سہ جرندہ خرابہ او سہ دانے لوندے..

نیشنل گیمز میں سونے کے دو ' چاندی کے پانچ اور کانسی کے چونتیس میڈل لینے والے کھلاڑیوں کو ابتداء میں کہا گیا کہ وہ اپنے بین اکاوئنٹس کی معلومات سپورٹس بورڈ کو ارسال کریں تاکہ بینک اکائونٹس کے ذریعے انہیں سکالرشپ دی جائے - جس پر بہت سارے کھلاڑیوں نے دسمبر میں ہی اپنا ڈیٹا سپورٹس بورڈ خیبر پختونخوا کے پاس جمع کروایا تھا کہ انہیں رقم مل سکے گی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر دفتر سے یہ ڈیٹا غائب ہوگیا اور پھر کرونا کی صورتحال نے ہر چیز تبدیل کردی حتی کے سپورٹس بورڈ کے ہاسٹل کو قرنطینہ میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی ہوا اور ڈائریکٹر سپورٹس خیبر پختونخوا کو اضافی ڈیوٹی دیدی گئی ' حالانکہ اس وقت کھیلوں سے وابستہ تنظیموں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا لیکن نقارخانے میں طوطی کی کون سنتا ہے. خیر آمد برسرمطلب.
سرکاری کام ہمیشہ سست روی کا شکار رہتے ہیں اور جب بات کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کی آجائے تو پھر یہ کام مزید سست روی کا شکار ہو جاتا ہے حالانکہ انہی کھلاڑیوں کی دم سے جہاں کھیلوں کے میدان آباد ہوتے ہیں وہاں پر بڑے بڑے مشاہرے لینے والے اور گاڑیوں میں پھرنے والے سرکاری افسران کی خرمستیاں بھی جاری رہتی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو ایسے وقت میں بھی نظر اندازکیا جارہا ہے جب ملک پر کھلاڑی کی حکومت ہے اور کھیلوں کے فروغ کے دعوے نہ صرف وفاقی حکومت کرتی آرہی ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں ایسے صاحب چیف ایگزیکٹو بن بیٹھے ہیں جو کسی زمانے میں خود کھیلوں کے وزیر رہ چکے ہیں لیکن نہ جانے کیوں انہو ں کے اس شعبے کی جانب توجہ کم کردی ہیں - اور ایسے حال میں جب زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہیں اور ان کیلئے امداد کا اعلا ن کیا جارہا ہے وہیں پر چھ ماہ قبل نیشنل گیمز میں نمایاں پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں کو دی جانیوالی سکالرشپ ابھی تک انہیں نہیں مل سکی ہیں-
گذشتہ سال پشاور میں کھیلے جانیوالے نیشنل گیمز میں نمایاں پوزیشن لینے والے کھلاڑیوں کیلئے صوبائی حکومت نے امداد کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ جو کھلاڑی اپنے شعبے میں گولڈ میڈل حاصل کرے گا اسے پندرہ ہزار جبکہ سلور میڈل لینے والے کھلاڑی کو دس ہزار اور کانسی کا میڈل لینے والے کھلاڑی کو سات ہزار روپے ماہوار دیا جائیگا اس بنیاد پر مختلف کھیلوں بشمول ' کراٹے ' باکسنگ ' جوڈو' اتھلیٹکس ' والی بال ' بیڈمنٹن ' ٹیبل ٹینس ' آرچری ' ہاکی اور فٹ بال سمیت دیگر کھیلوں میں نمایاں پوزیشن لینے والے اکتالیس کھلاڑیوں کیلئے سکالرشپ کا اعلان ہوا تھا تاکہ یہ کھلاڑی کھیلوں کے شعبے سے وابستہ رہیں اور تعلیمی اخراجات پورے ہوں تو آنیوالے دنوں میں انہیںمزید کامیابی بین الاقوامی سطح پر بھی ملے جس کیلئے کھلاڑی شوق سے محنت کرے -
نیشنل گیمز میں سونے کے دو ' چاندی کے پانچ اور کانسی کے چونتیس میڈل لینے والے کھلاڑیوں کو ابتداء میں کہا گیا کہ وہ اپنے بین اکاوئنٹس کی معلومات سپورٹس بورڈ کو ارسال کریں تاکہ بینک اکائونٹس کے ذریعے انہیں سکالرشپ دی جائے - جس پر بہت سارے کھلاڑیوں نے دسمبر میں ہی اپنا ڈیٹا سپورٹس بورڈ خیبر پختونخوا کے پاس جمع کروایا تھا کہ انہیں رقم مل سکے گی لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر دفتر سے یہ ڈیٹا غائب ہوگیا اور پھر کرونا کی صورتحال نے ہر چیز تبدیل کردی حتی کے سپورٹس بورڈ کے ہاسٹل کو قرنطینہ میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی ہوا اور ڈائریکٹر سپورٹس خیبر پختونخوا کو اضافی ڈیوٹی دیدی گئی ' حالانکہ اس وقت کھیلوں سے وابستہ تنظیموں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا لیکن نقارخانے میں طوطی کی کون سنتا ہے. خیر آمد برسرمطلب.
مئی کے مہینے کا تیسرا ہفتہ شروع ہوگیا ہے اور ابھی تک نیشنل گیمز میں نمایاں پوزیشن ہولڈر والے کھلاڑیوں کو سکالرشپ نہیں مل سکی ہیںاس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کا موقف ہے کہ نام تو ابتداء میں بھیجے گئے تھے تاہم پاکستان اولمپک ایسوسی ایشنز سے کھلاڑیوں کی ویری فیکیشن کا عمل شروع ہوا ان کے مطابق ابھی تک صرف بیس کھلاڑیوں کے اکائونٹس کی تفصیلات سپورٹس بورڈ خیبر پختونخوا کو ملی ہیں جنہیں مارچ کے مہینے میں اگلے اٹھارہ ماہ کیلئے اعزازیہ دیا جائیگا ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ انہوں نے اکاونٹس نہیں کھولے اسی وجہ سے رقم انہیں نہیں مل سکی تاہم ان کی کوشش ہے کہ جلد از جلد یہ اعزازیہ متعلقہ کھلاڑیوں کو مل سکے .
ایک طرف تو حال یہ ہے کہ دنوں کے کام مہینوں میں صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو اپنے صوبے اور ملک کا نام کھیل کے میدان میں روشن کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ ایسے ایسوسی ایشنز جنہوں نے کاغذوں میں نیشنل گیمز کیلئے خریداری کی ان کے بل بجٹ سے پہلے پہلے منظور ہونا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ وہاں کچھ لو اور کچھ دو پر کام چلتا ہے - ایسے میں کھیلوں کی جانب توجہ کون دے گا یہ وہ سوال ہے کہ جس کا جواب کسی کے پاس نہیں.
کھیلوں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی اس معاملے میں خاموش ہیں کیونکہ آخر انہوں نے بھی اس پاپی پیٹ کو بھرنا ہے اس لئے کھیلوں کی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرنے کے بجائے انہوں نے کہا ہے ' جیسی رپورٹنگ کرکے محکمے کو خوش کیا جاتا ہے حالانکہ کھلاڑیوں کی بڑی تعداداپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کی کوریج کی متلاشی ہوتی ہیں لیکن ان غریب کھلاڑیوں کی بھی کوئی نہیں سنتا یہی وجہ ہے کہ اگر کہیں غلطی سے کوئی خبر نکل بھی جائے تو پھر خبر شائع کرنے والے صحافی کی مشترکہ طور پر کلاس لی جاتی ہیں کہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کوششوں پر پانی پھیرا جارہا ہے جس طرح ہمارے ملک کی سیاست میں جمہوریت کی بقاء کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے .بس یہی صورتحال ہمارے صوبے میں کھیلوں کی بھی ہے جسے ہم پشتو زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ سہ جرندہ خرابہ او سہ دانے لوندے..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 417772 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More