8 فروری 2020 کو میں صبح سویرے معمول کے مطابق پریکٹیکل
دینے کے لئے یونیورسٹی کیمپس کی طرف لے جا رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح روڈ کے
دونوں جانب ٹریفک آ اور جا رہی تھی۔ اس دن میں نے ٹریفک کے شورمیں ایک اور
مخلوق کو سڑک کے عین درمیان کھڑے ہوتے دیکھا۔ اور دیکھتے ہی میری ہنسی نکل
گئی اور یقینا جس جس نے بھی اسے دیکھا ہوگا سب کی ہنسی ہی نکلی ہو گی۔ کیوں
کہ سڑک کے عین درمیان ٹریفک میں گدھے کا ایک بچہ کھڑا تھا۔ لیکن وہ بہت
زیادہ بھی چھوٹا نہیں تھا۔ میں نے اسے دیکھا ہنسی اور آگے بڑھ گئی۔ اسی دن
واپسی پر آتے ہوئے میری نظر اسی جگہ پر پڑی تو میں نے دیکھا وہ گدا اسی
حالت میں بالکل اسی طرح کھڑا ہے جیسے صبح کھڑے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔
میں سے پھر دیکھ کر آگے بڑھ گئی۔
اگلی صبح پھر وہاں سے گزرتے ہوئے میں نے اسی جگہ پر اسے دیکھا ۔ اسے دیکھ
کر یہ محسوس کیا جا سکتا تھا کہ وہ کتنی مشکل سے کھڑا ہے اور لگتا تھا کہ
ابھی گر کرمر جائے گا۔ میں نے سوچا کہ یہ ابھی تو زندہ کھڑا ہے ہے لیکن
میری واپسی تک یہ گر کر مر چکا ہوگا۔
لیکن واپسی پر دوبارہ میں نے اسے اسی جگہ پر کھڑا دیکھا، اس دفعہ مجھے
احساس ہوا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے یہ غلط ہے۔ اسی روڈ پر ایک بہت بڑا پلازہ زیر
تعمیر تھا ، جس کا تعمیراتی سامان اس سڑک کے ساتھ پڑا ہوا تھا ۔اس روڈ پر
اتنی دنیا گزر رہی تھی۔ اس پلازہ کے پاس اتنے زیادہ مزدور تھے میں نے سوچا
ان لوگوں کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ ایک مرتے ہوئے گدھے کےبچے کو اٹھا
کر کسی greenery میں چھوڑ آئے؟ کیونکہ وہ تو گدھا ہے تو وہیں کھڑا رہے گا
یہ تو ہم انسانوں کا فرض ہے کے اسے اس کیلئے بہتر والی جگہ پر چھوڑ کر آئیں
اور اس دن کے بعد میں اسے، اس سڑک پر اسی حالت میں اس وقت تک دیکھتی رہی جب
تک کہ میرے پریکٹیکلزختم نہیں ہوگیے، اور میں نے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا۔
لیکن یہ واقعہ میرے لاشعوری دماغ میں کہیں بیٹھ گیا اور میں کہیں دنوں تک
اسی واقعے پر غور کرتی رہی۔
اور میں نے سوچا کہ اللہ تعالی نے تو ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات کا لقب
عطا فرمایا ہے تو کیا واقعی ہی ہم اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کر رہے
ہیں؟
انسانی فطرت میں عجیب قسم کی ہے کہیں یہی انسان انسانیت کی معراج کو"
ایدھی" کی صورت میں بلند کر رہا ہے، تو کہیں" مودی" کی صورت میں اشرف
المخلوقات کے لقب پر سوال اٹھا رہا ہے۔ کچھ انسانوں کے پاس بہت زیادہ دولت
ہوتی ہے لیکن ان کا دل بہت چھوٹا ہوتا ہے ان کے پاس غریبوں فقیروں اور
ضرورتمندوں کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا اور کچھ وہ ہیں جن کے پاس بہت
کچھ ہوتا ہے لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کن کن میں بانٹیں، بانٹ بانٹ
کے بھی ان کے خزانے ختم نہیں ہوتے۔ کہیں وہ ہیں جو دوسروں کو قتل کر رہے
ہیں لیکن انھیں یہ نہیں پتا کہ وہ کن کو اور کیوں قتل کر رہے ہیں؟( دہشت
گرد) اور کہیں وہ ہیں جو معصوم ہیں بے گناہ ہیں اور انھیں یہ نہیں پتا کہ
انہیں کس وجہ سے اور کیوں قتل کیا جا رہا ہے ؟یعنی قاتل کو مقتول کا اور
مقتول کو قاتل کا بھی نہیں پتا؟ کیا اسے انسانی معاشرہ کہتے ہیں جہاں اگر
کوئی ٹریفک حادثے میں کسی انسان کی زندگی کو خطرہ ہو، وہ اپنے سانسیں مشکل
سے لے رہا ہوں اس کا خون بہتا جا رہا ہوں، اور لوگ اس کی زندگی بچانے کے
لئے اسے امدادی مدد دینے کی بجائے، اسے ہسپتال بھیجنے کے بجائے، اس کے پاس
ہجوم بنا کرکھڑے ہوکر افسوس کر رہے ہوں ۔ اور وہاں کچھ دیر کھڑا رہنے کے
بعد کچھ دور جا کر اپنی دوستوں سے ہی کہہ رہا ہوں کے تت تت تت کتنا برا
حادثہ تھا، اتنے لوگ زخمی ہوگئے اور اتنے جوان چل بسے ۔ بے حسی اتنی ہے کہ
لوگوں کو مرتے ہوئے ہم لوگ دیکھ سکتے ہیں اور درد اتنا ہے کہ دور جا کر صرف
افسوس کر سکتے ہیں۔ کیا ایسے انسانوں کو اشرف المخلوقات کہنا چاہیے؟ کیا
ایسے انسانی معاشرے میں جہاں انسانی جان کی قیمت نہ ہو وہاں اس عام سے گدھے
کی حفاظت کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس طرح انسانوں کے لئے اشرف المخلوقات کے
ساتھ ساتھ ایک اور لقب عجیب ا لمخلوقات بھی ہونا چاہیے
ایسے انسان اپنے مفاد کے لئے بہت اچھے ہیں ، سب کچھ اچھا کرتے ہیں اور اشرف
کہلاتے ہیں۔ اور دوسروں کے لئے عجیب بن جاتے ہیں آج میں آپ اور ہم سب اس
معاشرے کا حصہ ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اشرف المخلوقات کو
اشرف ہی رہنے دے۔ میں آپ اور ہم سب کو سوچنا اور غور کرنا چاہئے کہ ہم کس
کیٹگری میں ہیں؟
|