انسانیت کی خدمت

محبت کے پھول تقسیم کرنے والوں کے دامن کبھی خوشیوں سے خالی نہیں ہوتےاور انسان کے اخلاق کا اچھا ہونا ہی رب کائنات کی محبت کی دلیل ہے۔یہ دین ہمیں انسانوں کے ساتھ پیارومحبت کا درس دیتا ہے۔حضرات صحابہ کرام اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے۔اسی کا نام تو ایثار ہے۔انسانوں سے پیارومحبت اوراور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے عمل کوہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قرار دیا ہے۔رب کائنات نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ ان کے درمیان فرق و تفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائنات کے رنگ و بو کا حسن و جمال ہے۔مولانا رومی فرماتے تھے کہ خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ راستہ مخلوق خدا سے محبت کو چنا۔جس انسان کے دل میں رحم اور سوچ میں سچائی ہو ایسے انسان کا وجود اللہ کی طرف سے مخلوق کے لیے نعمت سے کم نہیں۔مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبے کے لیے زیادہ مفید ہو۔تاریخ کے اوراق اس بات پر گواہ ہیں کہ ایک خوشحال اور صحت مند معاشرے کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے جب خودغرضی کی بجائے مثبت قومیت کو پروان چڑھایا جائے۔ رنگ، نسل،ذات پات،قومیت اور مذہب کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے کام آنا ہی انسانیت ہے۔انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں،انسانی شکل و صورت کے ساتھ پیدا ہونا ہمارا کمال نہیں۔ہمارا کمال تو اس وقت ہےجب ہم انسانی شکل و صورت میں بھی انسانیت کو برقرار رکھیں۔

کسی ضرورت مند کو دیکھا تو اس کی مدد نہ کرنا حالانکہ اس کی مدد کرنے پر ہم قادر بھی ہوں تو خدا کی قسم ہم مفتی ہو سکتے ہیں ،نمازی ہو سکتے ہیں،متقی ہو سکتے ہیں،مگر ہم نیک انسان نہیں ہو سکتے۔پیغمبر اسلام کے تو الفاظ یہ ہیں تم میں سے خدا کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع دیتا ہے۔الفاظ پر غور کریں، فرمایا "خیرالناس"۔یہ نہیں فرمایا "خیرالمومن"۔اس خیرالناس میں تمام انسانیت مراد ہے۔اس میں رنگ، نسل،ذات پات اور مذہب کا کوئی دخل نہیں۔ہمارے معاشرے میں جس قدر انسان بڑھتے جا رہے ہیں انسانیت اتنی ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں اپنی تکلیف تو تکلیف لگتی ہے مگر دوسروں کی نہیں۔اگر مذہب سے انسانیت اور خدمت کو نکال دیا جائے تو باقی عبادت رہ جاتی ہے اور عبادت کے لیے رب کو فرشتے کافی تھے۔انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔بیواؤں اور یتیموں کی مدد،مسافروں،محتاجوں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون،یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تناظر میں ان سب سے بڑھ کرانسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے حقیقی پیغام کی طرف متوجہ کرنا۔اس معاشرے میں رہنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ عبادت اور تصور عبادت کو صرف اور صرف نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ تک محدود کر چکے ہیں۔جبکہ تمام مذاہب میں دوسروں کے کام آنا،ایثار اور ہمدردی کا درس لازما شامل ہے۔آج کل کے اس دور میں کوئی کسی کے کام آبھی جائے تو اسے فورا فراموش کر دیا جاتا ہے۔اس فراموشی کی وجہ سے اگر کوئی کسی کے کام آنا بھی چاہے تو یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ خود غرضی کا زمانہ ہے۔
احقر اس بات کو مکمل طور پر تسلیم کرتا ہے کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ دین کی بنیادیں ہیں لیکن ذرا غوروفکر کریں کیا صرف بنیاد کھڑی کر دینے سے مکان بن جاتا ہےاور آدمی اس میں رہنے لگ جاتا ہے یا اس کی دیواریں بھی اٹھانا ہوتی ہیں،چھت بھی ڈالنا ہوتی ہے اور مکان کی زینت و آرائش بھی کرنا پڑتی ہے ۔دین اسلام میں نفل نمازیں اور بے سمجھے بوجھے قرآن کریم پڑھتے رہنے کے مقابلے میں جو بڑی نیکی ہے وہ ہے ضرورت مندوں کی خدمت میں لگے رہنا اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا۔ہمارا تعلق جس مذہب سے ہے وہاں سب سے زیادہ تعلیم یقینی طور پر عقیدہ توحید پر دی جاتی ہے۔مگر جب میری نظر سے یہ قول رسولﷺگزرتا ہے تو میری عقل حیران ہوتی ہے کہ اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تھا تو تُو نے میری عیادت نہیں کی،بندہ کہے گا اے میرے اللہ!تُو تورب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا۔اللہ ، فرمائے گا؛میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔آج علم تو بہت ہے،بڑی بڑی جامعات اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ماضی کے مقابلے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے مگر انسانیت ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اندھیروں کی طرف جا رہی ہے۔اس وبا کے موسم میں ہم سب کو انسانیت کی خدمت کی طرف توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے کیونکہ عبادت سے جنت اور خدمت سے خدا ملتا ہے۔
یہی ہے عبادت، یہی دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

 

Dr Muhammad Hasnain
About the Author: Dr Muhammad Hasnain Read More Articles by Dr Muhammad Hasnain: 2 Articles with 3539 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.