دودن پہلے ایک ایسی نیوز پڑھی جسے پڑھ کردل بہت ڈرگیاکہ
ایک بچے کو کتے نوچ نوچ کے کھاتے رہے ورثاکالاش جتوئی روڈپررکھ
کرشدیداحتجاج کیااسی روز2اوربچوں کوبھی زخمی کیاتھا اس کی خبرکی کٹنگ بھی
میں نے اپنے پیج پرلگائی تودوستوں نے کمنٹ کیے کہ آپ اس پرآرٹیکل لکھیں
شایدکوئی سن لے تومیں نے اتناکمنٹ کیا’’یہ اندھے گنگے اوربہرون کی حکومت ہے
نہ دیکھتے ہیں نہ بولتے ہیں نہ سنتے ہیں ‘‘ میں چاہتے ہوئے بھی نہ لکھ
سکاکل ایک روزنامہ اخبارپڑھ رہاتھا جس میں یہ ہیڈ لائن تھی کہ پولٹری شیڈ
کے خونخوارکتوں نے 2بچوں پرحملہ کردیاایک جاں بحق وزیراعلیٰ نے نوٹس لے
لیااس کے بعدمیں نے سوچاکہ اب رپورٹ طلب کرلی نوٹس لے لیایعنی کاغذی
کاروائی جوہرکوئی جانتاہے بیان بازی ہوگی دوچاردن میں ہرچیز ٹھپ ہوکررہ
جائے گی اگرکوئی نہیں سنتاتوکیاہوااگر ایک بھکاری کوایک محلہ سے بھیک نہ
ملے تووہ بھیک مانگناچھوڑتونہیں دے گاکوئی بات نہیں بھکاری کی طرح آواز
تولگاتے ہیں شایدہی کوئی آواز سن لے ۔پاکستان میں اگرکوئی آدمی غلط کام کرے
تواسے کتے سے تشبہ دی جاتی ہے جیسے کہ کوئی بلندآواز میں بولے توکہتے ہیں
کتے کی طرح مت بولوکوئی جلدی جلدی کھارہاہے توکہتے ہیں کتے کی طرح نہ
کھاؤاگرپانی پیتے ہوئے آواز آئے توکہتے ہیں کتے کی طرح آواز کیوں کررہے
ہواس کے برعکس کبھی وفاداری کی بات ہوتب بھی کتے کی ہی مثال دیتے ہیں
مگرکچھ وقت سے ہمارے ملک کے کتے بے وفانظرآتے ہیں کیونکہ پہلے کتوں نے سندھ
کواپنے خوف میں مبتلارکھامگرکچھ دن قبل لاہورکی ایک پارک میں کتوں نے بچے
کوزخمی کردیااس کے بعدملتان میں واقع دیکھنے کوملاپھرمظفرگڑھ میں دوکتوں نے
ایک چرواہے کوشدیدزخمی کیااوروہ ذخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مرگیایہ تووہ
واقعات ہیں جن کومیڈیانے ہائی لائٹ کیاایسے سینکڑوں متاثرین ہوں گے جن کی
آواز میڈیاتک پہنچ نہیں سکتی ایسے کئی بزرگ مرد عورت بچے بڑھے جوان طلباء
چرواہ شامل ہیں مگرہمارے لیے اس سے بڑھ کرفکروالی بات تب ہوتی ہے جب ہم
اپنے کسی متاثردوست رشتے دارکوسرکاری ہسپتال لے جات ہیں تووہاں پرویکسین
میسرنہیں ہوتی۔ کئی ایسے واقعات سننے کوملے اورخبریں بھی پڑھنے کوملیں کہ
کتے کاٹنے کے بعدجب ویکسن لگائی گئی تووہ جعلی تھی جس سے کتامرتاتونہیں
مگرباو لہ ہوجاتاہے اورپہلے سے کہیں زیادہ خطرناک بن جاتاہے۔محترم قارائین
آپکوایک بات بتاتاچلوں ان کتوں سے متاثرہونے والے مڈل کلاس لوگ ہیں جنہیں
ہم عام شہری بھی کہہ سکتے ہیں جوپیدل چلتے ہیں سائیکل موٹرسائیکل کااستعمال
کرتے ہیں کیونکہ گاڑی والوں کے پاس تو ٹھہرنے کاوقت نہیں ہوتاتوکتے ان
کوکاٹیں گے کیسے اسی لیے خاص شہری ان کتوں سے محفوظ رہتے ہیں اورخبریں پڑھ
کے مسکراتے ہیں اورکہتے ہیں ہمیں توآج تک کوئی کتابھونکاہی نہیں ’’انسان
کوکتوں نے نوچ ڈالا‘‘سراسربکواس خبرہے ایسے لوگوں کوبتاتاچلوں کہ صرف
2019میں اورصوبہ سندھ میں ایک لاکھ ا88ہزار500لوگوں کوکتوں نے کاٹاصوبہ
پنجاب کی بات کریں تو60ہزارسے زائدلوگ کتوں کے شکارہوئے۔ مگرہم ایسے لوگوں
کوتوکچھ نہیں کہہ سکتے مگراپنے سرکاری اداروں کے حوالے سے توبات کرسکتے ہیں
جوصرف کاغذی کاروائی کرکے معاملاختم کردیتے ہیں اورسرکاری ہسپتالوں کے
ڈاکٹراپنے مریضوں کوتوجہ نہیں دیتے تاکہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاکرعلاج
کروائیں یااگرکوئی مریض کے ساتھ ہے توکبھی ایکسرے کرواکے لے لیبارٹی سے
فلاں فلاں ٹیسٹ کرواؤیہ دوائی لے آؤمریض کیلئے جوس لے آؤیہاں تک کے چارپانچ
گھنٹوں میں مریض کی اچھی خاصی درگت بن جاتی ہے پھرہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے
ٹاؤٹ یعنی چمچے جومریض کے ساتھی کی حالت دیکھ کراسے ٹارگٹ بناتے ہیں اور
پرائیویٹ ہسپتال کامشورہ دیتے ہیں اورجس ہسپتال میں ڈاکٹرز کی زیادہ
پرسنٹیج مقررہواسے فرسٹ پرائیرٹی پررکھتے ہیں یعنی پانچوں انگلیاں گھی
میں۔میری کیاہرعام آدمی کی بااختیاراداروں سے التماس ہے کہ سرکاری ہسپتالوں
کے باہرنظردوڑائیں بیسوں لیبارٹریز سنٹراورمیڈیکل سٹورہیں اورکئی پرائیویٹ
ہسپتا ل ہیں اوران میں آنے والے وہ لوگ ہیں جوسرکاری ہسپتالوں سے مایوس
ہوکردھکے کھاکرآتے ہیں ۔ٹی وی پربیٹھے وزیرمشیرجواپنی تصاویریں خبروں میں
چھپواکرنیکی ایمانداری کاڈھنڈوراپیٹتے ہیں ان کوبتاتاچلوں کہ مظلوم عوام
ایڑیاں رگڑرگڑکرمرجاتی ہے مگران کی سسکیاں تمہارے کانوں تک نہیں
پہنچتیں۔مجھے یاد ہے 2019میں کتوں کوتلف کرنے اورویکسین کیلئے ایک کروڑ کی
گرانٹ مختص ہوئی تھی کام توکوئی نہیں ہوامگروزیرمشیرایک دوسرے پرالزام
تراشی کے بعدمعاملہ حل کرلیایعنی ان پیسوں سے کچھ حصہ ان کو مل
گیاہوگاتوہرطرف خاموشی چھاگئی حالانکہ کتوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی
ہے جیساکہ کتے کے کاٹنے کے بعد انسان نفسیاتی طورپرڈرجاتاہے اورہروقت خوف
میں مبتلارہتاہے اسی لیے اداروں کوچاہیے کہ عوام کواس ذہنی اورجسمانی اذیت
سے بچانے کیلئے جلدازجلد کتوں کوکسی انجیکشن سے مارکے تلف کریں تاکہ اس
خطرے سے عوام باہرنکل سکے۔ |