کہنے کو ریاست کا چوتھا ستون جسے معاشرے کی آنکھ کہا جاتا
ہے یعنی معاشرہ مانندجسم ہے اور آنکھ اس جسم کا لازمی جزو ہے جس سے معاشرہ
اونچ نیچ ،عروج و زوال ،اچھائی اور برائی کودیکھنے کے قابل ہوتا ہے مگر
افسوس اس آنکھ کا ہمارے معاشرے کے کاغذات میں کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔یہ
تمہید باندھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاشرے کی اس آنکھ
کو عضو بیکار سمجھا جا رہا ہے ۔میں اپنی ہی بات کروں گا کہ گزشتہ دنوں مجھے
اپنے رہنے کے لئے ایک مکان کرایہ پر لینا تھا کرائے پر مکان ملنے کے بعد
ضروری تھا کہ مالک مکان کے ساتھ جا کر پولیس کرایہ داری رپورٹ کا اندراج
کروایا جائے ۔میں اپنے مالک مکان کے ساتھ آن لائن اندراج کے لئے چلا گیا جب
انٹر نیٹ پر اندراج کروانے کے لئے اپنے اپنے قومی شناختی کارڈ دیئے تو جو
شخص فیڈ کر رہا تھا اس نے میرے کاروبار کی بابت پوچھا تو میں نے کہا کہ
صحافی ہوں وہ بھی جز وقتی نہیں بلکہ کل وقتی وہ مجھ سے کہنے لگا کہ جناب اس
فارم میں صحافی کی کوئی آپشن ہی نہیں ہے آپ صحافت کے علاوہ کیا کام کرتے
ہیں ؟ کسی مل میں ملازم ہیں ،کوئی ذاتی کاروبار ہے ،سرکاری ملازم ہیں یا
کچھ اور ؟ میں نے کہا کہ بھائی میرا تو کام ہی لکھنا لکھانا ہے اس کے علاوہ
میں کچھ بھی نہیں کرتا تو میری آسانی کے لئے وہ کہنے لگا کہ جناب میں
پرائیویٹ جاب لکھ دوں کیونکہ یہ آپشن موجود ہے ۔ میں بہت حیران ہوا کہ آخر
اس فارم میں سے معاشرے کی آنکھ کو غائب کیونکر کیا گیا کیا صحافی معاشرے کا
حصہ نہیں ؟ کیا صحافت شعبہ یا پیشہ نہیں ؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اتنے
حساس فارم میں صحافی کی آپشن کو کیوں نظر انداز کیا گیا ؟انٹر نیٹ پہ فیڈ
کرنے والا شخص حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا کہ یہ شخص کیسی باتیں کر رہا ہے
وہ مجھ سے کہنے لگا کہ جناب ہر صحافی کوئی نہ کوئی اپنا الگ سے بزنس کر رہا
ہے اور جب وہ کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری کاغذات میں اپنا پیشہ درج کرتا
ہے تو وہ اپنا بزنس لکھواتا ہے وہ کام درج کرواتا ہے اپنے پیشے کے خانے میں
جو وہ صحافت سے ہٹ کر کر رہا ہے ۔ میں بہت حیران ہواکہ کیا صحافت کا شعبہ
کوئی مرض لا علاج ہے کہ اس کا نام پیشہ والے خانے میں درج کروانا جیسے کوئی
کار بد ہو ۔صحافت تو باعث عزت و تکریم شعبہ ہے ناکہ قابل نفرت یا ندامت ؟پھر
اس کو جان بوجھ کر کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے ؟ ویسے بھی یہ فارم محکمہ
پولیس کو آن لائن کیا جاتا ہے جس شعبے یعنی پولیس اور صحافت کا چولی دامن
کا ساتھ ہے پھر ناجانے کیوں ایسی دستاویزات میں سے صحافت سے دامن بچایا
جاتا ہے ؟صحافی اگر صحافی ہو تو معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہے ناکہ کلنک کا
ٹیکہ یا کوئی بدنما داغ کہ اگر لگ گیا تو دھل نہ سکے گا ؟علاوہ ازیں آجکل
جگہ جگہ ہر شہر اور گاؤں میں انسٹالمنٹ پر اشیائے ضروریہ دینے کے لئے ادارے
موجود ہیں وہ کسی صحافی کو قسطوں پر کوئی چیز دینا تو درکنار فارم میں اس
کی گواہی یا ضمانت ایڈ نہیں کرتے کیا صحافی کوئی بلائے ناگہانی ہے جس سے
لوگ ڈرتے ہیں یا پھر بچ کر چلتے ہیں ۔ اس ضمن میں میرے ذہن میں دو تین
وجوہات سامنے آرہی ہیں جس کو پیش نظر رکھ کر صحافیوں سے ایسا سلوک ہو رہا
ہے ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ آجکل شعبہ صحافت سے ایسے لوگ منسلک ہوگئے ہیں جن کی
تعلیم آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے یا پھر ہوتی ہی نہیں وہ تعلیم کے بوجھ
سے اپنے دماغوں کو آزاد رکھ کر صرف پیسے کے بل بوتے پر اس شعبے میں آن وارد
ہوئے ہیں اور ایسے لوگ بلیک میلنگ کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور یہ ذمہ
داری صحافتی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو رپورٹر یا نمائندہ
بنائیں جس کی تعلیم اور تجربہ صحافت سے جڑا ہوا ہو ناکہ صرف کارڈکے پیسے لے
کر کارڈجاری کر دیا لو جی ریڈی میڈ صحافی تیار ۔ جب بیج ہی کرپشن کا بوئیں
گے تو وہاں پودا بھی کرپشن کا ہی اگے گا یہ بالکل اسی طرح سے ہی ہے کہ دو
چار لاکھ روپے دے کر کسی محکمے میں بھرتی ہوجاناتب تو نظر میں سب سے پہلا
کام یہی ہو گا نا کہ اپنی انویسٹمنٹ کی ریکوری کس طرح کرنی ہے ناکہ اپنی
ملی ذمہ داریاں ذہن میں رکھ کر کام کیا جائے گا ؟کبھی نہیں ایسا کبھی نہیں
ہو گا ۔صحافت کی خلعت اسے عطا کریں جس کے وجود پر پوری ہو اور وہ اس کا اہل
بھی ہو ۔پھر یہی ریڈی میڈ صحافی اپنے دانت تیز کر کے معاشرے کی بوٹیاں
نوچتے ہیں اور اصل میں حقیقی صحافی دیکھتا رہ جاتا ہے کہ فلاں فارم میں
میرے شعبے کا نام بھی ہوگا مگر وہاں اپنے شعبے کو نا پاکر سر پکڑ کر بیٹھ
جاتا ہے ۔صحافت کو عضو بیکار نہ سمجھیں ہر صحافی وہ نہیں ہوتا کہ اسکے پاس
دو کنال کا گھر ہو ۔ وہ ایمانداری سے اگر قلم کی حرمت کا تحفظ کر رہا ہے تو
اسکی بھی اتنی ہی تکریم بنتی ہے جتنی کسی بلیک میلر کے ڈر سے اسے عزت دیتے
ہو ۔بہت سے ایسے صحافی ابھی میری دھرتی پہ موجود ہیں جو ناجائیز روپے سے
بچتے بچتے قلم کی حرمت کی پاسبانی کر رہے ہیں اور آج تک اپنا ذاتی گھر نہیں
بنا پائے جس کی وجہ سے انہیں کرایہ داری پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ
صحافی اور ہیں جنہیں گورنمنٹ پلاٹس یا فلیٹس دیتی ہے یا پھر ملک ریاض جیسے
لوگ پلاٹ عطیہ کرتے ہیں یہ سب انکی قومی خدمات کا صلہ نہیں بلکہ انکو آلہ
کار بنانے کے لئے ہے ۔کبھی کسی گورنمنٹ ،کسی ملک ریاض اور کسی صحافتی ڈان
کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی کہ حقیقی قلمکار کی بے گھری کی طرف بھی دیکھیں
کم از کم اسے اپنا سر چھپانے کے لئے اپنا گھر ہی میسر ہو صحافی کالونیوں
میں بھی گھر صرف انکو ملتے ہیں جو پہلے سے ہی بنگلے بنائے بیٹھے ہیں جدید
ماڈل کی کاریں انکے زیر استعمال ہیں مگر وہ صحافی جو پیدل ہیں جن کے پاس
ایک سائیکل تک نہیں مگر دل میں جذبہ خدمت ضرور رکھتے ہیں جو حقیقت میں
معاشرے کی آنکھ بن کر رہ رہے ہیں ناکہ معاشرے میں فقط وہاں آنکھ رکھیں جہاں
سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں پیدا ہو رہے ہوں ۔ اگر سچ پوچھیں تو میں اس دن
بڑا دل برداشتہ ہوا جب فارم میں صحافت کا خانہ ہی نہیں دیکھا ۔فیکٹری ورکر
معاشرے کا حصہ ہے ،دوکاندار معاشرے کا رکن ہے ،تاجر معاشرے میں اہم ہے ،سرکاری
ملازم کو اہمیت ہے اگر نہیں ہے تو صحافی کو نہیں آخر کیوں ؟کیوں اسکے وجود
سے انکار کی زبان بول رہے ہیں یہ فارم یا دیگر سرکاری دستاویزات ؟خدارا
شعبہ صحافت ایک مسلمہ حقیقت ہے اسکو بھی تسلیم کرو یا پھر بے گھر صحافیوں
کو سر چھپانے کے لئے گھر الاٹ کئے جائیں صرف وہ ہی صحافی نہیں جو لاکھوں کی
دیہاڑیاں لگاتے ہیں ایک کنال سے لیکر دو ایکڑ کے گھر کے پہلے سے مالک ہیں
انکو نوازنے سے کچھ نہیں ہوگا پھر انہی کو لاہور اسلام آباد اور کراچی میں
پلاٹس آخر کیوں ؟ایسے پاسبانان قلم جو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں انکے
بچے بھی پڑھتے ہیں اصل خدمت یا اعتراف خدمات یہ ہے کہ انکی بے گھری ختم
کریں سرکاری دستاویزات میں صحافی کا وجود تسلیم کیا جائے آخر کب ہو گا یہ
سب ؟ دیکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کب معاشرے کی آنکھ کی بینائی کو
دیدۂ بینا مانا جاتا ہے کیا یہ آنکھ آنکھ نہیں ؟ یہ آنکھ پتھر کی ہے ؟ |