سورجاثیہ
اگر قرآن پر غور کیاجائے تو اس کا ہر لفظ اپنی جگہ اتنا فصیح معلوم ہوتا
ہے کہ اس کی جگہ دوسرے کلمے کو خواہ اسی معنی ومفہوم کاہو نہیں رکھ سکتے
ہیں۔ اس کے برخلاف زبان دانی کے دعوے کرنے والوں کے کلام میں مختلف خامیاں
پائی جاتی ہیں۔ مثلاً متنبی عربی زبان کا مشہور شاعر ہے، اس کو اپنی زبان
دانی پر ناز بھی تھا اسی لیے دعوئہ نبوت بھی کربیٹھا حالانکہ اس کا سارا
کمال قرآن سے ہی مستفاد تھا ۔مثلاً اس کا ایک شعر ہے:
ان القتیل مضرجاً بدموعہ مثل القتیل مضرجاً بدمائہ
شہید محبت شہید جنگ کی طرح ہوتا ہے۔
لیکن ذرا ”مثل“ کو ہٹاکر ’فوق“ رکھدیں تو دیکھئے حسن کتنا دوبالا ہوتا ہے۔
ان القتیل مضرجاً بدموعہ فوق القتیل مضرجاً بدمائہ
شہید محبت کا مقام جنگی شہید سے بڑھا ہوتا ہے۔
لیکن قرآن نے لفظ ”مثل“ کو تقریباً چالیس جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ
بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں۔
سبحان اللہ !!میرے رب کاکلام تمام عیبوں سے پاک ہے ۔آئیے سورۃ جاثیہ کے
متعلق جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
سورۂ جاثیہ اس آیت ’’قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا‘‘ کے علاوہ
مکیہ ہے۔( جلالین، سورۃ الجاثیۃ، ص۴۱۳)۔ اس سورت میں 4رکوع،37 آیتیں
،488کلمے ، اور2191حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ الجاثیۃ، ۴/۱۱۷)
جاثیہ کا معنی ہے زانو کے بل گرا ہوا، اور اس سورت کی آیت نمبر28 میں بیان
کیا گیا کہ قیامت کی ہولناکیوں کی شدت سے ہر امت زانو کے بل گری ہو گی۔اس
مناسبت سے اس کا نام سورۂ جاثیہ رکھا گیا۔
آئیے اب یہ جانتے ہیں کہ سورۃ جاثیہ میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے ۔اس میں
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے، حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی تصدیق کرنے ،قرآنِ مجید کو اللہ
تعالیٰ کا کلام تسلیم کرنے ،مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی
جزاء و سزا ملنے کااعتراف کرنے کی دعوت دی گئی ہے،اور ا س سورت میں یہ
چیزیں بیان ہوئی ہیں ۔
اسی سورۃ میں آسمانوں اورزمینوں میں ،انسانوں کی تخلیق اور جانوروں میں ،
رات اور دن کی تبدیلیوں میں ،آسمان سے بارش نازل کرکے بنجر زمین کوسرسبز و
شاداب کرنے میں اورہواؤں کی گردش میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کی
نشانیاں موجود ہیں تو ان نشانیوں کو جھٹلاکر مشرکین کونسی بات پر ایمان
لائیں گے۔
قرآنِ مجید کی آیتیں سن کر ایمان لانے سے تکبر کرنے والے، اپنے کفر پر
قائم رہنے والے اور قرآنِ مجید کی آیتوں کا مذاق اڑانے والے اور ا س کی
ہدایت کو نہ ماننے والے کو جہنم کے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ، مسلمانوں کی
اخلاقی تربیت فرمائی گئی اور یہ بتایاگیا کہ جو نیک کام کرتا ہے تو ا س کا
فائدہ اسی کی ذات کو ہو گا اور جوبرے کام کرتا ہے تو ان کاموں کا وبال بھی
اسی پر ہے۔
بنی اسرائیل کو عطا کی جانے والی نعمتیں بیان کی گئیں اور یہ بتایا گیا کہ
تورات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دین، حلال و حرام کے بیان اور
تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تشریف
آوری کے معاملے کی روشن دلیلیں دیں لیکن انہوں نے سیِّدُ المرسلین صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جلوہ افروزی کے بعد اپنے
منصب اور ریاست ختم ہوجانے کے اندیشے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حسد کیا اور
دشمنی مول لی اور علم کے باوجود آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی رسالت کے بارے میں اختلاف کیا۔
برے کام کرنے والوں کو بتایا گیا کہ وہ اچھے کام کرنے والوں جیسے نہیں اور
ان کی زندگی اور موت برابر نہیں ہے،نیز کفار کے احوال اور ان کے گروہوں کے
برے افعال بیان فرمائے گئے اور مُردوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے پر دلائل
دئیے گئے۔
یارب تیراشکر!!تیری دی ہوئی توفیق سے ہم نے تیرے کلام کی خدمت کی کوشش کی
تو مقبول فرما۔ہمیں دین کا فہم عطافرما۔ہمیں اخلاص عطافرما۔تیرے عاجز بندے
تجھ سے تیرا فضل چاہتے ہیں ۔
نوٹ:قارئین:ہمیشہ سلامت رہیں ۔رب آپ کو آپ کی آل کو سلامت رکھے ۔خدمت
دین کے لیے کوشاں یہ سفر جاری و ساری ہے ۔آپ بھی بنیں ہمارے دست راست ۔آئیں
رابطوں کی دنیا بحال کریں ۔ |