حقیقت

یہ آرٹیکل عام زندگی کو دیکھ کر لکھا ھے اس میں لوگوں کوان کے آس پاس کے حالات سے واقف کرنے کی کوشش کی ھے امید کرتی ھوں یہ آرٹیکل لوگوں کی اصلاحی زندگی میں بہتر طریقے سے اثر انداز کرے گی۔

وقت زمانہ دیکھوں یا وقت موجودہ دور ہر سو جہالت عام ھےلوگ جہالت کی تاریکیون میں ڈوبتے جارھے ھیں انسانیت سے تو جیسے منہ ہی موڑ لیا ھے۔جزبہً اسلام ختم ہو رہا ھے غرور اور تکبر عروج پر ھے ہر انسان دوسرے انسان کے خون کا پیاسا بیٹھا ھےدنیاوی ترقیوں نے اپنوں کو ہی اپنوں کا دشمن بنادیاھے انسان اپنی اوقاتِ پیدایً بھول رہا ھے غرور،تکبر،جلن،نفرت اور حسد میں اتنا آگے نکل گیا ھے کہ بھول گیا ھے کہ کوئ ھے جو اپنے بندوں کا منتظر بیتھا ھے کہ وہی خَدا ھے جو نظامِ حستی چلا رہا ھے ۔ ُدولت‘ دولت کی حوس میں انسان اتنا اندھا ھو گیا کہ قریبی رشتوں کا بھی گلہ گھونٹ دیا ھے حتیٰ کے دولت کے پیچھے اولاد تک اپنی نہیں رھتی اور کہیں تو یہ ماجرہ ھے دولت نے امیروں مین اتنا غرور بھر دیا ھے کہ انکے پاوًں زمین پر ہی نہیں ٹکتے اور غریب لوگوں کو کو روندتے چلے جاتے ھیں اور غریب اپنی بے بس زندگی سے تنگ آکر اپنی زندگیاں ختم کر لیتے ہیں۔

غربت کے اس دور میں جلتا ھےہرمعصوم،
امیروں کے غرور میں مر جاتا ھے معصوم،
لکھ کر دو لفظ داستانِ غریبی کیا سناوًں؟؟
امیروں کو کیا خبر کیسے جیتا ھے معصوم۔

دولت کی حوس نے لوگوں کے ایمان کو مار دیا ھے محبت کی جگہ نفرت نے لے لی ھےاحساس مر گیا ھے والدین ڈر سے بچوں کو باہر بھیج نہیں سکتے لڑکیاں محفوط نہیں ہیں پتہ نہیں یہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے یہ کیسا دور آن پہنچا ھےیہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہےہر طرف ظلم و ستم کے بادل چھاےً ہوے ہیں اور کوئ آواذ اٹھانے والا نہیں ھے نفرتوں اور غرور کے اس گھیرے میں ہر طرف شیطانیت پیدا ہو رہی ھے معصوم بچوں کی ذندگیوں سے درندے کھیل رہے ہیں لڑکیوں کی عزت محفو ظ نہیں افسوس کے ھم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں کہنے کو تو لوگ ہیں لیکن لوگوں کی صورت میں جانور ہیں جنکا نہ تو کوئ دین ھےنہ ایمان اور نہ ہی خوفِ خُدا۔افسوس کے ھم کہتے خود کو مسلمان ہیں لیکن صرف کہنے سے مسلمان نہیں ہو جاتے دل سے سچے راستے کو چُن کر اسلام کا پرچم بلند کرتے سچا مومن وہی ہوتا ھے جو حق کی راہ پر چل کر اسلام کے لیے اپنی ذندگی وقف کردے۔۔۔۔۔

ایک وقتِ ذمانہ تھاجب کوئ امیر کوئ غریب، کوئ گورا کوئ کالا،نہیں تھا محبت ہر طبقے میں تھی سب ایک دوسرے کے بھائ ہوا کرتے تھے تم بھی اسی دور کے امتی ھو دیکھو اپنا ایمان،تلاش کرو خود کو دنیاوی تخلیق میں خدائ تخلیق کو نہیں بھولو اٹھو آگے بڑھواور مٹادو اس جہالت کوجو تمہیںانسانیت کے جذبے سے روکتی ھے ،روک لو یس سے پہلے اوربے قصور لوگوں کو درندوں کے آگے اپنے عزیزواقارب کھو بیٹھے روک لو ،ختم کر دو اور عام کردو جذبہِ اسلام،جذبہًٰ محبت، جذبہً یکجہتی اور ایک ہو جاو کیونکہ ھم سب مسلمان ہیں اور ایک ہی رب کے ماننے والے ہیں۔

ُبے شک وہی سب کا خالق و مالک ہے، اور ایک دن ھم سب نے لوٹ کر اسی کی طرف جانا ھے‘
 

Izma Shakeel
About the Author: Izma Shakeel Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.