پچھلی ایشز سیریز کے لیے جب آسٹریلوی ٹیم برطانیہ پہنچی تھی تو آسٹریلوی
ڈریسنگ روم میں معمول کی نفری کے علاوہ سابق ورلڈ کپ فاتح کپتان سٹیو واہ
بھی موجود تھے۔ سٹیو واہ ہی وہ کپتان تھے جن کی قیادت میں آسٹریلیا آخری
بار گھر سے باہر ایشز سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔
کوچ جسٹن لینگر نے جس ٹائٹل تلے انھیں ڈریسنگ روم کا حصہ بنایا، وہ
’مینٹور‘ یعنی گرو تھا، جو اپنے تجربے سے ڈریسنگ روم کو مستفیض کر سکے اور
شکستہ دلوں کا حوصلے بڑھا سکیں۔
سٹیو واہ کی موجودگی سے آسٹریلوی ڈریسنگ روم کو یقیناً بھرپور فائدہ ہوا
اور اس کا اثر سیریز کے نتائج میں بخوبی جھلکتا ہے کہ ڈیڑھ دہائی کے بعد
آسٹریلیا گھر سے باہر ایشز کا ٹائٹل بچانے میں کامیاب ہوا۔
سنہ 2016 میں جب پاکستان انگلینڈ کے دورے پر گیا تو مصباح پاکستانی کرکٹ
ٹیم کے کپتان تھے اور یونس خان سینئر ترین کھلاڑی تھے کہ جن کی ڈریسنگ روم
میں موجودگی ہی پاکستانی بیٹنگ لائن کے لیے سکھ کا سانس تھی۔ اب پاکستان
انگلینڈ جائے گا تو مصباح اس کے ہیڈ کوچ اور اوول میں ڈبل سینچری داغنے
والے یونس خان اس کے بیٹنگ کوچ ہوں گے۔
یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ مصباح بھی یونس خان کی موجودگی سے وہی نتائج
اخذ کر پائیں گے جو لینگر نے سٹیو واہ کی موجودگی سے حاصل کیے تھے لیکن
پاکستان کرکٹ میں جُز وقتی سپیشلسٹ کوچز کی آمد کا رجحان بہت حوصلہ افزا ہے۔
فی الوقت تو یونس خان اور مشتاق احمد کی شمولیت صرف ایک انگلش دورے تک
محدود ہے مگر عین ممکن ہے کہ بہتر نتائج اس قلیل المعیاد وابستگی کو ایک
مستقل رشتے میں بدل دیں۔ کیونکہ اہم دوروں اور اہم ایونٹس سے قبل اس طرح کے
ماہرین کی ڈریسنگ روم میں شمولیت بہر حال ایک نتیجہ خیز رجحان ہے۔
کورونا کی وبا نے تو ہر شے کی طرح کرکٹ کا کیلنڈر بھی بدل کر رکھ دیا ہے
وگرنہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی آمد کے پیشِ نظر جسٹن لینگر ہی نے مختصر فارمیٹ
کے سکواڈز کے ساتھ مائیکل ہسی کو بھی ڈریسنگ روم کا حصہ بنایا تھا۔
سوچ یہی کارفرما تھی کہ جو کھلاڑی سیمی فائنل جیسے پریشر میچ میں دنیا کے
بہترین سپنر کو آخری اوور میں میچ سے باہر پھینک سکتا ہے تو ڈریسنگ روم میں
اس کی موجودگی سے نوجوانوں کا صرف مورال ہی بلند نہیں ہو گا، تجربہ، تکنیک
اور بروقت اطلاق بھی سمجھ آ جائیں گے۔
|