انسان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دولت کی چمک انسان
کو حیوان بنا دیتی ہے، اور دولت کے کی خاطرانسان شیطان بن جاتا ہے، گلی گلی
بیٹھے عامل اور جعلی پیر زن اور زر کی خاطر انسانوں کے دشمن بن گئے ہیں۔
اپنی پریشانیوں میں گھرے لوگ جب ان عاملوں کے ہتھے چڑھتے ہیں تو یہ ان کی
کمائی بٹورنے کیلئے خون پینے تک چلے جاتے ہیں۔
عاملوں جعلی پیروں کے پاس سادہ لوح عوام سے پیسے بٹورنے کے بہت سے حربے
ہوتے ہیں جعل پیروں کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ ان کی وہ فرمائش ہوتی ہیں جو
عوام کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں۔ یہ پیر اپنی حاجت کے لئے آنے والے ضعیف
الاعتقاد لوگوں کو ایسی چیزیں لانے کا کہتے ہیں جو ان کے لئے لانا بہت مشکل
ہوتا ہے۔ یوں اپنی حاجت پوری کروانے والے پیر کی پسند کی رقم دے کر خود ہی
کہتے ہیں ان پیسوں سے مطلوبہ اشیاء حاصل کر کے تعویذ بنوادیں۔ کچھ لوگ
مطلوبہ اشیاء خود حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بات تب سامنے آئی جب چڑیا
گھر لاہور کے عملے پر ایک ایسا الزام لگا کہ وہاں کا عملہ الو کے پر ہاتھی
کا فضلہ ریچھ کے بال، سہ کے تکلے ،بندر اور گیدڑ کے بال فروخت کرتے ہیں
تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا ان اشیاء کی ڈیمانڈ جعلی پیر عامل اور جادوگر
کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے جادو ٹونہ کیا جائے۔ یوں کمزور عقیدے کے لوگ
بالخصوص خواتین ان چیزوں کے حصول کے لئے چڑیا گھر کا رُخ کرتے ہیں اور چڑیا
گھر کے عملے کے لوگوں سے فرمائش کرکے اپنی مطلوبہ اشیاء منہ مانگی رقم پر
خریدتے ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ ان دنوں لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار
میں بھی شائع ہوئی۔اخبار کے مطابق چڑیا گھر کے چھوٹے عملے نے انتظامیہ کی
ملی بھگت سے ضعیف الاعتقاد لوگوں سے ہزاروں روپے روزانہ کمانا شروع کر دیے۔
چڑیا گھر میں کالے جادو کے لئے ضروری چیزوں کی فروخت اندرون خانہ جاری ہے۔
چڑیا گھر کے ایک ملازم نے بتایا کہ یہاں پر روزانہ بیسوں افراد جن ہیں مرد
اور عورتیں شامل ہیں ایسے آتے ہین جن کو کالے جادو کے لئے جانور کی ضرورت
ہوتی ہے کالے علم کے ماہر افراد سادہ لوح لوگوں سے جو چیزیں جادو کے عمل
کیلئے طلب کرتے ہیں وہ صرف چڑیا گھر میں ہی مل سکتی ہیں۔ یہ افراد چڑیا
گھرکے چھوٹے عملے سے رابطہ کرتے ہیں جو ان سے ان کی مطلوبہ چیزیں فراہم
کرنے کے منہ مانگے پیسے وصول کرتے ہیں۔ ملازم نے بتایا کہ زیادہ تر لوگ
ریچھ کے بال اور الو کے پر اور ’’ بیٹ‘‘ مانگتے ہیں۔ جس کا چڑیا گھر میں
الو کی بیٹ کا لفافہ 300 روپے میں فروخت ہوتا ہے جبکہ ریچھ کے بال یہ کہہ
کر کہ مشکل سے توڑے جاتے ہیں اس میں جان بھی جا سکتی ہے اور اس کے ہزاروں
روپے طلب کیے جاتے ہیں۔ سادہ لوح افراد پہلے کالے جادو کے ماہر عاملوں کے
ہاتھوں لٹتے ہیں اور بعد میں چڑیا گھر کے عمل سے مذکورہ چیزیں حاصل کرنے
کیلئے رقم ضائع کرتے ہیں۔
یہ عامل اور پیر عوام کو لبھانے کے لئے اور ان کی جیبیں خالی کرنے کے لئے
مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار شائع کرواتے ہیں
کیبل پر ایڈ چلائے جاتے ہیں جن میں پریشان عوام کے تمام مسائل کا یقینی حل
بذریعہ عملیات پیش کیا جاتا ہے۔ پریشان عوام پرکشش اشتہاروں کی بدولت ان کی
طرف گامزن ہوتے ہیں اور اپنا ایمان اور دولت لٹا بیٹھتے ہیں عامل اور پیر
عوام میں پذیرائی کے لئے نت نئے حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ عوام ان کی طرف
متوجہ ہو ں اور ان کی دولت پر ہاتھ صاف کیا جائے یہ پیر عوام کو گمراہ کرنے
کے لئے کیسے حربے آزماتے ہیں اس کا اندازہ یوں لگالیں گے مناواں کے علاقہ
تواڑہ پنڈ میں جعلی پیر قبرستان کے قریب ایک مزار کے قریب من پسند کی قبر
بنا کر اس میں اتر گیا اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایسا ورد کر رہا ہے کہ اس
دوران وہ جو بھی بات کرے گا پوری ہو جائیگی۔ جعلی پیر تین روز سے قبر میں
اترا رہا اور اس نے ایک خاص ورد کرنے کیلئے اور باہر نذرو نیاز کی رقم
اکٹھی کرنے کیلئے اپنے چیلے بٹھا دئیے جو مسلح ہو کر اس کی حفاظت بھی کرتے
اور اس پیر کا دیدار کروانے کیلئے لوگوں سے رقم بھی اکٹھی کر تے رہے۔کچھ
خاص قسم کی خواتین کی خدمات بھی حاصل کی گئی جو گھر گھر جا کر اس پیر کی
داستانیں عورتوں اورمردوں کو سنا تی رہیں اور ان کو گمراہ کرنے پر لگی رہیں۔
جس کی وجہ سے کافی لوگ اس پیر کا دیدار کرنے کیلئے اس جگہ کا چکر لگا تے
رہے۔حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ نام نہاد جعلی پیر
معاشرکے کے بدترین لوگ ہیں۔ محنت چور خود تو کسی کام سے حلال کمانے کی کوشش
نہیں کرتے الٹا محنت مزوری سے روزی کمانے والوں کو نت نئے فریب اور منفی
ہتھکنڈوں سے لوٹتے ہیں۔ جہاں ا ن پیروں کے چور ڈاکوں سے رابطے ہوتے ہیں
وہیں جعل ساز کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالکوں سے بھی ان کے گہرے مراسم ہوتے
ہیں۔ فیکٹریوں کے مالکوں کو کم قیمت پر زیادہ محنت کرنے والے مزدور درکار
ہوتے ہیں اور پیروں کو روپے کی ضرورت ہوتی ہے یوں پیر کے پاس جو بھی نوکری
اور روز گار کا تعویز لینے آتا ہے وہ اپنے مخصوص حربوں سے پیسے بٹور کر اسے
گارنٹی دیتا ہے کہ تم کو چند روز میں ضرور نوکری مل جائے گی پیر نہ صرف
سائل کو تعویز دیتا ہے بلکہ باتوں باتوں میں اس کا علاقہ اور رہائش بھی
دریافت کرلیتا ہے۔ اور یہ ایڈ ریسں عامل سے فیکٹری مالک کے پاس جاتا ہے جو
اپنے مخصوص بندے اس پیر کے پاس آنے والے کے پاس بھیجتا ہے جو کسی نہ کسی
روپ میں اس سے ملتے ہیں اور اسے یہ راہ دکھاتے ہیں کہ وہاں نوکری مل جائے
گی مالک بہت با حیا انسان ہے پیر سائل کو کہہ چکا ہوتا ہے شروع میں جو بھی
نوکری ملے اگر یہ کم پیسے والی ہو زیادہ محنت والی ہے۔ ہو تو ہو جانا۔
عقیدت مند تعویز اور پیر کی ہدایت پر حامی بھرلیتا ہے اور گدھے کی طرح کام
پر جُت جاتا ہے یوں فیکٹری مالک کا کام بھی ہو جاتا ہے اور پیر کے روپے بھی
جمع ہو جاتے ہیں
|