معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، معاشرے کی تکمیل اور
بہتری کے لیے کچھ قوانیں وضح کیے جاتے ہیں۔ ان قوانین یا اصولوں کوخاتم
النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بڑی تفصیل سے معاشرہ کی
رہنمائی فرمائی ہے۔جس معاشرہ نے بھی ان اصولوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا
لیا وہ معاشرہ دُنیا کا بہترین معاشرہ بن گیا۔ ساری دنیا اور معاشرے کی
تعمیر و تکمیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں ان میں اہم چیز
ایفائے عہد(قول وقرار کا پورا کرنا)بھی ہے اس کے ذریعے معاشرے میں ایک
توازن پیدا ہوتا ہے جس سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا
دائمی سب کا ازالہ ہوجاتا ہے کوئی بھی ملک ہو یا کمپنی یا قبیلہ یا انسان
کسی بات پر کوئی عہد(Agreement) کرے یا کسی طرح کا وعدہ کرے لیکن بر وقت اس
کی تعمیل و تکمیل نہ کرے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بد مزگی پیدا ہو جاتی
ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد (وعدہ) کو غیر معمولی اہمیت دی گئی
ہے قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے
وعدہ کرو اسے بر وقت پورا کروبندوں کو بتایا جارہا ہے کہ سارے عہدوں (وعدوں)
کو پورا کرو خواہ خالق کائنات سے کریں یا مخلوق سے۔ آپ کے زیر نظر ایک ایسی
ہی چھوٹی سی تحریر ہے جس میں پاک و ہند کی تقسیم کے وقت دوست یا رہائشی آپس
سے عہد کا بندھن باندھتے ہیں اور وہ عہد اور وفا کا بندھن تہتر سال گزرجانے
کے بعد بھی ایک عظیم مثال ہے۔ اس تحریر کے شروع یا درمیان میں ایک تصویر
دیکھنے کو ملے گی جو عہد کی نشانی آج بھی قائم و دائم ہے۔ (منعقول) تصویر
اصل میں ایک دکان کی ہے جو آج سے تہتر سال پہلے لورالائی میں تھی، اس کا
مالک ایک ہندو ہے اور تھا، یہ بند دکان ایک ہندو کی ہے جو تقسیمِ ہند کی
وقت بہت افسوس کے ساتھ یہ دکان چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا لیکن جاتے وقت بہت
رویا اور گاؤں کے لوگوں کو کہا کہ میں واپس اپ لوگوں کے پاس لوٹ آؤں گا۔
لورا لائی میں موجود اس دکان کو ابھی تک وہی تالہ لگا ہے جو ہندو کاکڑ جاتے
وقت لگا کر چابی اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ 73 سال سے یہ دکان بند پڑی ہے۔
مالک مکان جو کہ اب فوت ہو چکا ہے، نے بچوں کو وصیت کی ہے کہ اس دکان کا
تالہ توڑنا نہیں، مَیں نے اس کاکڑ ہندو کو زبان دی ہے کہ یہ دکان تمہارے
آنے تک بند رہے گی۔ مالک مکان کی اولاد آج بھی اس تالے کو ہاتھ نہیں لگاتی
حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ ہندو کاکڑ اب اس دنیا میں نہیں رہا لیکن وفا کی
یادگار کے طور پر اب تک یہ دکان اس ہندو کے ساتھ ایک مسلمان پھٹان کے وعدے
کی یادگار ہے۔یہ دکان آج ایک منہ بولتا ثبوت ہے اور مثال ہے عہد کی پاسداری
کی، دوستوں کے درمیان کئے جانے عہد (Agreement)کی وگرنہ اس نفسانفسی کے دور
میں کون انتظار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خاندان کو صحت و سلامتی اور خوشیاں
عطا فرمائے جس نے مسلمان ہونے کے ناطے اس عہد اور بھرم کو قائم رکھا اور اس
کو بھی سلام ہو جس نے اپنے دوست کی دوستی پر اعتماد کیا۔اس عہد اور دوستوں
کی لازوال محبت کی چھوٹی سی کہانی سے آنکھوں میں آنسو آگئے، کیسا وہ سادہ
اور پر اعتماد دور ہو گا، لوگ اپنے آپ کو کس قدر محفوظ سمجھتے ہونگے، دکھ
درد سانجھا ہو گا، لیکن آج راہ چلتے مسافر، حادثہ میں شکار لوگوں سے بے بسی
کے عالم میں تر س کھانے کی بجائے ان کا قیمتی سامان چورا لیا جاتا ہے، اتنی
ترقی کرنے کے باوجود ہم اتنے حقیر کیونکر ہو گئے، جبکہ معاشرہ اس دور سے
کئی گنا زیادہ بہتر اور مضبوط ہونا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ ان دوستوں کے
عہد اور بھر م کو قائم و دائم رکھے اور ہم سب کو بھی اسلامی تعلیمات پر عمل
کرتے ہوے اپنے کیئے گئے عہد اور وعدوں کو نبھانے کی توفیق دے آمین۔
|