دل تتلی بن اُڑا - قسط نمبر 7

زمرد:ہاں یہ سچ ہے کہ گڑیا کے ساتھ میرا خونی رشتہ تو نہیں ۔ اسکی طرف ایک چھوٹا سا البم بڑھاتے ہوئے۔۔۔۔یہ تصویریں غور سے دیکھنا کیا تمہیں بھی یہی لگتا ہے۔ جس لڑکی کی تصویریں ہیں تابوت میں نعش بھی اسی کی ہے۔
فرمان:ہاتھ آگے بڑھایا البم پکڑ کر کچھ منٹ باغور جائزہ لینے کے بعد "زمرد مجھے تمہاری مدد کرنی ہے۔کیا میں تمہارے بارے اور جان سکتا ہوں۔
زمرد"کچھ دیر حیرت سے اسے تکتا رہا۔۔۔۔۔پھر بولا
ہمارا آبائی گھر ملتان میں تھا۔ دادا نے ابو کو لاہور پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ ابو نے ایف ایس سی فرسٹ ڈوژن میں پاس کی تو دادای ماں اور دادا جان ابو سے ملنے کے لیے گاوں سے لاہور آرہے تھے راستے میں ایکسیڈنٹ انکی جان لےگیا۔ شاداب ابو کا دوست تھا۔ کالج کے زمانے میں انکا رشتہ بھائیوں سے بڑھ کر تھا۔ اس مشکل وقت میں شاداب اسکے ماں باپ نے ابو کو سہارا دیا۔ابو اکیلے وارث تھے۔دادا جان کی خواہش تھی تو انہوں نے پڑھائی جاری رکھی۔ مگر شاداب گھریلو حالات کی وجہ سے پولیس میں بھرتی ہوگیا تھا۔ سننے میں آیا ہے اپنے کرپٹ افسروں سے اسکی نہ بن سکی اور چند سال بعد اسے ملازمت سے نکال دیا گیا پھر عمر قید بھی ہوئی مگر 6 ماہ بعد رہا ہوگیا تھا۔ ابو نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد تعلیمی ادارہ کھولنے کا سوچا شاداب نے انکی پوری معاونت کی سکول کی بلڈنگ عباس ماموں نے تیار کی وہیں سے ابو اور مما کے گھر والے ایک دوسرے کو جاننے لگے۔ نہ جانے پھر ایسا کچھ ہوا کہ شاداب ابو کا جانی دشمن بن گیا۔ مما بتاتیں ہیں شادی کے بعد وہ ابو کے ساتھ انکے گھر میں صرف چند دن رہ سکیں کیونکہ آئے روز کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آنے لگا نانی جان نے ابو کو اپنے پاس بلوا لیا۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ دوستی دشمنی میں بدلتی رہی۔ پھر ایک دن شاداب نے ابو کو دھمکی دی کے لڑکیوں کا سکول بند کردے۔جنت پور کی لڑکیوں کو پڑھانا مما کا خوب تھا۔۔۔۔۔شاداب یہ بات اچھی طرح جانتا تھا ابو نے انکار کر کردیا۔ اسی پر کافی کھینچا تانی ہوئی۔مجھے یاد ہے جب میری آنکھوں کے سامنے ابو کو بازاروں میں گھسیٹا اور مارا، پیٹا گیا تب میں کمزور تھا کچھ نہیں کرسکا۔ راڈ جس کے ساتھ وہ ابو کو مار رہے تھے میرے ہاتھ لگ گیا میں نے وہ مارا جو شاداب کو لگا اسکی آنکھ پھوٹ گئ۔ آج بھی اسکی آنکھ پتھر کی ہے۔ اسنے ابو پر قاتلانا حملہ کیا گڑیا کا باپ یعنی قادر چچا نے جان دے کر ابو پر ہونے والا حملہ ناکام بنا دیا۔ اس واقعے کے بعد شاداب کو جیل ہوئی 5 سال بعد وہ رہا ہو کر آگیا۔ اس نے ابو کے مکینک سے گاڑی کے بریک فیل کروا دیئے اور روڈ ایکسیڈنٹ انکی جان لے گیا۔زمرد کی آنکھیں ایسے تھیں جیسے سورج کی سرخی ان میں اتر آئی ہو۔ شبیر محویت سے اسے دیکھتا رہا۔ "پھر مما مجھے لیکر امریکہ چلی گئیں"
شبیر :گڑیا کو کیوں قتل کیا؟
زمرد:کیونکہ ابو کے قتل کا وہ واحد ثبوت ہے۔ جب اسنے بریک فیل کروانے کے لیے پیسے دیئے تو گڑیا نے شاداب اور اس آٹو مکینک کی باتیں سن لی تھی۔ کیونکہ وہ زرینہ آنٹی کی سہیلی کے ساتھ مکینک کی دکان پر آئی ہوئی تھی۔
شبیر :وہ مکینک کہاں ہے؟ کیا عدالت گڑیا کی گواہی مان لیتی ؟
زمرد: جس دن ابو کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا وہ اسی شام پولیسں کو اپنے گیراج میں مردہ ملا۔
شبیر :مطلب شاداب بہت شاطر مجرم ہے۔ زمرد کا کندھا تھپ تھپایا میں معافی چاہتا ہوں۔ میری وجہ سے تمہارے زخم تازہ ہوگئے۔
زمرد:کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔اگر 25 تاریخ سے پہلے گڑیا والی گتھی سلجھ جائے تو ابو کا قاتل جیل میں ہوگا۔
شبیر :انشاءاللہ! فرحان نے مجھے بتایا تھا۔ زمرد میں تم سے وعدہ تو نہیں کرتا مگر میری کوشش ہوگی کے میں تمہارے اور گڑیا کے لیے کچھ کر سکوں۔
زمرد:میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔۔۔۔۔بہت شکریہ!
زمرد دو تین قدم چلا تھا کہ شبیر بھاگ کر اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔۔۔۔۔جیب سے چھوٹی سی ڈائری اور پیلے رنگ کے خول والی پینسل نکالی جس کی کیپ نیلی تھی چلتے چلتے نمبر لکھا رک کر پیج پھاڑا زمرد کے ہاتھ میں تھما دیا۔زمرد نے حیرت کا اظہار کرتے میرے پاس تمہارا۔۔۔۔
شبیر :وہ زیادہ تر بند ہوتا ہے بھائی یہ میرا پرسنل نمبر ہے۔ہمارے پاس صرف دو دن ہیں کیس کے حوالے سے کوئی کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو بتانا۔
زمرد نے تشکرانہ انداز میں کاغذ پکڑا اور واپسی کی راہ لی۔
<--''-->
رضیہ اسامہ کے گھر سے نکلی تو اسکے ساتھ ساتھ ایک نقاب پوش بھی چل دیا۔وہ گبھرا کر تیزی سے آگے بڑھنے لگی اور اپنے پرس کو ہاتھ سے پکڑ کر ٹانگ کے اوپر کر لیا۔ تنگ گلی کی نکر پر دو گاڑیاں پہلے ہی تقریبا آدھے سے زیادہ راستہ بند کیے کھڑی تھیں۔ ایک تیسری گاڑی نے اسکے پہنچنے سے پہلے باقی ماندہ راستہ بھی بند کردیا۔
رضیہ تھوڑا ڈرتے ہوئے آگے بڑھی دائیں طرف سے ایک ڈیڑھ فٹ کا راستہ پایا تو اس طرف رخ کر لیا جونہی وہ گاڑی کے پاس پہنچی پچھلا گیٹ کھل گیا۔رضیہ مشکل سے سنبھلی جلدی سی پیچھے ہٹنے لگی تو کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر گاڑی کے اندر کھینچنا چاہا ۔رضیہ نے جوابی حملے میں منہ پر گھونسا مارا اور اپنا بازو چھڑوا لیا۔گاڑی سے باہر نکلی کھینچا تانی میں اسکا پرس زمین پر گر گیا۔اس سے پہلے کہ وہ بھاگتی ایک اور نقاب پوش جو اسکے ساتھ ہی اسامہ کے گھر سے نکلا تھا اسکو چیختے چلاتے گاڑی میں دھکیل کر اسکے ساتھ بیٹھا اور گیٹ بند کر لیا کار پلک جھپکتے ہی وہاں سے غائب ہوگئی۔

انسپکٹر جو مسلسل رضیہ پر نظر رکھے تھا۔ جب اچانک سے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئ۔ توحیران ہوگیا۔۔۔۔ اسے ڈھونڈنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے باہر نکل آیا۔ گلی سنسان تھی اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو انگلیوں سے ہوا میں گھمانے لگا۔ پیچھے ہی جمیل آگیا۔۔۔۔سر کیا ہوا سارے مرد جنازے کے ساتھ چلے گئے ہیں۔
انسپکٹر:سر ہلا کر دو قدم چلا ۔۔۔۔۔پھر رکا جمیل اندر رجی تھی اچانک منظر سے غائب ہو گئی۔
جمیل:سر وہ گھنگریالے بالوں والی؛ مقتول کی اسسٹنٹ؟
انسپکٹر: ہاں ہاں وہی۔۔۔!!
جمیل:وہ آپ سے پانچ منٹ پہلے گھر سے نکل گئی تھی۔
انسپکٹر :اچھا۔۔۔۔چلو تھانے_____ تھوڑا ہی چلا تھا کہ گلی کی نکر پر پہنچ کر جمیل چلایا"یہ کیا ہے؟ زمین پر بیٹھ کر فورا سے بولا رجی کا پرس۔
انسپکٹر :الٹے بانس بریلی کو_____وہ ابھی اتنا بولا ہی تھا کہ جمیل نے پرس اسکے ہاتھ میں تھما دیا۔ انسپکٹر ششدر رہ گیا"یہ وہی"اسے خیال آیا جب رضیہ نے اسکے سامنے اپنے پرس میں وزٹینگ کارڈ رکھا تھا "نہیں نہیں۔۔۔! سر نفی میں ہلا کر پرس پھر جمیل کو پکڑا کر چل دیا" دیکھو اگر اس میں سے پتہ مل جائے تو ٹھیک ورنہ ہو سکتا کوئی تھانے میں رپورٹ درج کروا دے" جمیل نے منہ بسورتے ہوئے پرس بازو میں ڈال لیا۔ انسپکٹر داود اسکی طرف غصے سے گھورنے لگا۔ جمیل مسکرا کر پرس ہاتھ میں پکڑ کر جلدی سے موبائل کا گیٹ کھولا داود بیٹھ گیا تو اسنے گیٹ بند کیا۔ سر یہ ورکنگ جرنلسٹ کا لائسنس۔۔۔۔۔۔!!
داود: رجی۔۔۔۔یہ تو واقعی رجی ہے۔ کوئی حادثہ ہوا ہے یا انجانے میں گر گیا۔جمیل:سر کیا کہا آپ نے؟
داود:چلو اسکے گھر کا چکر لگاتے ہیں۔ جمیل نے جاکر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
______

سویرا: فون ملایا۔۔۔۔بیل بجی۔۔۔۔۔پھر بجی تیسری رننگ پر سیما نے فون اٹھایا۔ اسلام علیکم!
سویرا :وعلیکم سلام! بھابی آپ ڈڑوازہ کھولیں!
سیما:او ہو تم دروازے پر ہو؟
سویرا:جی ۔۔۔۔۔ٹیپو بھی میڑے ساٹھ۔
سیما"اسکی تو ٹانگیں توڑتی ہوں____ کب سے گیا ہے"زور سے چیخی فون ٹھک سے رکھ دیا۔ سویرا حیرانی سے بالترتیب فون اور ٹیپو کو تکنے لگی۔ٹیپو نے آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے ہاتھ کی ہک بنا کر گھمائی اور بولا "کیا ہوا؟
سویرا :مما بہٹ غصے میں لگ ڑہی ہیں۔
ٹیپو کھلکھلا کر ہنسا "میں سمجھا کچھ نیا ہے، لکڑی سے بنی بیساکھی دیوار کے ساتھ کھڑی کی اور اسی سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
سویرا اسکی پولیو زدہ بائیں ٹانگ کو گھورنے لگی۔اتنے میں دروازہ کھلا۔ سیما'ارے اندر آو____سویرا کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ لی ضروری ہے جب بھی آو کچھ نہ کچھ ضرور لانا ہوتا۔
سویرا :کچھ نہیں ہوٹا بھابی بچے پلاو شوق سے کھاٹے ہیں۔آج بنایا ٹھا سوچا جانا ٹو ہے لے جاٹی ہوں۔
سیما"تم کہہ رہی تھی ٹیپو ہے تمہارے ساتھ۔
سویرا: جی اپنے پیچھے چھپے ہوئے ٹیپو کے سامنے سے ہٹتے ہوئے۔
سیما نے اسکے سر پر بندھی پٹی دیکھی تو بلک اٹھی پیار کیا گلے لگایا رونے لگی۔ کچھ دیر بعد آنسو صاف کیے اور کوسنے لگی۔ سویرا نے ساری بات بتائی اور پوچھا "بھابی کہاں بھیجا ٹھا اسے اور کیوں؟ سیما :وہ____وہ یہ ____تھوڑا اٹکی پھر بولی یہ کہاں گھر بیٹھتا ہے۔ اچھا میں پلیٹس صاف کر دوں۔ ٹیپو:دس منٹ تک سویرا کو دیکھتا رہا جب وہ بار بار بے چینی سے کچن کی طرف دیکھتی،اسے دیکھ کر طنزیہ مسکراتا___کچھ دیر بعد اسکے پاس آیا بیٹھا بولا پھوپھو آپکو پتہ مما کیوں نہیں آئیں۔ بیساکھی اسکی گود میں رکھ دی
سویرا:دونوں ہاتھ مل کر مسکرائی" برتن صاف کڑ ڑہی ہونگی" ٹیپو: جمائی لے کر_____وہ فیس بک پر ہوں تو ہمیں کھانا نہیں دیتیں_____آپ کو پتہ میں باہر کیوں گیا تھا؟ سویرا بنا کچھ بولے اسکی طرف متوجہ ہوئی بیساکھی اٹھا کر ایک سائیڈ پر رکھہ دی۔ٹیپو" ہمیں بھوک لگی تھی مما موبائل کے ساتھ بزی تھیں اس لیے باہر کچھ کھانے کو لانے گیا تھا۔ وہ اٹھ کر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد سویرا دبے پاوں اٹھی اور کچن کی طرف بڑھی سیما فون میں مگن تھی ان دھلے برتن بیسن میں پڑے تھے۔وہ اردگرد سے بے خبر تھی؟ سویرا نے اپنے آنے کا احساس دلانے کے لیے گلہ کھنکارا سیما نے چونک کر موبائل آف کیا شیلف پر رکھتے ہوئے۔ ارے میں لا رہی تھی برتن۔ سویرا نہیں بھابی برٹن پھڑ سہی میں چلٹی ہوں کافی ڈیڑ ہوگئی۔ سیما فون اٹھاتے ہوئے چلو پھر میں ٹیپو کے ہاتھوں بھیجوا دوں گی۔
سویرا آہستگی سے منہ میں بولی ٹیپو "اوکے پھر سیما بھابی
سیما"اللہ حافظ"
سویرا:میں ڑات کو سوپ بنا کڑ بھیجوں گی بس بھابی آپ ٹیپو کا خیال ڑکھنا____اللہ حافظ کہا اور چل دی۔
سیما کچن کے دروازے سے باہر جانکی بہت شکریہ۔۔۔۔۔ یاد سے بنا کر بھیج دینا______پھر میں نہیں بناتی اب۔

____
زمرد ابھی کچی سڑک پر تھا کہ اچانک سے اسکی نظر تین چار دکانوں نما عمارت کے سامنے کھڑے لوگوں کے گروپ پر پڑی جو دائرہ کی شکل میں کھڑے جوتے اور ڈنڈے برسا رہے تھے۔اس نے پاس جاکر گاڑی روکی اترا تو چیخوں نے اسے دہلا کر رکھ دیا۔ جلدی سے آگے بڑھا کون ہے؟؟اس کی نظر زمین پر نیم بے ہوش خون سے لتھ پتھ بچے پر پڑی۔ وہ چلایا! چھوڑو اسے۔۔۔۔ بند کرو یہ۔ بیچ بچاو کرواتے ہوئے اسے معمولی سی چوٹیں آگئیں۔ کچھ دیر تگ ودو کے بعد وہ لوگوں کو رام کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پوچھنے پر ایک سفید پوش ہٹے کٹے شخص نے اٹھ کر کہا "یہ چور ہے" میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ زمرد نے اٹھ کر اسے آگے بڑھنے سے روکا۔ دوسرا اٹھا چوری کے لیے کوئی معافی نہیں؛تیسرا :اسے پولیس کے حوالے کردیں۔ چوتھا،پانچواں۔۔۔۔۔۔باری باری سب نے سزا پر اصرار کیا۔ زمرد نے کہا اچھا یہ بات ہے ویسے اسے نے چرایا کیا ہے؟ سب لوگ ایک دوسرے کے منہ کو گھورنے لگے اور نفی میں سر ہلایا بولے"پتہ نہیں" ایک بولا یہ صداقت بھائی کا ملازم ہے انہیں پتہ ہوگا۔
زمرد"ان لوگوں کی ذہنی حالت پر حیران ہوا۔ اسنے لڑکے کی طرف دیکھا جس کے کپڑے دھول اور خون سے لتھ پتھ تھے۔جو زخموں سے چور سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔اٹھا اور اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوئے"بھائیوں تو فیصلہ ہوا کہ اسے پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ ایک نے جلدی سے فون نکالا اور میں ابھی بلاوتا ہوں۔ زمرد نے اسکا فون چھینا اور بولا رکو ؛فون وہ کرے گا جس نے ڈنڈے مار مار کر اسے زخمی کیا ہے کیونکہ پولیس قانون ہاتھ میں لینے کی دفعات میں گرفتار کر سکتی ہے۔ اس شخص نےفورا اپنا فون واپس لے لیا کوئی بھی پولیس بلوانے پر راضی نہ تھا۔ایک دو تو وہاں سے کسک گئے۔ زمرد نے کہا تم لوگ کہو تو میں اسے تھانے چھوڑ دوں ۔ جو چند بچے تھے انہوں نے ہاں کہہ کر جان چھڑوائی۔ زمرد اسے بازو سے پکڑ کر گاڑی تک لے آیا لڑکے نے کانپتے ہوئے دونوں ہاتھ اسکے سامنے جوڑے صاحب خدا کے واسطے مجھے پولیس کے پاس نہیں لے کر جانا۔ زمرد نے اسے گلے سے لگایا اسکی بائیں آستین اور سینہ لہو سے بھر گیا۔۔ نام پوچھتے ہوئے اسے گاڑی میں بیٹھا لیا۔ وہ بنا کچھ بولے زمرد کے چہرے کو دیکھنے لگا۔۔"زی زی۔۔۔ن"زمرد سامنے سے گزر کر گاڑی میں بیٹھا گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پھر اسے مخاطب کیا"کہاں رہتے ہو؟ بولا "یہ پاس ہی کچی آبادی میں "اس نے جنوب کی طرف ہاتھ اٹھایا۔ زمرد نے گاڑی اس طرف موڑ لی۔۔۔۔ سچ مچ کچھ چرایا تھا کیا؟ لڑکے نے زمرد کی طرف دیکھا اور بولا "پورا ایک سو روپیہ" اسنے گاڑی روک لی اور لڑکے پر نظر ڈالی جو خالی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے جلدی سے گاڑی چلائی،بائیں ہاتھ سے لڑکے کو ٹشو دیا یہ لو بیٹا منہ صاف کرو۔
صاحب: ماں کی قسم "زین" چور نہیں ہے۔ مجھے اپنی بیمار ماں کی دوائیاں لانی ہوتی ہیں۔کل سے اسکی دوائی ختم ہے استاد مجھے کم روپے دیتا ہے۔ دوائی کے پیسے پورے کرنے کے لیے چرائے تھے۔زمرد خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔ایک دم سے روشنیاں نظر آئیں تو لڑکے نے چلا کر کہا صاحب تم مجھے یہاں اتار دو مجھے۔۔۔۔۔۔میں پیدل چلا جاوں گا۔
زمرد نے کہا:کونسی کلاس میں پڑتے ہو؟ بولا چوتھی جماعت میں پہلی ٹرافی لی تھی۔پھر ابا مر گیا مجھے اسکول چھوڑنا پڑا صاحب اگر میں اسکول چلا گیا تو اماں کی دوائیں کہاں سے آئیں گی؟
آبادی میں پہنچتے ہی "ادھر ہی گھر ہے میرا صاحب گاڑی رک دے" اسکے چہرے کا خوف ختم ہوچکا تھا مگر زحموں کے نشان باقی تھے۔
زمرد نے اپنے بٹوے سے پیسے نکال کر یہ لو اماں کی دوائیں لانا اور اسکول بھی جایا کرو۔ جیسے وہ اپنے سارے درد بھول گیا ہو۔ زمرد سے پیسے پکڑے اور چاروں اطرف دیکھ کر ایک نوٹ رکھ کر باقی واپس کر دیے اپنی انگلی بائیں جانب کرتے ہوئے وہ میرا گھر ہے۔ زمرد نے مسکراتے ہوئے۔اللہ حافظ! اپنا نمبر اسے دیا اور بولا اسکول ری جوائن کرو گے؟وہ گاڑی سے اتر کر گھر کی طرف بھاگ گیا۔
جب وہ اندر چلا گیا تو زمرد نے اپنی آنکھیں ملیں اور گاڑی واپس موڑ لی۔ وہ صدمے کی حالت میں تھا۔ کچھ دور جا کر اچانک سے ایک لڑکی اسکی گاڑی کے سامنے آگئی۔اس نے مشکل سے بریک لگائی نیچے اتر کر چلایا سڑک پار کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ لڑکی زمین پر گر گئی۔ زمرد"او نو" اس نے آگے بڑھ کر اسکی نبض دیکھی لڑکی بری طرح کیچڑ سے لتھ پتھ تھی۔اسے اپنی گاڑی میں بیٹھا کر اسپتال لے گیا۔
ادارے کے گارڈ نے اسے زبردستی روک لیا۔کچھ دیر بعد ایک آدمی آیا اور اسے اپنے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
ڈاکٹر نے اس پر غلط سلط الزام لگاتے ہوئے علاج سے انکار کر دیا اور پولیس بلوانے پر اصرار کیا۔زمرد پہلے تو پریشان ہوا۔ پھر وہ بولا"ہاں ٹھیک ہے پولیس بلوا لیں " ڈاکٹر ہکا بکا رہ گیا۔ گلہ صاف کرتے ہوئے "ہوسکتا ہے آج آپ جوان لڑکی کے اغواء میں اندر ہو جائیں۔۔۔۔۔بس ذرا پچھلوں کا ایڈریس دے دیں۔زمرد غصے سے اٹھا۔۔۔۔۔۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ کورٹ کے بہت سے معاملات رہتے ہیں۔ مسکرا کر بیٹھتے ہوئے"ڈاکٹر صاحب کوئی بیچ کا رستہ؟
ڈاکٹر "دیکھو میرا چھوٹا سا کلنیک ہے اگر دیہاڑی دے دو تو۔۔۔۔ہاتھ ملنے لگا۔
زمرد"کتنے؟؟اسکی طرف گھورتےہوئے۔
ڈاکٹر"بس ایک لاکھ!
زمرد ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے۔۔۔۔۔چیک بک نکالی اور 2 لاکھ اماونٹ لکھ دی۔ اس لڑکی کا خیال رکھنا جب ہوش میں آئے مجھے بتانا۔ کرسی سے اٹھتے ہوئے اپنا وزٹینگ کارڈ چیک کے ساتھ اسکی طرف بڑھا دیا۔
_____
شاداب: ڈیڑے پر بیٹھا تھا فون بجا۔ فضلو نے فون اٹھا کر شاداب کو دیے دیا۔
شاداب:وسلام خان صاحب آپکی طرف آنے والا ہوں۔ ارے آپکا مال آج رحیم یار خان کی طرف روانہ کر دیا۔ کالی گاڑی آتی دیکھ کر ٹھیک ہے پھر ڈننر پے ملاقات ہوتی ہے۔ گاڑی رکی رضیہ کے داہنے طرف بیٹھا ہوا آدمی باہر نکلا آجاو میڈم ورنہ مجھے خود بھی زحمت دینی آتی۔رضیہ اسے گھوری اور جم کر بیٹھی رہی۔ وہ جھکا گردن گاڑی میں دھنسا کر اسے پکڑ کر باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگا تو رضیہ نے انگلی اسکی طرف اٹھائی تمیز___ دست دارزی نہیں____میں خود باہر نکل رہی ہوں۔اسے دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ لاتے ہوئے ہاتھ سیٹ پر رکھ کر بولا یہی بہتر ہوگا۔ جونہی رضیہ گاڑی سے نکل کر تھوڑی دور پہنچی تو سامنے ایک آدمی بیٹھا تھا۔ نیلے رنگ کا قالین دو سرخ کرسیاں جس میں سے ایک پر وہ براجمان تھا۔
رضیہ کی نظر جونہی اس پر پڑی تو اسکا خوف غصے میں بدل گیا۔ تیز تیز چلی قریب پہنچی تو ڈٹ کر بولی اچھا تو تم ہو_____میں بھی سوچ رہی تھی اتنی گھٹیا حرکت اور کون کر سکتا ہے۔
شاداب نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی کو مونچھوں پر سے اُلٹا گھما کر آنکھ کے پپوٹے کو اوپری طرف دھکیلا______دیکھ دل نہیں چاہتا تھا خوبصورت لوگوں پر گولی ضائع کروں ورنہ میرے لیے پچاس روپے میں تم سے نجات مہنگا سودا نہیں۔رضیہ: رپورٹ چھپنے سے پہلے تم سے ملنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔آج جو ہوا چلو ایک لحاظ اچھا ہی ہوا۔شاداب نے پستول نکال کر انگلی میں گھمایا۔
رضیہ کرسی کھینچ کر بیٹھی اچھا تو یہ بات ہے۔
شاداب:حیرانی سے اپنی نشت سے پشت ہٹا کر۔۔۔۔۔۔پستول نیچے کر لیا۔دیکھو ہمارے ساتھ چلو فائدے میں رہوگی۔ایک لمحے کو جیسے اسکے لہجے کی سختی نرمی میں بدل گئی۔
رضیہ:بڑے پرسکون انداز میں نشت کو ٹیک لگاتے ہوئے ____مثلا___جیسا کہ!؟
شاداب: "مثلا ماہانہ منافع فیصد کے مطابق وصول کرو__جیسا کہ اسمگلنگ رپورٹ ہمارے حوالے کرو_____ سر بمہر ثبوت کے ساتھ تمام کاپیاں"
رضیہ_____ھمھم پیکج اچھا ہے۔
شاداب:قہقہہ لگا کر اس بے ادبی اور گستاخی کے لیے بڑی معذرت تم یقین کرو اگر ہمیں پتہ ہوتا تو آپ جناب عالیہ کو یہ زحمت نہ دیتے۔۔۔۔ہاتھ باندھے پہلو میں کھڑے فضلوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ان گدھوں نے تمہاری پروفائل کی پریزینٹیشن اتنی ڈراؤنی دی۔ ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہنسنے لگا۔
رضیہ: جھٹکے سے اٹھی ٹھیک کہا تم نے یہ سب گدھے ہی ہیں۔ میں اور تمہیں ڈراؤنی ___ہونٹ دبا کر ہنسی۔بزدل انسان پچاس روپے کے نقصان سے ڈرتے ہو؟ شاداب نے نشت چھوڑ دی اسے الو کی طرح گھورنے لگا۔
رضیہ:ویسے وہ رپورٹ تو میں تمہیں چاہ کر بھی نہیں دے سکتی۔۔۔۔۔۔ٹرسٹ می مسٹر شاداب اگر وہ میرے پاس ہوتی تو تب بھی نہ دیتی تم جیسے بھیڑیے کو۔
سلیمان نے آگے بڑھ کر گن لوڈ کی تمہاری کھوپڑی بھی نہیں ملے رجی۔
شاداب:سلیمان کی طرف مڑا پستول سے گولیوں سے بھری میگزین نکال کر سلیمان کی طرف اچھال دی گن لو پوری نو ہیں۔کل میں ڈاکٹر یحیی سے پوسٹ مارٹم رپورٹ خود لوں گا۔ سلیمان نے کیچ کر لی____ اوکے سر۔۔۔!!


 

Saima Munir
About the Author: Saima Munir Read More Articles by Saima Munir: 14 Articles with 12378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.