کورونا مرونا

تحریر: عائشہ یاسین، کراچی
’’ہائے ریحانہ کیسی ہو؟‘‘ پروین نے پروسن کے گھر کی گھنٹی بجائی اور ہاتھ میں پکڑے سینیٹائزر کی بوتل کا ڈھکن کھول کر میاں کے مال پر بے رحمانہ وار کرتے ہوئے خوب سارا اپنے ہاتھوں پر انڈیل لیا اور اس سے پیش تر کہ پروسن دروازہ کھولتی اور فاصلہ فاصلہ نہ رہتا، اچک کر اپنے دروازے تک ایسی اچھلتی آئیں کہ لانگ چمپ میں گولڈ میڈل جیتنا ہو۔

ریحانہ ہلتی ڈولتی جب تک دروازے تک پہنچی اس وقت تک پروین نے خود کو اپنے گھر کے دروازے میں ایڈجسٹ کرلیا تھا اور سماجی فاصلہ یعنی کہ چار فٹ پورا ہوا جاتا تھا۔ ریحانہ اب ہلتی ڈولتی (یہاں ڈولنے کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ ریحانہ ہجم کے اعتبار سے کچھ اتنی تھیں کہ جب چلتی تو لگتا ڈول لڑھکتا چلا آرہا ہے) دروازے تک پہنچ چکی تھی۔ اپنے تمام بتیسیں نکالتی پروین کی طرف بڑھی ہی تھی کہ پروین نے جھٹ سے منہ پر ماسک دھر لیا جس کو ریحانہ نے خوب نوٹ کیا اور دل میں پکا ارادہ کرلیا کہ اس بے عزتی کا بدلہ تو قرض رہا۔

’’ ہائے پروین تم تو عید کا چاند ہی ہوگئی ہو۔ نظر ہی نہیں آتی۔ (اخلاقیات کا مظاہرہ عروج پر تھا جبکہ دل و دماغ میں کلموئی سے بدلے لینے کی پلاننگ بننا جاری تھی۔) پروین پہلے تو تھوڑا شرمائی اور پھر کہا، ’’ بس عید کا چاند نکلنے ہی والا ہے دن ہی کتنے ہیں اب عید میں؟‘‘ (پروین کے اس جملے نے ریحانہ کے تن بدن میں جیسے آگ لگا کر رک دی تھی کہ محترمہ خود کو چاند کہہ رہی ہے کہیں چاند نے خودکشی کرلی تو؟)
خیر ان خیالات کو جھٹک کر ریحانہ نے بڑے چاؤ سے پوچھا ، ’’اور بتاو طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟کمزور کمزور سی لگ رہی ہو۔ ‘‘ (پروین کو ریحانہ کے جملے میں خطرے کی بو آرہی تھی کہ اگر اس نے کہا کہ ہاں طبیعت خراب ہے تو کم بخت ماری کہیں ہسپتال والو ں کو فون نہ کردے کہ ہماری پروسن کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ شک میں مجھے لے نہ جائیں قرنطینہ اور یہاں اس کو میرے شوہر کو تاڑنے کے بہانے مل جانے ہیں اور کیا پتہ 15 دن بعد شوہر شوہر ہی نہ رہے۔ ہائے اﷲ سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوگئے)
’’ارے نہیں گرمی بہت ہے نہ اس لیے تم کو لگ رہا ہوگا اور وزن تو میں خود کم کر رہی ہوں۔ کیٹو ڈائٹ سے۔ ویسے وزن کم لگ رہا ہے نا میرا؟‘‘
پروین ہاتھوں سے اپنی قمیض قمر سے پکر کر کھڑی ہوگئی۔
ریحانہ کا دل تو جیسے جلتے توے پر لوٹ گیا پر شکر عین اسی وقت اس نے ماسک منہ پر پہن لیا تھا ورنہ آج تو پروین نے اس کی بگڑے منہ پر سب پڑھ لینا تھا۔
پروین ابھی کمر پکڑے کھڑی تھی لیکن سچ پوچھو تو وہ کمر سے زیادہ کمرے لفظ کا مستحق تھا۔ ریحانہ نے بات کا رخ بدلا اور پروین کی تمام تر خوش فہمی بمعہ غلط فہمی پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا نا چاہی اور سوال داغا،
’’ہائے پروین یہ وباء کیسی پھیلی ہے نا۔ میں تو کہتی ہوں بڑا خیال رکھا کرو۔ خاص کر صفائی ستھرائی کا۔ اﷲ نہ کرے کسی مشکل میں نہ پڑ جاؤ۔ بھئی میں تو ایس او پیس کا بڑا خیال رکھتی ہوں ہاتھ دھونا صفائی رکھنا معمول ہے اور نہ ہی رش والی جگہ جاتی ہوں۔ بھئی جان ہے تو جہان ہے۔‘‘
پروین نے بھی بات میں اپنی قابلیت کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ
’’اور تو کیا۔ لوگوں کو دیکھا نہیں کوئی پروا نہیں جبکہ حکومت نے سب کا آنا جانا منع کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی سنے۔ ‘‘
اسی دوران پروین کی ماسی نے آکر زوردار سلام کیا اور اندر کام کرنے میں لگ گئی۔ ریحانہ نے یہ دیکھا تو موقع جانے نہیں دیا اور کہا، ’’ تو تم نے کام والی کو ہٹایا نہیں کیا؟‘‘
پروین نے لاپروائی سے مسکراکے کہا، ’’ہائے مجھ سے تو روزوں میں کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ آٹا گوندنے سے ہاتھوں کی جلد چھل جاتی ہے اور آگ کے سامنے کھڑے ہو تو بی پی لو ہوجاتی ہے۔ سبزی کاٹنے سے الرجی ہے مجھے۔ صابن سے ہاتھوں میں جلن شروع ہوجاتی ہے اور جھک کے جھاڑو پونچھا کرو تو کمر کے مہرے کسک جاتے ہیں اور عبادت کا ہرج مجھ سے نہیں ہوتا۔ یہ آجاتی ہے تو کام ہوجاتا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر پروین کو شاید کوئی بات یاد آئی جس کے لیے انہوں نے ریحانہ کا دروازہ بجایا تھا۔ اچانک چونکتے ہوئے بولی،’’ارے ریحانہ کل دیکھا تم نے۔ لاک ڈاون کیا ختم ہوا ساری عورتیں چل پڑی مارکیٹیں۔ بھئی بڑی دلیر عورتیں ہیں۔ نہ بیماری کا ڈر اور نہ ہی کوئی ادب تمیز۔ توبہ ہے پتہ نہیں کیا ہوگا ہماری قوم کا۔ ‘‘
’’سچ کہہ رہی ہو۔ میں نے بھی دیکھا۔ اتنا رش تھا کہ میری توبہ۔ رمضان میں اتنا ٹائم کیسی نکال لیتی ہیں عورتیں۔ قسم سے مجھے تو ٹائم ہی نہیں ملتا اور اس وباء نے تو جیسے دل ہی مار کے رکھ دیا ہے۔ کہاں کی عید اور کیسی شاپنگ۔ میرا تو بالکل جی نہیں کر رہا کہ کوئی خریداری کروں۔ اس کرونا مرونا نے تو زندگی کے سارے شوق کو دیمک لگادی ہے۔‘‘

ابھی ریحانہ اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ واٹس اپ پر آئے مسیج کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ تیزی سے پلٹی اور اپنے اوپر عبایا چڑھاکر پرس میں پیسے گننے لگی۔ پروین نے جھٹ پوچھا ،’’کیا ہوا کس کا مسیج تھا اور تم اس کرونا مرونا میں کہاں چل دی؟ ‘‘ ریحانہ عجلت میں دروازہ پر لاک لگاتی ہوئی بولی۔ کھادی پر 40 فیصد کی سیل لگی ہے اسی کا مسیج آیا ہے۔ یہ سن کر پروین نے اندر جاتے ہوئے آواز لگائی،’’ رکو میں بھی ساتھ چلتی ہوں کہیں ساری ورائٹی دوسری عورتیں نہ لے جائیں۔ جہنم میں جائے یہ کرونا مرونا!‘‘
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.