ایک مجلس میں دودوست عذاب ِ قبرکے معاملے میں بحث میں
الجھ پڑے۔پہلادوست کہتاتھاکہ قبرمیں کسی قسم کاعذاب نہیں دیاجائے گا اور اس
بابت مختلف قسم کے دلائل اورتاویلات پیش کررہاتھاجبکہ دوسرادوست کہتاتھاکہ
قبرمیں عذاب ضروردیاجائے گا۔جب پہلادوست کسی بھی طوپر ماننے کے لئے تیارنہ
تھا اورعنقریب آمادہ برفسادہونے والاتھا، دوسرے دوست نے مصلحت کی خاطر اپنے
موقف میں قدرے نرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے پہلے دوست سے سوال پوچھا۔ــ’’ چلیں
، میں آپکی بات مان لیتاہوں کہ قبرمیں کسی قسم کاعذاب نہیں ہوگا، لیکن اگر
وہاں جاکرعذاب سے واسطہ پڑے توکیاکریں گے۔‘‘ یہ الفاظ سنتے ہی پہلے دوست کے
چہرے پر گہری سنجیدگی کے اثارظاہرہوئے اوراس نے اثبات میں سرہلاکرجواب
دیا۔’’واقعی یہ بات توقابل غورہے‘‘۔
ہم بھی آج کل ایسے ہی حالات سے گزررہے رہیں ۔ ایک طرف کوروناکی وبانے پوری
دنیاکواپنی لپیٹ میں لے لیاہے اورآئے دن اسکی شدت میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔
دوسری طرف ہمارے ہاں ایک مخصوص طبقہ کوروناکے خلاف منفی پروپیگنڈہ پھیلانے
میں مصروف ہے اوراسکو ایک ڈرامہ قراردیتے ہوئے کہتاہے کہ کوروناایک سازش ہے
اورریاست زبردستی اپنے لوگوں کو کوروناکے مریض ظاہرکرکے بیرونی دنیاسے پیسے
بٹورناچاہتی ہے۔ میرے کئی دوست آج تک کوروناکے معاملے میں غیرسنجیدہ ہیں
اوریہی حال تقریباً وطن عزیز میں بے شمارلوگوں کاہے۔ یہاں تک کہ پوری
دنیامیں کورونا کی جو آگ لگی ہوئی ہے ، اسکے شعلے وطن عزیز کے ہرکونے تک
پہنچے اورہرخاندان اورہرگھرنے کسی نہ کسی شکل میں اسکی تپش ضرورمحسوس کی
ہے۔ہماری نظروں کے سامنے ہمارے پیارے ہم سے ایسے بچھڑے کہ انکے جنازے پڑھ
سکے نہ جنازوں کوکاندھادے سکے ۔ ہرشعبہ زندگی سے نابغہ روزگارکوروناکاشکار
ہوکر ہم سے بچھڑگئے اوراپنے لواحقین کے لئے اذیت ناک یادیں چھوڑگئے ، مگر
پھر بھی ہمارا دیدہ عبرت واہ نہیں ہوتا۔پاکستان میں ہرروز اس وباکے
شکارمریضوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے اورمرنے والوں کی تعدادبھی بڑھتی جا رہی
ہے۔ متاثرین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچی جبکہ جان بحق ہونے والوں
کی تعداد دوہزارسے تجاوزکرچکی ہے۔اسکے باوجود ہم اس معاملے میں غیرسنجیدہ
ہیں اوراسے ایک ڈرامہ سمجھتے ہیں۔دنیاکی ترقی یافتہ اقوام نے کوروناکے
سامنے بس ہوکر ہتھیارڈال دئے ہیں اوراب وہ صرف احتیاط ہی سے اس پر قابوپانے
کی کوشش کرتی ہیں۔ہمارے ہاں پہلے ہی وسائل کافقدان ہے اورصحت کی سہولیات نہ
ہونے کے برابر ہیں ۔ اوپر سے کورونانے ہمارے اوربھی ستم ڈھائے۔ اگریہی حالت
رہی توہم اپنی آنکھوں سے اس وباکے ہاتھوں اذیت ناک زندگی اورذلت بھری موت
کے تماشے دیکھیں گے ۔ کورونامتاثرین خوف ، کشمکش ، مایوسی اوراضطراب وکرب
کے ناگفتہ بہ عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کسی مسیحا کے انتظارمیں ہوں گے
، مگر شاید کہیں مسیحانہ مل سکے، کیونکہ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد پہلے
ہی انتہائی اذیت اورکرب سے گزرکر اپنے فرائض منصبی نبھارہے ہیں ۔
ہماراسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ساری زندگی شکوک وشبہات میں
گزارتے ہیں۔کوروناکے بارے میں ریاست کے بارے میں غلط فہمی، ڈاکٹروں کے بارے
میں غلط فہمی ، اپنے ملک کے ادارے،جوکوروناکے لئے کام کرتے ہیں ، انکے بارے
میں غلط فہمی اورمیڈیاکے کردارکو شکوک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔کیاکبھی
کوئی ڈاکٹرکسی کو زبردستی کوروناکامریض قراردے سکتاہے اور کیاکبھی کوئی
ڈاکٹر دوسروں کے لئے اپنی زندگی داؤپرلگاسکتاہے؟ یقینااسکاجواب نفی میں
ہوگا۔ہمارے ہاں کچھ جاہل لوگ یہ بھی پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ کوروناکی وجہ
سے مرنے والوں کے بدلے ریاست کو پیسہ ملتاہے۔کیایہ بات عقل سلیم تسلیم کرے
گی کہ جب پوری دنیا کوروناسے متاثرہے ، ایسے حالات میں کونسی عالمی طاقت
ایسی ہوگی جو کوروناکے مریضوں یاکوروناسے مرنے والوں کے عوض پاکستان کو
پیسہ دے گی۔ہمارے ہاں سازشیں بنانے اورریاستی اداروں کے بارے میں غلط
فہمیوں کوفروغ دینے کارواج خوب عروج پرہے اورآج بھی کچھ لوگ اسی تھیوری پر
کام کررہے ہیں۔
کوروناسے بچاؤ کے لئے حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے۔میڈیا بھرپورطریقے سے
عوام میں شعوراورآگہی پھیلارہاہے۔ ہمارے ڈاکٹرز اورپیرامیڈیکس دن رات علاج
معالجے کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے عوام سے درخواست کرتے
ہیں ، مگر ہم ایسی قوم ہیں ، جوآج تک کسی بھی معاملے پر متفق نہیں ہوسکے۔جس
طرح ہم آ ج تک مذہب، سیاست، قومیت ، زبان، تہذیب اورمعاشرت کی بنیاد پر
فرقہ واریت کے شکارررہے ہیں، اسی طرح کوروناکے معاملے میں بھی ہماری قوم
تذبذب کاشکارہے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں کچھ لوگ سوچی سمجھی سازش کے تحت
عوام میں غلط فہمیاں پھیلارہے ہیں اورکوروناکو عالمی سازش قراردیتے ہیں۔
میرے خیال یہ رویہ اورطرزعمل صرف اورصرف جہالت ہی ہے ، ورنہ ہمارا مذہب،
ہماری تعلیم اورہماری روایات ہرگزہمیں یہ سبق نہیں دیتی کہ ایسے مشکل حالات
میں ریاست کے خلاف میں پراپیگنڈہ پھیلاکر عوام کو گمراہ کیاجائے۔ ہم سب کو
بحیثیت قوم متحد ہوکر، اپنی حکومت کاساتھ دیناچاہئے۔ صحت کے شعبہ سے وابستہ
افرادکے ساتھ ہرممکن تعاون کرناچاہئے اورعوام میں یہ شعورپیداکرناچاہئے کہ
زندگی بہت قیمتی ہے ۔اپنی زندگی کی حفاظت کرکے،اپنے گھرانے کو ، اپنی
کمیونٹی اورپورے ملک کو اس وباسے بچانے میں اپناکردارکرے۔ |