تحریر: مہوش کرن، کراچی
چاروں طرف سناٹا تھا۔ نہ پتوں کی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی، نہ جھینگر ہی
بول رہے تھے۔ شاید انہیں بھی لاک ڈاؤن کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ دور
سڑک کے پار سے رینجرز موبائلز کی آوازیں آرہی تھیں۔ شام زوم میٹنگ کے دوران
صاحب کو ایک آفس کولیگ سے پتا چلا تھا (وہ قریبی رہائشی بھی تھا) کہ اس طرف
ایک گھر میں موت ہوگئی ہے اور چار لوگوں میں کورونا کے مرض کی تصدیق ہوچکی
ہے، پوری گلی میں 23 لوگوں کو قرنطینہ لے جایا جاچکا ہے۔ اور آس پاس کا
تمام علاقہ سیل کر دیا گیا ہے۔
’’کیا ہوا سے انفیکشن اڑ اڑ کر یہاں تک آرہا ہوگا‘‘، وہ سوچنے لگی مگر
جانتی تھی کہ بیماریاں تو ویسے ہی ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہیں۔ اس لیے
پریشان ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
’’کیا ہوا تم اس وقت یہاں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ وہ اچانک آکر پوچھنے لگا۔
’’خاموشی کو سن رہی ہوں۔‘‘ ’’افففف، وہی فلسفیانہ باتیں۔ سیدھی بات کرو
نا۔‘‘
’’ہاں اسی کرونا سے متعلق کوئی سوچ ہے ذہن میں پھنسی ہوئی، اسے نام نہیں دے
پا رہی اور صحن میں بیٹھے بیٹھے یہ وقت ہوگیا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’نام دینے کی کوئی جلدی ہے، کیا عقیقہ کرنا ہے؟‘‘ وہ طنز کرگیا۔
’’جب تمہیں تکلیف ہی دینی ہے تو پوچھ کیوں رہے ہو، مجھے تو ویسے بھی اکیلے
بیٹھنے اور سوچنے کی عادت ہے۔‘‘ وہ بیزاری سے بولی۔
’’چلو بتاؤ بھی، آخر کیا بات ہے؟‘‘
’’کیا بتاؤں، بچے پوچھ رہے تھے یہی سب چلتا رہا تو ہمارا ایڈمیشن کب ہوگا؟
عید کی چیزیں کیسے آئیں گی؟‘‘ وہ بولی۔
’’پھر کیا مسئلہ ہے، تم تو بچوں کو بڑی بڑی باتوں کے جواب اتنی آسانی سے دے
دیتی ہو۔ یقیناً کوئی فلسفہ جھاڑ دیا ہوگا۔‘‘ ایک اور طنز آیا۔
’’فلسفہ کیوں جھاڑوں گی؟ بالکل سیدھی سی بات تھی پیار سے سمجھا دی کہ سب
کچھ ٹھیک ہونے کا جو وقت لکھا ہوگا اسی حساب سے جو ضروری کام ہوگا وہ اﷲ کی
مرضی سے ہو جائے گا۔
لیکن تمہارے ہوتے مجھے کسی اور کے طعنوں کی کوئی تکلیف ہی نہیں ہوتی۔ کتنے
بے حس ہو تم، ہر بات پر دل دکھانے میں ماہر۔‘‘ وہ تڑپ کر بولی۔
’’جب بچوں کو سمجھا دیا تو پھر کیا مسئلہ ہے، جب حالات درست ہوں گے۔ دیکھا
جائے گا۔‘‘ وہ لاپرواہی سے بولا۔ اس بار حالات کافی خطرناک ہیں، اﷲ رحم
فرمائیں، پتا نہیں کیسا وقت ہے۔ ’’ہاں ، ہاں، ہوتا ہے۔ پر اس بار تو حالات
ہی عجیب ہیں نا۔ اگر سب ٹھیک ہوگا تو کام بھی ہوجائیں گے ورنہ نہ کہیں آنا
نہ جانا۔ بس گھر میں بیٹھنا۔ وبا ختم یا نہ ختم تیاریوں کا قصہ ہی ختم۔‘‘
وہ مزید ہٹ دھرمی سے بولا۔
’’ہاں بالکل، ڈھیٹ بن جاؤں تو میں بھی ایسے ہی سوچنے لگوں۔
اب یہ حالات چاہے جو بھی ہوں، کس ملک نے وائرس بنایا، کس کو بیچا، کس نے
پھیلایا، پھیلانے کے پیچھے کیا کھیل جارہی ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ ہے، اس
سوچ کے پیچھے کون سے سازشی عوامل کار فرما ہیں، ان تمام کنسپیریسی تھیوریز
سے قطع نظر، جب یہ وبا ختم ہونی ہوگی باذن اﷲ ہو ہی جائے گی کیونکہ بہرحال
اس کے پھیلانے یا پھیلنے میں اﷲ کی مرضی شامل ہے ورنہ کیونکر دنیا میں کوئی
کام ہو پائے گر اﷲ ہی نہ چاہیں؟ ہم یہ نہیں سوچتے کہ کیوں اﷲ کی مرضی یوں
ہوگئی؟ ظاہر ہے انسانوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے۔ لیکن اس وبا کا کیا
ہوگا جو پھیلنے سے کبھی بھی نہیں رکتی، ایک سے دوسرے کو لگتی رہتی ہے اور
لوگ جان بوجھ کر اس میں مبتلا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اْس وبا سے بچنے کے لیے
کوئی احتیاط، کوئی سوشل ڈسٹنسنگ نہیں کرتے۔‘‘ وہ اس انداز میں بولی کہ وہ
سیدھا ہوکر سننے لگا۔
’’کیا مطلب، کون سی وبا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’خسران کی وبا۔ اور بیشک انسان خسارے میں ہے۔ ہم بار بار پڑھنے کے باوجود
سورت العصر کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہر بار نماز میں بس
زبانی پڑھ جاتے ہیں، اس کے مفہوم تک پہنچ ہی نہیں پاتے۔ ہم جانتے بوجھتے
اپنا تیزی سے گزرتا وقت ضائع کررہے ہیں۔ ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتے وقت
کو بھلا کوئی آج تک روک پایا ہے؟ یہ جارہا ہے اور پل پل ہم بھی موت کی طرف
بڑھ رہے ہیں لیکن فرق کس کو پڑ رہا ہے؟ نہ کسی کی راتوں کی نیند اڑی، نہ دن
کی روٹین تبدیل ہوئی۔ وہی غفلت کے لبادے اوڑھے سب بے خبر سو رہے ہیں۔
ایک وہ ہستی تھیں، ہماری اماں عائشہ، جو جہنم کی آگ کا تصور آنے سے ہی
راتوں کو نیند سے اٹھ اٹھ کر رویا کرتی تھیں۔ ہائے افسوس ہم ان کی بیٹیاں
ہیں، ہمارے تو غم ہی وہ غم نہ رہے تو بھلا تدارک کیسے ہوگا؟‘‘ ’’مگر یہ
خسارے کی وبا کیسے ہوگئی؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔‘‘ وہ منمنایا۔
’’تم تو کمال ہو، سب کچھ سمجھ کر بھی ناسمجھ بننا تو کوئی تم سے سیکھے۔
خسارے کی وبا ہی تو ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتی چلی آرہی ہے۔ ایک دوست،
رشتہ دار، عزیز، گھر والا غلط کام کر رہا ہو اور ہم اسے دیکھ کر اس غلطی کو
خود کرنے کے لیے صحیح بنا لیتے ہیں اور خود کو جھوٹی تاویلیں اور تسلیاں
دیتے ہیں۔
گھر، کپڑا، پیسے، اسٹیٹس سمبل، اعلی تعلیم، اونچی شان، برانڈڈ کپڑے کی دوڑ۔
دنیا داری کے لیے اﷲ کی بنائی ہر حد کو توڑنا، ہر غلط محفل کا حصہ بننا اور
اسے مجبوری کہنا، تب کیوں ہمیں سوشل ڈسٹنسنگ یاد نہیں آتی؟ دین کے معاملے
میں دنیا والوں سے ڈرنا اور دبنا۔
اس کو چھوٹا خود کو بڑا ثابت کرنے کی جنگ، آدمی کو آدمی سے کاٹ دینے والی
قطع رحمی۔ اپنوں کی چاہتوں کی غیبتیں، معافی و درگزر سے دور بھاگتی زندگی۔
نہ خود نیکی پر عمل نہ دوسروں کو تلقین، اور اگر خود نیکی کر بھی لی تو اس
پر ریاکاری و غرور۔ دوسروں کے بارے میں بدظنی، اپنے اوپر سات خون بھی معاف۔
باقی سب گناہگار، اگر دوسرے پریشان ہوں تو مکافاتِ عمل اور خود پر پریشانی
آئے تو اﷲ اپنے نیک بندوں کو ہی آزماتا ہے کہہ کر پرہیزگاری کا لیبل لگا
لینا۔
یہ سب کب رکے گا؟ جب تک نہیں رکے گا نا، انسان یونہی خسارے میں پڑا رہے گا۔
جب کہ کتنا کم مانگتا ہے ہمارا پیارا دین اور بدلے میں وہ رب اپنے بندوں کو
کتنا زیادہ نواز دیتا ہے۔
ایک کے بعد ایک شکلیں بدل بدل کر عذاب تو آتے ہی رہیں گے۔ جب تک یہ بے
حیائی رہے گی، ہر گلی میں ہر روز ویلنٹائن منایا جاتا رہے گا، دیوث کھلے
عام گھومتے رہیں گے، سود کی صورت اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے کھلی جنگ
جاری رہے گی، اسلامی انشورنس کے نام پر دین کا تماشہ بنتا رہے گا، ہر کمزور
کی حق تلفی ہوتی رہے گی، مظلوم عورت ظلم کی چکی میں پستی رہے گی۔۔۔۔ یہ وبا
تو پھیلتی رہے گی۔‘‘
’’تو اِسے پھیلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟‘‘
’’تم نے تو یوں پوچھا جیسے تم اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کر ہی لو گے۔
ہنہہہ۔۔۔ کر ہی نہ لو۔
سیدھی سی بات ہے، جب اسے پھیلانے والے رکیں گے تب ہی یہ خسارے کی وبا
پھیلنے سے رکے گی نا۔ جیسے آج ہاتھوں اور چیزوں کو سینیٹائز کیا جارہا ہے
بالکل اسی طرح اپنے ہر اْس جسمانی اعضاء کو جس سے اﷲ کی بنائی ہوئی حدود
توڑتے ہیں سینیٹائز کرنا ہوگا اور خود کو ہمیشہ روحانی طور پر سینیٹائز کر
کے رکھنا ہوگا تب ہی اس وبا کا پھیلاؤ رکے گا۔
جیسے اس کورونا کی وبا کے لیے مختلف احتیاطی تدابیر اپنائی جارہی ہیں۔ اسی
طرح اس وبا کے لیے بھی احتیاط کی جائے۔
بحیثیت فرد واحد ہر کوئی اپنی زندگی صبر شکر سے گزارے، صلح رحمی، خدمت
گزاری، وفاداری، درگزر اور کفایت شعاری و قناعت اپنائے۔
عورتیں مقابلے کی دوڑ سے باہر نکلیں، جب اتنے دن گھر میں رہا جا سکتا ہے تو
بعد میں بھی بلاوجہ بازاروں، درزیوں، لوگوں کے چکروں میں خود کو گھن چکر
بنانا چھوڑ دیں۔ زندگی کی ضروریات پوری کریں نہ کہ ضروریات کو ہی زندگی بنا
لیں۔
ایسی تمام غلط جگہیں جہاں حدود اﷲ پامال ہورہی ہوں وہاں جانے سے گریز کریں۔
ملکی سطح پر جب مساجد کو اتنا سختی سے بند کیا جاسکتا ہے تو شراب، جوئے،
زنا، سود، ٹی وی چینلز کی بے غیرتی کو بھی اسی طرح سختی سے کنٹرول کیا
جاسکتا ہے۔‘‘ وہ فرط جذبات میں آ کر کہتی چلی گئی۔
’’واہ، نہایت عمدہ تقریر کی۔ مگر اس سے کسی کی صحت پر کیا فرق پڑے گا؟ کسی
کے کان پر جوں تک نہ رینگے گی۔ تم بھلا اکیلی کیا کر لو گی؟ جو سب لوگ کرتے
ہیں وہی کرتے رہیں گے۔ اب ہوگیا تو سونے چلیں۔‘‘ وہ مذاق اڑانے والے انداز
میں بولا۔
’’تم تو پہلے بھی سو ہی رہے تھے، اب کیا نئی بات ہوگئی۔‘‘ وہ تلملا کر
بولی۔
’’یہ تم ہی سوچو، میں تو سونے جا رہا ہوں۔‘‘
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب ہوچکا تھا۔ سویا ہوا ضمیر دنیا پر طنز کر کے
اور کوئی خوش کن امید دلائے بغیر پھر سے سو گیا تھا۔
یہ جو نفس ہے نا، یہ وہ شیطان ہے جو ساری زندگی کھلا رہتا ہے رمضان میں بھی
قید نہیں ہوتا اور رمضان آنے میں چند دن ہی باقی ہیں۔ مجھے اکیلے ہی تیاری
کرنی ہوگی۔ اس پر تو بھروسہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔
’’یا اﷲ! آپ ہی سب کے ضمیر کو جگائے رکھنے کی توفیق دے سکتے ہیں، نفس کو
نفسِ مطمئنہ بنا سکتے ہیں۔۔۔
صرف اور صرف آپ کی ہی ذات مددگار ہے۔
بس اﷲ مجھے اس خسران کی وبا کو پھیلانے والا نہ بنائیں اور ہر شر سے محفوظ
رکھیں۔ اﷲ مجھے اپنی پسند کا انسان بنائیں، قرآن و سنت کی خوبصورتی گھروں
میں پھیلانے والا بنائیں تاکہ میں اپنا امیونو گلوبیولن دوسروں کو دے کر
انہیں بھی اس بیماری سے نجات دلا سکوں۔
ابھی وقت ہاتھ میں ہے تو وقت رہتے ہم سب لوگوں کو سمجھ آجائے اور ہم پانچ
چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان لیں۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،
تندرستی کو بیماری سے پہلے، دولت کو تنگدستی سے پہلے، فرصت کو مصروفیت سے
اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘
اور وہ ہمیشہ کی طرح رات کی خاموشی میں چپ چاپ آنسو بہاتے اپنے اﷲ سے باتیں
کرنے لگی۔
|