اپنا
مہر معاف کر دے ۔ یا اس میں کمی کر دے ۔اپنی باری کا دن دوسری بیوی کو دیدے
۔اپنے مصارف کا بوجھ ہلکا کر دے اور اس طرح باہمی مصالحت اور میل ملاپ کے
بعد عورت اسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے ۔
ازدواجی تعلقات میں تلخی دور کرنے کے لئے یہ ایک ایسا نسخہ ہے جسے شریعت
مطہرہ نے عورت کے اختیار اور تصرف میں دیا ۔
3۔بیویاں اگر نا شائستہ ،نافرمان اور حقوق شوہر سے لا پرواہ ہو ں جس کے
باعث پر مسرت ازدواجی زندگی کی بجائے آپس میں تصادم اور دھینگا مشتی شروع
ہو جائے تو ایسی صورت میں اصلاح احوال کے لئے قرآن کریم نے مردوں کو تین
تدبیریں بتائی ہیں:۔
i۔فَعِظُوھُنَّ۔۔انہیں سمجھاﺅ اور بتاﺅ کہ شوہر کی نافرمانی اور اس کی
اطاعت نہ کرنے اور اس کے حقوق کا لحاظ نہ رکھنے کے نتیجے دنیا و آخرت دونوں
میں خسران اور وبال کے سوا کچھ نہیں اور اللہ تعالیٰ کا عذاب مول لینا کوئی
دانشمندی کی بات نہیں۔اگر عورت شریف طینت ہے تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہو
گا ۔اس میں بھی شوہر کو یہ تعلیم ہے کہ فوراً غصہ میں آکر کوئی کاروائی نہ
کرے۔
ii۔اب بھی اگر اصلاح نہ ہو تو سزا کی دوسری منزل یہ ہے کہ وَاھجُرُوھُنَّ
فِی المَضَاجِعِ۔مرد کچھ عرصہ کے لئے عورت سے بات چیت ترک کر دے۔ انہیں
خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دیں اور تعلقات ہمبستری منقطع کرلیں۔
iii۔یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو اور عورت اپنی سرکشی و نافرمانی پر قائم رہے
جیسا کہ بعض طبقوں میں دیکھا جاتا ہے تو اب تیسرا علاج یہ ہے کہ
واضربواھن۔تادیب کے طور پر ہلکی سی مار ماری جائے ۔ایسی ضرب نہ مارے جس سے
جلد پر نشان ہو جائے ۔عورت کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو معمولی مار سے راہِ راست
پر آجاتی ہے تاہم بعض بدخصلت عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ کسی تدبیر سے درست
ہی نہ ہوں اور اپنی سرکشی و نافرمانی میں حد سے تجاوز کر جاتی ہیں تو اب
شریک زندگی سے نبھاﺅ کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں ۔اس ہر روز کی چیخ و
پکار کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گھر گھر رسوائی ہوتی ہے اور مرد عورت دونوں
کے لئے یہ دنیا جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے ۔ایسی حالت میں شریعت مطہرہ پھر
دونوں کو ایک اور موقعہ دیتی ہے اور وہ یہ کہ فَابعَثُو ا حَکَماً مِّن
اَہلِہ وَحَکَمًا مِّن اَھلِھَا۔یعنی جہاں میاں بیوی میں ناموافقت اور ایسی
کشمکش پیدا ہو جائے جسے وہ باہم نہ سلجھا سکیں تو دو ثالث مقرر کئے جائیں
تاکہ نزاع سے انقطاع (علیحدگی ) تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے
سے پہلے ،گھر کی گھر میں کوئی اصلاح کی صورت نکل آئے ۔میاں بیوی میں نزاع
ہونے میں یہ ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ فوراً طلاقم طلاق ہو جائے یا کسی اور
ایسی ہی کاروائی کی نوبت آجائے بلکہ پہلے یہ کوششیں مصالحت و مفا ہمت کی کر
لی جائیں، رشتہ ازدواج ایک اہم ترین رشتہ ہے اس پر بے پروائی سے ضرب نہیں
لگا ئی جا نی چاہیے اور اس مصا لحت ومفا ہمت کی تد بیر یہ ہے کہ میاں بیوی
میں سے ہر ایک خا ندان کا ایک ایک آدمی اس غرض سے مقرر کیا جائے کہ دونو ں
مل کر اختلاف کے اسبا ب کی چھان بین کر یں پھر آپس میں سرجوڑ کر بیٹھیں اور
تصفیہ کی کوئی صورت نکا لیں۔ اسلا م کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ خانگی
الجھنوں اور میاں بیوی کے ما بین منا قشوں کا علم ہونے کے باو جود ان کے
خاندان کے با اثر بار سوخ اور با وقارافراد ،دامن سمیٹ کر الگ تھلگ ہو
جائیں جیسے کہ ان کا اس سے کو ئی تعلق ہی نہیں بلکہ حکم یہ ہے کہ اس خانگی
نزاع کو یہ لوگ اپنا ہی معاملہ سمجھیں اور اپنی کوشش میں کوئی کمی نہ کریں
بلکہ زو جین اگر اپنے اپنے رشتہ داروں میں سے خود ہی کسی کو منتخب نہ کریں
تو انہیں چاہیے کہ اپنے اپنے خاندانوں کے وقار کی خاطر مدا خلت کریں اور
احکام شر عیہ کی روشنی میں منا سب فیصلہ دیں، ماننا نہ ماننا ان دونو ں کے
اختیار میں ہے۔
اب بھی اگر اصلاح نہ ہو اور اصلاح احوال کی تمام تد بیریں رائیگاں جائیں
اور قصور کا بو جھ صرف عو رت پر ہو تو اب شو ہر کو اجازت ہے کہ اسے طلاق دے
دے ۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حساب و کتاب
۔طلاق دینے کا مجاز تھا جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا وہ اس کو بار بار
طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا تاکہ وہ غریب نہ تو اس کے ساتھ گزر بسر کر
سکے اور نہ ہی اس سے آزاد ہو کر کسی اور سے نکاح کر سکے ۔قرآن مجید و حدیث
شریف نے اس ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا اور طلاق کے باب میں
شوہروں پر پابندیاں عائد کیں اور انہیں بتایا کہ اگر تم عورتوں کو طلاق
دینے پر مجبور ہو جاﺅ اور سوائے طلاق کے کوئی اور چارہ کار نہ رہے تو اس کا
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب عورت اپنے ایام معمولہ (حیض) سے فارغ ہو تو حالتِ
طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے اور اگر جھگڑا ایسے زمانہ میں ہوا ہو جبکہ
عورت ایام ماہواری میں ہو تو شوہر کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب وہ
ایام ماہواری سے فارغ ہو جائے ۔ان ایام کا یہ انتظار بھی پہلی طلاق کے روک
کے لئے ہے اب پہلی طلاق کے بعد بھی عورت کے دل میں ندامت نہ ہو یا شوہر کے
دل میں برداشت کی طاقت نہ ہو اور ایک ماہ گزر نے پر عورت دوسری بار حیض سے
فارغ ہو جائے تو اب شوہر دوسرے مہینے میں دوسری طلاق دے سکتا ہے ۔
اب پھر ایک مہینے کی لمبی میعاد ان دونوں کے درمیان ہے ۔اس میعاد میں اگر
جھوٹے غصے بے جا بدگمانیاں اور فضول شکایتیں معدوم ہو چکیں اور دونوں میں
پھر نبھاﺅ کی خواہشیں بیدار ہو رہی ہیں تو شریعت مطہرہ ،مرد کو رجعت کا حکم
دیتی ہے اور اس رجعت کے آڑے آنے والی جھوٹی ناموریوں ،خاندانی وجاہتوں اور
دنیاوی طعنوں اور دشنام طرازیوں کو کچل کر، دونوں کو پھر دوبارہ میاں بیوی
کی طرح رہنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ پہلی یا دوسری طلاق کی عدت بھی گزر جائے
تب بھی دونوں کے لئے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے نکاح کر
لیں گویا اس آخری گنجائش سے فائدہ اٹھا کر طلاق واپسی لے لی جائے اور
تعلقات زوجیت از سر نو قائم کئے جائیں البتہ شریعت مطہرہ نے مردوں کو
تنبیہہ فرمائی کہ رجوع کرتے ہو تو اس نیت سے کہ اب حسنِ سلوک سے رہنا ہے
ورنہ بہتر یہ ہے کہ شریفانہ طریقہ سے رخصت کر دو زوجیت میں واپسی خانہ
آبادی کے لئے ہونا چاہیے نہ کہ خانہ بربادی کے لئے ۔
بہر حال اب ان دو طلاقوں کے بعد بھی ناخوشگوار تعلقات کا خاتمہ نہ ہو اور
نفرت و ضد کی بنیاد ایسی مضبوط ہے کہ مرد اب تک طلاق ہی پر تلا ہوا ہے ادھر
عورت دوسری طلاق کے بعد ایام ماہواری سے فارغ ہو چکی ہے تو اب شریعت اسے
بتلاتی ہے کہ دیکھ یہ ہما تیرے ہاتھ سے نکلنے والی ہے ۔چڑیا اڑگئی تو کفِ
افسوس ہی ملنا پڑے گا ۔خوب سمجھ لے ۔لیکن مرد اپنی بات پر اڑا ہوا ہے تو
شریعت اسے مجبور نہیں کرتی اور معاہدہ شادی کو زندگی بھر کے لئے طوق لعنت
بنانا گوارا نہیں کرتی ۔البتہ اس تیسری طلاق کے بعد ،نہ تو شوہروں کو رجوع
کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو
سکے ۔اب حلالہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ۔لفظ طلاق چاہے 3بار ایک ایک
مہینہ کے وقفہ سے کہے یا اکٹھے 3بار کہہ دے طلاق ہو جائے گی ۔
معزز قارئین:مجھ کو ان مباحث کی تحریر کے دوران کئی بار یہ خیال آیا کہ ان
بحثوں اور موشگافیوں سے عورت کو کیا واسطہ ۔لیکن معاً اس خیال سے دل کو
تسکین ملتی رہی کہ ماشاءاللہ ،قوم کی سمجھ دار بیٹیاں اور بہنیں تو اس سے
فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور کم از کم وہ تو یہ سمجھ سکتی ہیں کہ شریعت مطہرہ
نے کس طرح عورتوں کے حقوق کی حفاظت فرمائی اور ان کی زندگی کو بامقصد اور
با وقعت بنایا ہے ۔کیا نئی تہذیب کے کسی بھی گوشہ میں یہ موتی و گوہر نایاب
دستیاب ہو سکتے ہیں ۔جن سے اسلام نے عورت کے دامن کو مالا مال فرمایا ہے ۔
تنبیہ ضروری:طلاق دینا جائز ہے ۔ہاں بے حاجت ،بلا وجہ شرعی طلاق دینا مکروہ
و ممنوع ہے ۔مگر دے گا تو ہو جائے گی ،کہ طلاق شوہر کی زبان پر رکھی گئی ہے
تو اس کا مرتکب مکروہ بلکہ بعض صورتوں میں گناہ گار ہونا بھی طلاق کو واقع
ہونے سے نہیں روکتا ۔جیسے حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے کہ حکم الہٰی کی
نا فرمانی ہے مگر دے گا تو ضرور ہو جائے گی اور دینے والا گناہ گار ہو
گا۔اور وجہ شرعی موجود ہو تو طلاق دینا مباح ،بلکہ بعض صورتوں میں مستحب ہے
۔مثلاً عورت پر شبہ ہو یا وہ نافرمان ہو تو ایسی صورت میں اسے طلاق دینا
بلا کراہت جائز و مباح ہے ۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر عورت اُسے یا اوروں کو ایذا دیتی ہے یا نماز
نہیں پڑھتی ہے اور یہ مہر ادا کرنے پر قادر نہ ہو جب بھی طلاق دے دینی
چاہیے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے نمازی عورت
کو طلاق دے دوں اور اس کا مہر میرے ذمہ باقی ہو ۔اس حالت میں دربار خدا میں
میری پیشی ہو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ میں اس کے ساتھ زندگی بسر کروں ۔ بعض
صورتوں میں طلاق واجب ہو تی ہے ۔مثلاً شوہر نامرد یا ہجڑا ہو یا شوہر کے
ماں باپ اُسے حکم دیتے ہیں کہ عورت کو طلاق دے دے اور نہ دینے میں انہیں
ایذا ہو یا وہ ناراض ہوں تو واجب ہے کہ طلاق دے دے اگر چہ عورت کا کچھ قصور
نہ ہو کہ ماں باپ کی نافرمانی کا وبال اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ (فتاویٰ
رضویہ وغیرہ)
چند فقہی مسائل:
مسئلہ:: ہر عاقل و بالغ کا فعل چونکہ شریعت کے نزدیک قابل تسلیم ہے اس لئے
طلاق کے لئے شرط یہ ہے کہ شوہر عاقل بالغ ہو ۔نابالغ یا مجنون نہ خود طلاق
دے سکتا ہے نہ اس کی طرف سے اس کا ولی ۔ہاں اگر عقل کسی خارجی شئے سے زائل
کر دی جائے مثلا نشہ والے نے طلاق دی ،یا غصہ کی حالت میں طلاق دی تو طلاق
واقع ہو جائے گی کہ عاقل کے حکم میں ہے اور نشہ خواہ شراب پینے سے ہو یا
کسی اور چیز سے ۔اس لیے کہ کوئی شخص غصہ یا نشہ کو سپر نہ بنا سکے جس سے
عورت کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور طلاق میں عورت کی جانب سے کوئی شرط نہیں
۔نابالغہ ہو یا مجنونہ بہر حال طلاق واقع ہو جائے گی ۔(عالمگیر ی وغیرہ)
یونہی عورت کو حمل کی حالت میں طلاق دی جائے قطعاً واقع ہو جائے گی ۔عوام
میں جو مشہور ہے کہ حاملہ عورت پر طلاق نہیں پڑتی محض بے اصل ہے ۔
آج کل اکثر طلاق دے بیٹھتے ہیں بعد کو افسوس کرتے اور طرح طرح کے حیلے
بہانے تراشتے ہیں ایک عذر اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ غصہ میں طلاق دی تھی
۔عزیزو ! طلاق تو عموماً غصہ ہی کی حالت میں دی جاتی ہے اور اس حالت میں
طلاق واقع ہو جاتی ہے اور وہ صورت کہ عقل غصہ سے جاتی رہے بہت نادر
ہے۔یونہی طلاق بخوشی دی جائے خواہ جبر سے یہ واقع ہو جائے گی ۔عزیزو !نکاح
شیشہ ہے اور طلاق سنگ شیشہ پر پتھر خوشی سے پھینک یا جبر سے یا خود ہاتھ سے
چھوٹ جائے شیشہ ہر طرح ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ:کسی نے شوہر کو طلاق لکھنے پر مجبور کیا اس نے لکھ دیا ۔مگر نہ دل
میں ارادہ طلاق ہے ۔نہ زبان سے طلاق کا لفظ کہا تو طلاق نہ ہو گی ۔مجبوری
سے مراد شرعی مجبوری ہے محض کسی کے اصرار کر دینے پر لکھ دینا یا یہ خیال
کر کے لکھ دینا کہ بڑا ہے اس کی بات کیسے ٹالوں تو یہ مجبوری نہیں
۔(روالمختار)
مسئلہ: :طلاق دو قسم کی ہے (یعنی با اعتبار الفاظ طلاق)1۔صریح ۔2۔کنایہ ۔
1۔صریح:صریح وہ جس سے طلاق مراد ہونا ظاہر ہو ۔اکثر طلاق میں اس کا استعمال
ہو ۔اگر چہ وہ کسی زبان کا لفظ ہو ۔جیسے اردو میں یہ لفظ کہ ”میں نے تجھے
چھوڑا۔“ صریح ہے ۔اس سے ایک طلاق ہو جائے گی ۔کچھ نیت ہو یا نا ہو ۔
2۔کنایہ :طلاق وہ الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد ہو نا ظاہر نہ ہو ۔طلاق کے
علاوہ اور معنوں میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے ۔(عامہ کتب)
مسئلہ:جو الفاظ طلاق کے لئے وضع کئے گئے ہیں ۔جب انہیں طلاق میں استعمال
کیا جائے گا تو اس سے طلاق رجعی واقع ہو گی اور جو الفاظ کہ طلاق کے لئے
وضع نہیں کئے گئے ہیں ۔بلکہ ان کا استعمال اشارةً اور کنایةً طلاق کی طرف
ہے ۔تو ایسے الفاظ کے استعمال سے طلاقِ بائن پڑتی ہے جب کہ نیتِ طلاق ہو یا
حالت بتاتی ہو کہ طلاق مراد ہے ۔مثلاً پیشتر طلاق کا ذکر تھا یا غصہ میں
کہا۔(عامہ کتب)
مسئلہ:عورت کا حاملہ ہونا ،طلاق واقع ہونے سے نہیں روکتا ۔حالت حمل میں
طلاق جائز و حلال ہے ۔اگر چہ ایام حمل میں شوہر اس سے جماع بھی کر چکا ہو۔
اب اگر طلاق بائن تھی یا طلاق رجعی تھی اور بچہ ہونے تک نہ زبانی رجعت کی
نہ زوجہ کو ہاتھ لگایا تو بعد ولادت عورت نکاح سے نکل گئی اب اسے اختیار ہے
جس سے چاہے نکاح کرے اور طلاق رجعی تھی اور ولادت سے قبل شوہر نے رجعت کر
لی تو عورت بدستور اس کے نکاح میں ہے ۔دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی ۔
(فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ:عورت سے کہا طلاق طلاق طلاق۔نہ یہ کہا کہ دی نہ یہ کہا کہ تجھ کو یا
اس عورت کو ۔مگر قرائن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق
دی ہے یا وہ خود اقرار کرتا ہے کہ میں نے اپنی عورت کو طلاق دی ہے تو تین
طلاقیں پڑ گئیں ۔بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی ۔(فتاویٰ رضویہ )
مسئلہ:طلاق (باعتبار حکم و نتیجہ )تین قسم کی ہے ۔
1۔رجعی:وہ جس سے عورت فی الحال نکاح سے نہیں نکلتی ۔عدت کے اندر اگر شوہر
رجعت کر لے تو وہ بدستور اس کی زوجہ رہے گی ۔ہاں عدت گزر جائے اور رجعت نہ
کرے تو اس وقت نکاح سے نکلے گی ۔پھر بھی برضائے خود (باہمی رضا مندی سے)
نکاح کر سکتے ہیں۔
2۔بائن: وہ جس سے عورت فی الفور نکاح سے نکل جاتی ہے ۔ہاں برضائے خود نکاح
کر سکتے ہیں ۔عدت کے اندر خواہ بعد میں۔
3۔مغلظہ:وہ کہ عورت فوراً نکاح سے نکل بھی گئی اور کبھی ان دونوں کا نکاح
نہیں ہو سکتا ۔جب تک حلالہ نہ ہو ۔یہ تین طلاقوں سے ہوتا ہے ۔خواہ ایک ساتھ
دی ہوں خواہ برسوں کے فاصلے سے ۔رجعی دی ہوں یا بائن ۔یا بعض رجعی بعض
بائن۔
طلاق کے سینکڑوں لفظ ہیں ۔بعض سے رجعی پڑتی ہے ۔بعض سے بائن اور بعض مغلّظہ
۔(فتاوی رضویہ )
مسئلہ:عورت کو طلاق نہیں دی ہے مگر لوگوں سے کہتا ہے کہ میں طلاق دے آیا تو
طلاق ہو جائے گی ۔یوں ہی ایک طلاق دی ہے اور لوگوں سے کہتا ہے تین دی ہیں
تو فیصلہ یہی ہو گا کہ تین دی ہیں ۔اگر چہ کہے میں نے جھوٹ کہا تھا ۔(بہار
شریعت)
مسئلہ:جب طلاقیں تین تک پہنچ جائیں تو وہ عورت اس شوہر کے لئے بے حلالہ کسی
طرح حلال نہیں ہو سکتی ۔اگر شوہر اس کے باوجود اس سے ہم بستری کرے تو وہ
صحبت زنا ہو گی اور اگر اُسے مسئلہ معلوم ہے تو یہ زانی اور شرعاً سزائے
زنا کا مستحق ہو گا اور اولاد ولد الزنا اور ترکہ پدری سے محروم ہو گی
۔(فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ: شوہر نے عورت کوتین طلاقیں دے دیں یا بائن طلاق دی مگر اب انکار
کرتا ہے اور عورت کے پاس گواہ نہیں تو جس طرح ممکن ہو عورت اس سے پیچھا
چھڑا ئے ۔مہر معاف کر کے یا اپنا مال اس کو دے کر اس سے علیحدہ ہو جائے غرض
جس طرح بھی ممکن ہو اس سے کنارہ کشی کرے اور کسی طرح وہ نہ چھوڑے تو عورت
مجبور ہے مگر ہر وقت اسی فکر میں رہے کہ جس طرح ممکن ہو رہائی حاصل کر لے
اور اس کی پوری کوشش کرے کہ صحبت نہ کرنے پائے ۔عورت جب ان باتوں پر عمل کر
ے گی تو معذور ہے اور شوہر بہر حال گناہ گار ہے ۔(درمختار ۔فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ: شوہر نے عورت کو تین طلاقیں دے دیں ۔عدت گزرنے پر کچھ لوگوں نے اس
عورت کا نکاح کسی اور سے شرعی طریقہ پر کرا دیا ۔اب شوہر ثانی اگر بے صحبت
کئے اسے طلاق دے بھی دے جب بھی عورت شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہو سکتی کہ
بحکم قرآن و حدیث دوسرے شوہر کا اس سے صحبت کرنا ضروری ہے ۔
تنبیہ:یہاں سے معلوم ہوا کہ طلاق کے مسائل بہت نازک ہیں ایک حرف کی بیشی
درکنار ،لہجے کے بدلنے سے حکم بدلتا ہے ۔سخت احتیاط درکار ہے ۔
طلاق کے بعد رجعت کا مسنون طریقہ
رجعت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کسی لفظ سے رجعت کرے اور رجعت پر دو عادل
شخصوں کو گواہ کرے اور عورت کو بھی خبر کر دے کہ وہ عدت کے بعد کسی اور سے
نکاح نہ کرے اور اس صورت میں کہ قول سے رجعت کی مگر رجعت ہو جائے گی اور
اگر فعل سے رجعت کی مثلاً اس سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا تو رجعت
ہو گئی ۔مگر مکروہ ہے ۔اسے چاہیے کہ پھر گواہوں کے سامنے رجعت کے الفاظ کہے
۔
مسئلہ:رجعت کے الفاظ یہ ہیں میں نے تجھ سے رجعت کی ۔یا تجھ کو واپس اپنے
نکاح میں لیا یا روک لیا۔ یا اپنی زوجہ سے رجعت کی یہ سب صریح الفاظ ہیں ان
میں بلا نیت بھی رجعت ہو جائے گی اور اگر عورت سے کہا کہ تو میرے نزدیک
ویسی ہی ہے جیسے تھی یا تو میری عورت ہے ۔تو اگر بہ نیت رجعت یہ الفاظ کہے
رجعت ہو گئی ورنہ نہیں اور نکاح کے الفاظ سے بھی رجعت ہو جاتی ہے
۔(عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ: حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت مدخولہ ہے (یعنی شوہر اس سے
ہمبستری کر چکا ہے ) تو طلاق کی عدت پوری ہونے کے بعد عورت کسی اور سے نکاح
صحیح کرے اور یہ شوہر ثانی اس سے وطی بھی کرلے ۔اب اس شوہر ثانی کے طلاق یا
موت کے بعد عدت پوری ہونے پر شوہر اول سے نکاح ہو سکتا ہے اور اگر عورت
مدخولہ نہیں ہے تو پہلے شوہر کے طلاق دینے کے بعد فوراً دوسرے سے نکاح کر
سکتی ہے کہ اس کے لئے عدت نہیں ۔(عامہ کتب)
مسئلہ:عقد نکاح یعنی ایجاب و قبول میں یہ شرط لگائی کہ یہ صحبت کے بعد عورت
کو طلاق دے دیگا ۔حدیث شریف میں اس پر لعنت آئی اور یہ نکاح مکروہ تحریمی
ہے ۔زوج اول و ثانی اور عورت تینوں گناہگار ہوں گے ۔اگر چہ عورت اس نکاح سے
بھی شوہر اول کے لئے حلال ہو جائے گی اور شرط باطل ہے اور شوہر ثانی طلاق
دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقل میں شرط نہ ہو اگر چہ نیت میں ہو تو کوئی
کراہت نہیں بلکہ اگر نیت خیر ہو تو مستحب ثواب ہے ۔(درمختار وغیرہ)
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن و سنت کے مطابق مسائل طلاق ذکر کر دئے ہیں
۔طلاق ایک حساس مشئلہ ہے ۔اس میں احتیاط کی سخت ضرورت ہے ۔ موجودہ دور میں
یونین کونسلز میں تین طلاقوں کے بعد بھی صلح کروا دی جاتی ہے جو سراسر غلط
اور خلاف شریعت ہے ۔اسلامی نظریاتی کونسل اس قانون کو اسلامی سانچے میں
ڈھالے ۔و گر نہ معاشرہ مزید بگاڑ کی طرف رواں دواں رہے گا۔ کیونکہ تین
طلاقیں ہی گردانی جائیں گی ۔جیسا کہ حدیث پاک میں ہے ۔
حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ بز رگ صحابی ہیں ۔ ایک دو سرے صحا بی
حضرت عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ ان کا
اپنی بیو ی سے جھگڑا ہوا۔ تا آنکہ در بار نبوی میں حاضر ہو کر فریقین کو
لعان کرنے کا حکم ہوا۔ اسی قصہ میں ہے ۔فطلقھا ثلاثا قبل ان یامرہ النبی ﷺ
قال ابن شھاب فکانت شنة المتلاعنین ۔(الجامع الصحیح ،البخاری، کتاب الطلاق
،باب من اجاز طلاق الثلاث ،791/2،طبع اصح المطابع ،کراچی)
تو عویمر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کے حکم دینے سے پہلے اپنی بیوی کو
(وہیں ایک مجلس میں) تینوں طلاقیں دے دیں ابن شہاب زہری کہتے ہیں :تو یہی
،لعان کرنے والوں کے لئے سنت مقرر ہو گئی۔اور ابو داﺅد کی روایت میں یہ
الفاظ آئے ۔فانفذہ رسول اللّٰہ ﷺ۔(السنن ابو داﺅد کتاب الطلاق،باب
اللعان،306/1طبع اصح المطابع ،کراچی)
”یعنی رسول اللہ ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرمایا۔“
حضرت ام المومنین عائشة الصدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :” ایک شخص نے
اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے ڈالیں ۔مطلقہ نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ۔
تو اس نے اسے قبل از مقاربت طلاق دے دی ۔تو رسو ل اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا
کہ یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہے ؟ فرمایا کہ نہیں ! جب تک کہ دوسرا
خاوند اس سے مقاربت کر کے لطف اندوز نہ ہو لے ۔“ (الجامع الصحیح ،البخاری،
کتاب الطلاق ،باب من اجاز طلاق الثلاث ،791/2طبع اصح المطابع کراچی)
اما م بدرالدین العینی ،وابن حجر العسقلانی اس کی شرح میں بتلاتے ہیں کہ
”ظاہر ہے کہ یہ تین اکٹھی طلاقیں تھیں ۔“(عمدة القاری و فتح الباری یہی
مقام)
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:طلقنی زوجی ثلثا وھو خارج الی
الیمن ،فاجاز ذلک رسول اللّٰہ ﷺ۔”میرے شوہر یمن روانہ ہوتے وقت مجھے تینوں
طلاقیں (اکٹھیں یک مشت) دے گئے ۔تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں موثر قرار دیا ہے
۔“(السنن ابن ماجہ ،ابواب الطلاق باب من طلق ثلثا فی مجلس واحد صفحہ147طبع
ادارة احیاءالسنة النبویہ سرگودھا)
غیر مقلدحضرات کے سب سے بڑے محدث نافذ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی نے اس
حدیث کے بارے میں کہا :”صحیح“یہ حدیث صحیح ہے ۔ (صحیح سنن ابن ماجہ
الالبانی کتاب الطلاق باب من طلق ثلاثاً مجلس واحد
حدیث20,24,1644(343/1)طبع ریاض)
اور بھی بہت سی احادیث مقدسہ ہیں جن میں مسئلہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے
۔حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان ذوالنورین ،حضرت علی مرتضیٰ ،حضرت ام المومنین
عائشہ صدیقہ ،حضرت ام المومنین ام سلمہ ،حضرت ام المومنین حفصہ ، حضرت عبد
اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس ،حضرت عبد اللہ بن عمر ،حضرت عبد
اللہ بن زبیر ،حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص، حضرت امام حسن ،حضرت زید
بن ثابت الانصاری، حضرت ابو سعید الخدری ،حضرت ابو ہریرہ ،حضرت مغیرہ بن
شعبہ ،حضرت انس بن مالک ،حضرت عمران بن حسین ،حضرت عبد اللہ بن مغفل ،حضرت
عبد اللہ بن ابی ربیعہ اور بیس اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس مسئلے
پر بیسیوں فیصلے اور فتوے کتب احادیث میں سینکڑوں مقامات پہ پھیلے ہوئے ہیں
کہ بیک وقت تین طلاقیں دیں تو تین ہی ہونگی ۔
بہت سے اکابر ائمہ دین اعاظم مفسرین و افاضل محدثین مثلاً امام ابو بکر
الحصاص رازی ۔امام حافظ ابن حجر العسقلانی ،امام قرطبی اور امام جدابن
تیمیہ ”ابو البرکات ابن تیمیہ اور دیگر حضرات نے اس پر صحابہ کرام کا اجماع
نقل فرمایا کہ ایک وقت کی تین طلاقوں سے تین طلاقیں ہی ہوتی ہیں ۔اس پر
چاروں فقہوں کے چاروں اماموں امام اعظم ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی
اور امام احمد بن حنبل کا اجماع و اتفاق ہے اور یہی مذاہب اربعہ کے ہزاروں
،لاکھوں فقہاءو مفسرین ، محدثین و ائمہ دین کا متفقہ فیصلہ ہے ۔دیکھئے
سینکڑوں کتب وقت شروح حدیث و کتب فقہ و فتاویٰ بر مذاہب اربعہ ۔“
سعودی عرب کی فتویٰ دینے والی اتھارٹی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ایک وقت کی
تین طلاق سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں ۔(الفقہ علی المذاہب الاربعہ) |