اللہ کریم رب العزت نے دُنیا بنائی، اس دُنیا کو بہتر سے
بہتر بنانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں انسان کے لیے پیدا فرمائیں، اشرف
المخلوقات کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو
معبوث فرمایا، سب سے آخر ہمارے پیارے محبوب آقا دو عالم خاتم النبین حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اللہ کریم لائے اور ابنیاء
کرام کا سلسلہ بند فرمایا۔ آخری امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
امت ہونے پر فخر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے ایک
بہترین نمونہ ہے اور امت مسلمہ اسی کے مطابق زندگی پر عمل پیرا ہے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر عمل کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی
وقت سفر ان سے نصیحت فرمائی تو وقت نے ثابت کیا کہ چور سے قطب بنا دیا
گیا۔یہ انسانیت کا درس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ
زندگی کا اثر ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی زندگی کو عملی طورپر سیرت النبی پر
عمل کرتے ہوئے نمونہ پیش کیا، آج بھی جس نے عملی طور پر زندگی گزاری اس کے
درجات اللہ تعالیٰ بلند فرماتا ہے،انسانیت کی بہت سی مثالیں ملتی ہے۔ہمیں
بھی چاہیے کہ نیک سیرت اور باعمل بن کر کوئی ایسی مثال قائم کر جائیں جو
ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کارگر ثابت ہو اور پیچھے آنے والے اس پر عمل
کرتے ہوئے ایسی مثال بن کر خود کو پیش کریں۔ آج آپ اس تحریر کو پڑھنے جا
رہے ہیں جو چند سال پہلے اس دنیا فانی سے رخصت ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے
کیا کرتا ہے، ان کا نام کسی سے چھپا ہوا نہیں، اور مجھے فخر بھی ہے کہ میری
ان سے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ملاقات بھی ہوئی، اس شخصیت کا نام
عبدالستار ایدھی ہے۔ ایک مارننگ شو میں بیگم بلقیس ایدھی سے سوال کیا گیا
کے اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ سنایں بلقیس ایدھی نے ہنستے ہوئے بتایا
کے ایک دفعہ وہ اور ایدھی صاحب ایک پرائیویٹ کار پر سکھر جا رہے تھے ایک
شادی پررات کا وقت تھا اندرونِ سندھ سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر کچھ ڈاکو
راستے میں آ گے اور ہماری گاڑی روڈ سے اتار کر کچے میں لے گئے وہاں پہلے سے
کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں اور ڈاکو لوٹ مار میں مصروف تھے تھوڑی دیر میں ایک
ڈاکو ہماری طرف آیا اور ڈرائیور اور ایدھی صاحب کو باہر نکلنے کا کہا ان
دونوں کی تلاشی لی اور جیب خالی کرا لی،اچانک اس ڈاکو کی نظر ایدھی صاحب پر
پڑی اور غور سے ان کو دیکھنے کے بعد ایک ڈاکو جلدی سے ایک جانب کھڑی جیپ کی
طرف گیا اور ایک شخص کے ساتھ فورن واپس آ گیا،اس شخص نے ٹارچ کی روشنی
ایدھی صاحب کے چہرے پر ڈالی اور پوچھا آپ عبدالستار ایدھی ہیں جواب ہاں پر
ملا تو وہ ڈاکو کا سردار ایک دم پریشان ہو گیا،فوری حکم ہوا کے تمام گاڑیاں
جن سے لوٹ مار کی گئی ہے ان کو مال واپس کیا جائے اور باقاعدہ طور پر وہ
شخص ایدھی صاحب کے ہاتھ چوم کر معافی مانگنے لگامزید حیرت کی بات یہ ہوئی
کے جب وہ ڈاکو ہمیں رخصت کرنے لگا تو 20 لاکھ روپے بطور چندہ ایدھی صاحب کے
حوالے کیا ایدھی صاحب کے انکار پر بولا سر جب میرے جیسے گنہگار پولیس
مقابلے میں مارے جاتے ہیں تو ہمارا کوئی رشتے دار ہماری لاش تک نہیں وصول
کرتا اور ایدھی ہی ہماری لاش کو کفناتا ہے اور دفناتا ہے۔۔۔ایک زمانہ تھا
ڈاکو بھی آعلیٰ ظرف ہوا کرتے تھے“۔ یہ سب انسان کا انسانیت کے گئے عمل کا
ایوارڈ ہے۔ ایدھی صاحب کو حکومتی پروٹوکول دیا گیا اور سبز ہلائی پرچم میں
ان کی تدفین کی گئی، اللہ تعالیٰ سے دُعا گو کہ اللہ کریم ہمیں بھی باعمل،
نیک سیرت اور انسانیت سے پیار کرنے والا بنا دے آمین۔ ثم آمین
|