کورونا:’اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔ ۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘ (قسط ۔ 18)
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کورونا:’اب نہیں کوئی بات خطرے کی ۔ ۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے‘ (قسط ۔ 18) جون ایلیا کی برسو ں پہلے کہی ہوئی بات آج سچ ثابت ہورہی ہے ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ............. جی ہاں یہ بات معروف شاعر جون ایلیا مرحوم اپنی زندگی برسوں پہلے کہے گئے ۔ اب کورونا کی یہی صورت ہوگئی ہے کسی کو کوئی خطرہ بھی نہیں اور ہر ایک اپنے آپ کو خطرہ میں گھرا ہوا محسوس کر رہا ہے ، خوفزدہ بھی ہے، افسردہ واور بے بس بھی ۔ کووڈ 19 دنیا میں لاکھو ں جانے نگل گیا پھر بھی بعض یہ کہتے ہیں کہ کورونا کوئی چیز نہیں ، یہ دشمنوں کی اور بعض اسے حکومت کی پھیلائی ہوئی چیز تصور کرتے ہیں ۔ بعض بعض کم عقل کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کو حکومت کے لیے فائدہ مند قرار دے رہے ہیں ۔ نہیں معلوم انہیں اس قسم کی معلومات کس نے اور کہاں سے فراہم کیں ۔ پاکستان ہلاکتوں کے اعتبار سے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ، ورلڈ میٹر ویب ساءٹ پر پاکستان میں اموات 2ہزار سے اوپر جاچکی ہیں ، یہ وہ اموات ہیں جو سرکاری اعداد و شمار بھی بتا رہے ہیں ;46;جب کہ مرنے والے جومختلف اسپتالوں میں لے جائے جارہے ہیں جہاں پر اسپتال کے عملے کو موت کی اصل حقیقت سے آگاہ ہی نہیں کیا جارہا ، وہ اس لیے کہ کورونا کی صورت میں لواحقین کو مشکلات پیش آتی ہیں ، وہ تعداد ان کے علاوہ ہے ۔ روزنامہ ’دنیا‘ کی رپورٹ ہے(6 جون )صفحہ اول پر خیبر پختونخواہ میں 191 بچے جن کی عمریں دس سال سے کم ہیں کورونا کا شکار ہوچکے ہیں ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا کو ایک زمینی حقیقت تصور کرتے ہوئے، حکومت نے اور ڈاکٹر ز نے جو احتیاطی تدابیر بیان کی ہیں ان پر سختی سے عمل کریں ۔ حکومتی ادارے جب سختی کرتے ہیں تو عوام ان سے شکایت کرتی ہے، کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم از خود ان پر عمل کریں ۔ جان بہت قیمتی چیز ہے، اس کی حفاظت ہ میں از خود کرنا ہوگی ۔ اس وقت میرا موضوع شاعری کے حوالے سے ہے ۔ شاعری کا کمال یہ ہے کہ یہ کسی دور میں بھی کی گئی ہو ، مستقبل میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی پر فٹ بیٹھ جاتی ہے ۔ جیسے اکثر سیاسدانوں کے بارے میں سیاسی جلسوں میں مجروح سلطان پوری کا یہ شعر اُس سیاست داں کے لیے سنایا جاتا ہے، کہ وہ تو تنہاہی چلا تا لوگ اس کے ساتھ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا ۔ شعر دیکھئے ۔ میں اکیلا ہی چَلا تھا جَانب مَنزل ، مگر لوگ سَاتھ آتے گئے اور کاروَاں بَنتا گیا بعض بعض شاعروں کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہر دور کے شاعر ہیں ۔ جیسے میر تقی میر، اقبال، غالب ،فیض، جوش، حبیب جالب،ناصر کاظمی، فراز،جون ایلیا اور دیگر کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہر دور کے شاعر ہیں ۔ آج بھی ان شعراکے اشعار ہر محفل میں سنائے جاتے ہیں ، بعض بعض اشعار تو ضرب المثل ہیں ۔ میر تقی میرجس کے بارے میں غالب نے کہا ۔ اپنا تو عقیدہ ہے بقول ناسخ آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد ِ میر نہیں غالب نے یہ بھی میر ہی کے بارے میں کہا ۔ ریختے کے تم ہی استاد نہیں ہو، غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا میر کا ایک ضرب المثل شعر دیکھئے ۔ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا، اس بیماریَ دل نے آخر کام تمام کیا غالب کو دنیا سے رخصت ہوئے151برس بیت چکے پر یوں لگتا ہے کہ جیسے غالب;207; موجودہ دور کا شاعر ہے بلکہ ہر دور کا شاعر ہے اوررہتی دنیا تک اس کا یہ اعزاز باقی رہے گا ۔ غالب;207; ہر اس شخص کے دل پر راج کررہا ہے جو ادب سے معمولی سے بھی رغبت رکھتا ہے ۔ شعر و شاعری کی بات ہو غالب ;207; کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے ۔ غالب;207; کے بے شمار اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ بعض بعض باتیں جو غالب;207; نے اپنے اشعار میں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی آجکل کے زمانے کا شخص وہ باتیں کررہا ہے ۔ غالب ماضی کا بھی حال کا بھی اور یہ مستقبل کا بھی اتنا ہی مقبول اورمحبوب شاعر رہے گا ۔ جب تک یہ دنیا آباد ہے، اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے اس دنیا میں موجود رہیں گے غالب بھی ان کے درمیان موجود رہے گا ۔ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ اسے رخصت ہوئے ہو گیالیکن غالب شعری دنیا میں آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ جسمانی طور پر وہ یقینا اب اس دنیا کا حصہ نہیں اسی لیے اس نے از خود کہا کہ’ غالب مر گیا پر یادآتا ہے‘ اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ ادب سے رغبت رکھنے والوں کو غالب کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ یاد آتا ہے ۔ ہوئی مدت کہ غالب مرگیا ، پر یاد آتا ہے وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا اقبال دنیائے عالم کی قدآور ، بلند و بالا اور عظیم شخصیت کا نام ہے ۔ اقبال کی شاعری، نثر نگاری، سیاسی بصیرت، ریاست کا فلسفہ، نوجوانوں میں بیداری کا تصور، اسلام کے بہترین شارح ان کی ایسی منفرد خصوصیات ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہی صفات و امتیازی وصف انہیں دیگر سے ممتازکرتا ہے ۔ اقبالوہ نابغہَ روزگار تھے جن کی علمی و ادبی و ساسی فکر نے برصغیر کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی، ان میں ملی خودداری کو اجاگر کیا،مسلمانوں کو خود شناسی کا سبق سکھانے کے لیے فکری جہاد کیا ۔ لوح بھی تو قلم بھی تو یرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب بہادر شاہ ظفر کے بعض بعض اشعار بھلائے نہیں بھلائے جاسکتے ۔ یہی حسرت تھی کہ گھر میرا مدینہ میں بنے بنا رنگون میں ارماں مرے سینے میں رہے اور پھر یہ شعر کس قدر مقبول ہے ہے کتنا بد نصیب ظفر دفن کے لیے دو گز ز میں بھی نہ ملی کوئے یار میں شاعر مزدور احسان دانش کی شاعری میں محنت کش کی آواز ہے ، سچائی ہے، درد ہے، خلوص اور رچاوَ پایا جاتا ہے ۔ احسان دانش کے بے شمار اشعار ضرب المثال بن گئے ہیں ۔ چوکھٹیں قبر کی خالی ہیں ، انہیں مت بھولو جانے کب کون سی تصویر سچادی جائے احسان دانش کا یہ شعر بھی بہت خوب ہے ۔ بیٹیاں سب کے مقدر میں کہا ہوتی ہیں گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں فیض بلاشبہ پاکستان کے اُن چند گنے چنے شاعروں اور ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے دنیائے ادب میں پاکستان کو بلند مقام دیا ۔ بے شمار اشعار فیض کے مشہور ہیں بلکہ پوری پوری غزلیں ۔ ان کا ایک شعر دیکھئے ۔ تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کر نے لگتے ہیں ناصرکاظمی غم و الم اور دکھوں بھری شاعری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ہمارے گھر کی دیواروں پہ، ناصر اداسی بال کھولے سور ہی ہے احمد فراز بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا کہنا ہے کہ فرازکی شاعری غم دوراں اور غم جانا کا ایک حسین سنگم ہے ۔ ان کی غزلیں کرب و الم کی غمازی کرتی ہیں جس سے ایک حساس اور رومانٹک شاعر کو دوچار ہونا پڑتا ہے، ان کی نغ میں غم دوراں کی بھر پور ترجمانی کرتی ہیں اور ان کی کہی ہوئی بات ’’جو سنتا ہے اسی کی داستان معلوم ہوتی ہے‘‘ ۔ فراز کی غزلوں کے کچھ اشعار سلسلے توڑ گیا ، وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹہر کے دیکھتے ہیں رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے مزاحمتی شاعری کے خالق اور ہر آمرِ وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے والے شاعر حبیب جالب وہ شاعر ہیں جن کے اشعار سیاسی رہنما اپنے جلسوں میں زیادہ سناتے ہیں ، بلکہ اسی کی طرز میں سنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ حبیب جالب کی شاعری میں میٹھا میٹھا سوز و گداز اور دل میں اتر جانے والی ایسی ٹھنڈنک ہے جس کی حساسیت اور چاشنی کو وہی لوگ بہتر طور پر محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اس ٹھندک کامزا حبیب جالب کو بھرے مجمع میں ترنم اور لے سے شعر پڑھتے ہوئے سنا ہو ۔ حبیب جالب کے اشعار ہی میں گہرائی و گیرائی نہیں ہے اس کی آواز میں بھی شیرینی تھی، میٹھاس تھا، سحر تھا، مقناطیسیت تھی ۔ بقول فراق گورکھپوری ’’میرابائی کا سوز اور سورداس کا نغمہ جب یکجا ہوجائیں تو اسے حبیب جالب کہتے ہیں ‘‘ ۔ لیکن جالب اپنا تعارف اپنے ایک شعر میں بہت ہی خوبصورت انداز سے کراتے ہوئے کہتے ہیں ; وہ جو ابھی اس راہ گزرسے چاک گریباں گزرا تھا اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں حبیب جالب جس مشاعرہ میں جاتے ، اجتماعات میں ہوتے یہی فرمائش ہوا کرتی کہ آپ اپنی وہی نظم ’دستور‘‘ سنائیں اور حبیب جالب اپنے مخصوص انداز، آواز اور لب و لہجہ کے ساتھاپنی یہ نظم سنایا کرتے، لاکھوں کے مجمعے میں حبیب جالب کی آواز لوگوں کے دلوں میں اتر جایا کرتی دیپ جس کا محلات ہی میں چلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا مشاعرہ میں یا اجتماع میں جہاں جالب کو شرکت کرنا ہوتی، تو یہ شعرضرور سنایا جاتا ۔ کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب; چاروں جا نب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں انہوں نے دوسرے آمر کو اُسی لب ولہجہ میں مخاطب کیا ، ان کی یہ نظم بھی بہت مقبول ہوئی تم سے پہلے وہ جو اِک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا چھوڑ نا گھر کا ہ میں یاد ہے جالب نہیں بھولے تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا، بھلا جالب کیسے برداشت کرسکتے تھے، وہ پکار اٹھے محبت گولیوں سے بو رہے ہو وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو گما ں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
جون ایلیا جون ایلیا کا شعر جسے میں نے اپنے کالم کا عنوان بھی بنایا موجودہ حالات کی مکمل عکاسی کرتا نظر آرہا ہے ۔ یعنی اب کوئی بات خطرہ کی نہیں لیکن سب ہی کو سب ہی سے خطرہ ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر ضرور جارہے ہیں ، بعض مجبوری میں بعض بلاضرورت بھی لیکن ان کے دل میں جون ایلیا کے شعر کے دوسرے مصرعہ کی کیفیت غالب رہتی ہے یعنی باہر نکلا شخص اپنے آگے پیچھے لوگوں سے خطرہ محسوس کر رہا ہوتا ہے ۔ اب نہیں کوئی بات خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے جون نے یہ بھی کہا کہ ۔ ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر اُس کے بغیر ، اُس کی تمنا کیے بغیر موجودہ حالات میں جب کہ وبا کے باعث زندگی کو خطرات لاحق ہیں ، جون کا یہ اشعار دیکھئے ۔ نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم خاموشی سے ادا ہو رسم دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم لمحہ موجود کے شعرانے بھی کورونا کو اپنا موضوع بنایا اور شعر کہے ۔ انشاء اللہ کسی وقت ان شعرا کے کلام کا انتخاب بھی پیش کرنے کی سعی کرونگا ۔ سر دست اتنا ہی ۔ کوئی شعر نقل کرنے میں غلطی ہوگئی ہو تو اس کی معزرت ۔ (8جون 2020) |