تحریر۔۔۔ سید کمال حسین شاہ
انصاف ، عدل ،ان میں اخلاقی صحت، عقلیت، قانون، مذہب، مساوات اور غیر جانب
داری شامل ہے . نصاف کی ایک قسم تو وہ ہے جو ہر شخص کسی دوسرے کے ساتھ
معاملے میں راست بازی اور حقیقت پسندی سے کرے۔ یہ کام ادارہ جات اور ان کے
ذمے داروں کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے جو زیادہ فعال اور اصح افراد کو اور
ذمے داری کے عہدے دیتے ہیں۔ یہ کام عدالتوں میں بھی ہوتا ہے، جو جائداد کی
تقسیم، رشتوں کی برقراری یا ان میں تفریق اور اسی طرح جرائم کے سرزد ہونے
کی صورت میں مجرموں کو معمولی جرمانے اور قید سے لے کر سزائے موت کی تک سزا
دیتی ہیں.اسلام میں عد ل و انصاف کو بڑا اہم مقام حاصل ہے۔عدل و انصاف
انفرادی اور اجتماعی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہے . اسے صرف عدالتوں تک محدود
کرنا زیادتی ہے .عدل کے معنی انصاف کے ہیں۔ ہر چیز میں انصاف کی ضرورت ہے۔
قول میں،فعل میں، یعنی جو کہیں وہ کریں.خواہ اپنے ہوں یا پرائے۔ دوست ہوں
یا دشمن سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ضروری ہے۔اگر معاشرہ عدل و انصاف سے
نہ ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا .عدل و انصاف کا جذبہ ہی وہ جذبہ ہے
جو انسان کو بلندی کی طرف لے جا تا ہے .،مالک اپنے ملازم ، غلام آقا، استاذ
اپنے طالب علم،والدین اپنی اولاد،اولاد ماں باپ ،شوہر بیوی کے ساتھ انصاف
جب معاشرے ہر جگہ عدل و انصاف ھو گا . قانون کی نظر میں سب کے حقوق میں
برابری ہونی چاہیے، یہ بات بھی عدل کے تقاضوں میں سے ہے۔ قانون کی نظر میں
سب کے برابر نہ ہونے کو سوسائٹی کی تباہی اور بربادی کا سبب بتایا گیا ہے.
کسی بھی معاشرے میں انصاف کی بنیاد ہے اسلام ہمیں اپنے ساتھ بھی عدل کرنے
کا حکم دیا گیا، کہ اپنے نفس کے ساتھ بھی عدل کرو۔عدل وانصاف کی راہ میں
عموما دو چیزیں رکاوٹ۔عداوت اور انسان کبھی کسی قوم یا کسی فرد کی عداوت
اور دشمنی کی وجہ سے نا انصافی کر بیٹھتا ہے یا پھر اپنے کسی رشتہ دار کی
وجہ سے ظلم و نا انصافی کرتا ہییا عدل وانصاف کی زد میں خود اپنی ہی ذات
آتی ہو لیکن مذہب اسلام نے ان دیواروں کو گرا دیا اور اپنے ماننے والوں کو
یہ تعلیم دی کہ عد ل و انصاف کی ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت
ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس ترازو کے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔اﷲ
رب العزت ارشاد فرماتا ہے ’’خبردارکسی کی دشمنی تمہیں اس کے ساتھ نا انصافی
کرنے پر آمادہ نہ کرے‘‘ عام ادمی بھی عدل کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا ہے
عدل کرنا اس کی زندگی کو سنوارنے کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے. ہر فرد پر
انسانی زندگی کی ہر ہر اکائی کے ساتھ عدل و انصاف کرنے کی ذمہ داری عائد
ہوتی ہے. تو پھر ایک ایسا عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے جہاں کسی کی حق تلفی
نہیں ہوگی کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘ کہیں منافقت نہیں ہوگی‘ کہیں کرپشن اور
بدعنوانی نظر نہیں ائے گی۔
معاشی عدل یہ ہے کہ جس روز پٹرول کی قیمتیں بڑھیں پٹرول پمپوں پر موجود
پٹرول جو سابقہ نرخوں پر خریدا گیا تھا۔ سابقہ نرخوں پر بیچا جاتا مگر پورے
پاکستان میں ایک پٹرول پمپ بھی ایسا نہیں جس کے مالکان نے یہ معاشی عدل کیا
ہو۔ اگر آج قیمتیں کم ہو جائیں تو وہ سٹاک میں موجود تیل کی قیمت کم نہیں
کرینگے۔ دوسری طرف قیمتوں میں اضافہ کے اعلان کے ساتھ قیمت بڑھا دیتے
ہیں۔انسان کو جس قدر آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے معاشرے کے لیے عدل وانصاف کی
اتنی ہی ضرورت پڑتی ہے . اس میں شک نہیں کہ عدل کے قیام و نفاذ کی سب سے
زیادہ ذمہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے اس لئے ازاد عدلیہ کی مہذب معاشروں
میں ارزو بھی کی جاتی ہے۔ ازاد عدلیہ کسی بھی ملک کے عوام کی بنیادی ضرورت
تصور ہوتی ہے.عدل و انصاف؛ معاشرے کے استحکام اور قوموں کی بقا کی ضمانت
ہیں .اسلام مکمل عدل کی ہدایت کرتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے۔ مجرم کو بس اسی
قدر سزا دی جاسکتی ہے جو اس نے جرم کیا ہے اس سے زاید سزا ظلم کے زمرے میں
آئے گی جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ہمیں یہ تلقین کی گئی ہے کہ ہم
عدل کریں اور ظلم نہ کریں۔ جناب نبی کریم ﷺنے عدل کا تصور دیا کہ قانون کی
نظر میں انصاف سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔چوری کے ایک مقدمہ میں فاطمہ
مخزومیہ کے حوالے سے فرمایا ﷺ کہ کیا تم ایک عورت کی اس لیے سفارش کرتے ہو
کہ وہ بڑے خاندان کی ہے۔ آ پ ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی
فاطمہ چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دوں گا۔ اب حضورسے بڑا خاندان
کس کا ہو سکتا ہے لیکن نبی کریم ﷺنے یہ تعلیم دی کہ جرم کی سزا یکساں ہے
چاہے کسی بڑے خاندان کا فرد جرم کرے یا کسی چھوٹے خاندان کا۔ معاشرے میں
عدل قائم ہوگا تو مساوات کا ماحول پیدا ہوگا.عدل و انصاف کرنے والی اقوام
دنیا میں عروج حاصل کرتی ہیں اور ان کے معاشرے میں امن و استحکام پیدا ہوتا
ہے۔ اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے اسلام امن و
سلامتی کا مذہب ہے تو یہ بات بھی ذہن نشیں رکھی جائے کہ عدل و انصاف کے بنا
امن وامان کا تحفظ ممکن نہیں۔اﷲ ہمیں ہر جگہ، ہر معاملے میں عدل و انصاف کا
دامن تھامے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق دیں،
آمین یا رب العالمین۔
|