تُو شب آفریدی چراغ آفریدم

میں شمو کو گزشتہ پانچ برس سے جانتا ہوں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ویٹر ہے اور ڈائننگ ہال میں ہمیشہ مسکراتے ہوئے کھانا پیش کرتا ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ان پانچ سالوں میں اسے کبھی دھیمی رفتار سے چلتے دیکھا ہو۔ وہ ہمیشہ تیز قدموں سے کچن اور ڈائننگ ہال کے مابین محوِ سفر رہتا ہے۔ اسکا مکمل نام شمشاد ہے اور اسے سب پیار سے شمو کہتے ہیں۔ چھوٹے قد کا مالک شمو اردو انگریزی اور پنجابی کے ملے جلے جملوں سے ڈائننگ ممبرز کو ہمیشہ محظوظ کرتا دکھائی دیتا ہے۔

گزشتہ شب عشائیے کے بعد شمو مجھے چائے پلانے آیا تو میری درخواست پر وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی منفرد اور دلچسپ شخصیت کی وجہ سے میں کافی عرصے سے اس سے گپ شپ لگانا چاہتا تھا۔۔ اتفاق سے آج ڈائننگ ہال خالی ہو چکا تھا۔

رسمی حال احوال کی خبرگیری کے بعد میں نے پوچھا " یار شمو! آپ پیسے کیسے بھیجتے ہو گھر؟"

میں جاننا چاہتا تھا کہ شمو اپنا نام تو نہیں لکھ پاتا کیا یہ اے ٹی ایم سے یا موبائل بینککنگ ایپ سے ٹرانزیکشن کیسے کرتا ہوگا؟ کیا کوئی دشواری ہوتی ہوگی؟

"سر میں نے تو کارڈ گھر دیا ہوا ہے" شمو نے ٹیبل کر کپڑا لگاتے ہوئے جواب دیا۔

"تو اپنے لیئے کیسے رکھتے ہو؟ " میں نے بغیر توقف کے پوچھا

" سر ! میں انگوٹھا لگا کر نکال لیتا ہوں پانچ سو۔ ۔ ۔ " شمو مسکرا تے ہوئے فاتحانہ انداز میں گویا ہوا۔

شمو دھیرے سے میرے نزدیک ہو کر بیٹھا اور ایک راز افشاں کیا " دراصل میری بیوی نابینہ ہے ناں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" شائد شمو نے اس کے بعد بھی باتیں کی ہوں لیکن میں یہیں ٹھہر چکا تھا۔ مزید کچھ سننے کی سکت مجھ سے جیسے چھن چکی تھی۔

شمو نے بتایا کہ اس نے خود صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلیئے ایک نابینہ لڑکی سے شادی کی حالانکہ اس کے والدین سمیت خاندان کا کوئی بھی فرد اس فیصلے کے حق میں نہ تھا لیکن اس نے رب سے جو کمٹمنٹ کر لی تھی اس سے پیچھے نہیں ہٹا۔

شمو کی شادی کو پانچ برس بیت چکے ہیں اور اب تو الحمدللہ اس کی دو برس کی ایک پری جیسی بیٹی بھی ہے۔

میں نے ایک لمحے کے لیئے اپنی آنکھیں بند کیں ۔۔۔۔ اور سوچنے لگا کہ اگر مجھے ایسے لڑکی سے شادی کرنے کا موقع ملتا تو؟ ۔ ۔ ۔ ۔ میری تو خواہش ہے کہ ہم دونوں شمال کی رنگینیوں کو مل کر دیکھیں۔۔۔ دیوسائی کے میدان سے شیوسر کی جھیل تک کے رنگوں کو دیکھیں۔ ۔ ۔ اس میں اتریں۔۔۔ شفاف پانیوں کی ندیوں کے سنگ گھنے جنگلوں میں سبزے کے قالین پر سفر کریں۔ ۔ ۔ ۔
میں کافی کوشش کے بعد بھی خود کو قائل نہ کر پایا۔ ۔۔۔

میں جو خود کو جانے کیا بلا سمجھتا تھا۔ ۔ ۔ آج اپنی حقیقت جانی۔ ۔ آج پہچانا خود کو کہ کس قدر خود غرض ہوں میں۔ ۔ ۔ میں حیرت میں مبتلا تھا کہ کس لیول کا ایمان درکار ہے شمشاد تک پہنچنے کو۔ ۔ ۔ میں خود کو شمو کے سامنے اس کے پیروں کی دھول سمجھنے لگا۔ ۔ ۔

مجھے یاد یاد پڑنے لگا کہ پانچ ماہ قبل یاسر بھائی نے بتایا تھا کہ شمو کی تنخواہ اب سولہ ہزار ہو گئی ہے۔ ۔ ۔

شمو نے بات جاری رکھی" سر اب تو میں فیملی بھی ساتھ ادھر کلرکہار لے آیا ہوں"

"واہ یار۔ کس جگہ " میں گفتگو میں پھر سے شامل ہونے کی کوشش کرنے لگا

"سر ! ادھر کرائے کا گھر لیا ہے۔ سات ہزار کرایہ ہے لیکن گھر ٹھیک ہے۔ میری امی ، نانو، چھوٹی بہن، بیوی اور بیٹی میرے ساتھ اس گھر میں ہی رہتے ہیں۔ ۔ ۔ " خوشی سے مسکراتا شمو کا چہرہ مجھے کئی سوالوں کی کھائی میں پھینک گیا

" ابا امی کو بہت مارتا تھا۔ میں نے بہت مرتبہ ابو سے بات کرنا چاہی لیکن ابا نے مجھے بھی مارا میرے سر سے خون نکلنے لگا۔ ۔ ۔ میں نے ابا کی منت بھی کی کہ میری ماں کو نہ مارا کرو۔ ۔ ۔ لیکن وہ گالیاں دینے لگتا۔ ۔" شمو کی آنکھوں میں پہلی بار آنسو چھلکتے دیکھے۔

" سر! ایک دفعہ ابا نے ماں کو سر میں بوٹ مارا تو وہ بیہوش ہو گئیں۔ تب سے وہ ذہنی مریضہ ہیں۔" شمو ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کر رہا تھا

میرا دل اور جگر کٹ رہا تھا۔ ۔ اور حلق مکمل بھر چکا تھا۔ ۔ ۔ مجھ میں بات کرنے کی قوت نہیں رہی تھی۔ نہ ہی میں ہلنے جلنے کے قابل تھا میری آنکھیں تر تھیں ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر روؤں۔
" سر مجھے زندگی میں تب بہت دکھ ہوا جب ابا مجھے مار رہے تھے اور میں منت کر رہا تھا کہ ابا میری اماں کو نہ مارا کرو یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا لیکن ابا پر اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ بس میں چھپ کر اماں کو، نانو کو ، چھوٹی بہن اور بیوی بچے لے کر سرگودھا سے کلرکہار آ گیا۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ ۔ ۔ بس میرا اے ٹی ایم کارڈ ابا کے پاس رہ گیا ہے۔" شمو نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ آنسو پونچھے۔

شمو کے چہرے کے تاثرات ایسے لگ رہے تھے جیسے اس نے دنیا فتح کر لی ہو۔ ۔

"سر لون کیسے لیتے ہیں بینک سے؟" شمو نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا

"کیوں شمو۔ ۔ ۔ ایسا کیا ہو گیا جو بینک سے قرض لینے کا سوچ رہے ہو؟ میں وجہ جاننا چاہ رہا تھا کہ سود والا قرض کیوں؟

سر میرے گھر کا تو خرچ بہت اچھا چلتا ہے ۔ ۔ ایک ماہ بچی کے اور ایک ماہ بیگم کیلیئے کپڑے بھی لیتا ہوں۔ ۔

لیکن میری چھوٹی بہن بھی نابینا ہے۔ ۔ ۔ اس کی قربانی کے عید کے بعد شادی ہے۔ تو دو مہینے ہیں۔ ۔ اس کی شادی کی تیاریاں کرنی ہیں۔"

" آپکی ہمشیرہ بھی نابینہ ہے؟" میرا حلق ایک مرتبہ پھر سے بھر گیا۔ ۔ ۔

شمو نے بتایا کہ سرگودھا میں میرے محلے کا ہی لڑکا ہے رکشہ چلاتا ہے اس نے مجھ سے بات کی کہ کوئی بات نہیں جو یہ دیکھ نہیں سکتی میں اس سے شادی کرنے کیلیئے تیار ہوں۔ ۔ ۔ میں اسے کبھی کوئی دکھ نہیں دونگا۔

میں سوچنے لگا کہ اگر پیدائش کے وقت آنکھوں کو رب نور نہ عطا کرتا تو ہم کیا کر لیتے؟ ہمارے لیئے بھی دنیا بےرنگ و بو ہوتی تو ؟ ہم کبھی اپنے ماں باپ کی شکل و صورت نہ دیکھ پاتے تو؟ ہمیں رنگوں کا ادراک نہ ہوتا تو؟ یہ سوچتے ہی میں کانپ کر رہ گیا۔ ۔ ۔ سیکڑوں احساسات میرے تن بدن کو چیر گئے۔ ۔ ۔ میرے آنسو خشک کر گئے ۔ ۔ ۔ مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ ہم اللہ کی لاکھوں نعمتوں میں سے ایک بھی نعمت کا شکر ادا نہ کر سکے۔ ۔ ۔ یا کریم ۔۔۔ یا رحیم ۔ ۔ ۔ یا غفور ۔ ۔ ۔

یا حی یا قیوم۔ ۔ ۔ ! برحمتک استغیث۔ ۔ ۔
شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

میں نے کل رات ہی سوچ لیا تھا کہ یہ احوال لکھوں گا شائد خدا کوئی سبب بنا دے کہ شمشاد کی نابینہ بہن کی شادی کیلیئے اور اس کے سامان کیلیئے کوئی وسائل تک رسائی حاصل ہو جائے۔ ۔ ۔ شائد شمشاد ادھار لیئے بغیر ہی اپنی آخری ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ پہلے ہی شمو پر کافی ذمہ داریاں ہیں گوکہ وہ انہیں احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔۔۔

میں نے شمو سے اکاؤنٹ نمبر پوچھ کر اس کالم کے ساتھ نتھی کرنا کا ارادہ کیا لیکن شمشاد کو اپنے اکاؤنٹ نمبر کا علم نہیں۔ میں نے اس لیئے زیادہ اصرار مناسب نہ سمجھا کہ شائد اسے شبہ ہو کہ یہ کچھ مدد کر رہے ہیں۔ ۔ اور شمو پرامید ہو کر جائے۔ ۔ ۔ واللہ اعلم اس سلسلے میں کچھ رقم کا اہتمام ہو بھی یا نہ ہو۔۔۔ اسکی مدد کے بجائے اسے مایوسی ہو۔ ۔ اس لیئے میں نے فیصلہ کیا کہ اللہ نے جو بھی اہتمام کیا شمو کے ہاتھ میں پکڑا دینگے۔ ۔ ۔ اللہ شمشاد کی نابینہ ہمشیرہ کی شادی میں اپنی غیبی مدد شامل فرمائے۔ ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقت اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے۔‘‘
المسلم 4407

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔ البخاری 5037

وما علینا الا البلاغ
 

Aqib Shafi Pirzada
About the Author: Aqib Shafi Pirzada Read More Articles by Aqib Shafi Pirzada: 7 Articles with 6478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.