اس وقت انسانیت کٹھن آزمائش سے گزر رہی ہے۔ ہر انسان
اپنی صحت، معاش اور زندگی کو لے کر فکر مند ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے کے کام
آنے کا ہے، نہ کہ کسی کی مجبوری سے فایدہ اٹھانے کا۔ کسی کی مجبوری کا
فایدہ اٹھانا تو عام حالات میں بھی مذموم ہے، ایسے مشکل حالات میں اس کی
شناعت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود دیکھنے میں آرہا ہےکہ بعض لوگ
ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی اور کالابازاری میں ملوّث ہیں۔ دُکان دار کو ایک
چیز دس فی صد مہنگی مِل رہی ہے، تو وہ اُسےپچیس فی صد مہنگا بیچ رہا ہے۔
اُس کا کہنا ہے کہ چیزیں مارکیٹ میں دستیاب نہیں، لینا ہو تو لو، ورنہ جانے
دو! اِن حالات میں اللہ تعالیٰ سے کس طرح رحم طلب کیا جائے؟ضروری اشیا کی
قیمتیں معمول سے زیادہ وصول کرنا یا ذخیرہ اندوزی کرکے عام منافع سے زیادہ
کمانا کُھلا ظلم ہےاورجب کوئی قوم ظلم کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر عذاب
مسلّط کر دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:فَكَاَيِّنْ مِّنْ
قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ۔ کتنی بستیاں تھیں جن کو ہم نے
اُس وقت ہلاک کر دیا، جب وہ ظلم کر رہی تھیں۔[الحج]اس لیے ہمیں ایسا کرنے
سے توبہ کرنی چاہیے ۔
غبنِ فاحش یا معمول سے زیادہ نفع لینا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے
اللہ کے رسول ﷺ! نرخ (قیمتیں)مقرر فرما دیجیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: نہیں بلکہ
میں دعا کروں گا! پھر ایک شخص اور آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ﷺ!
نرخ مقرر کر دیجیے! آپ نے فرمایا: نہیں،اللہ تعالیٰ قیمتوں کو گھٹاتے
بڑھاتے ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اِس حال میں مِلوں
کہ میرے پاس کسی کا کوئی ظلم نہ ہو۔[ابوداود]حضرت انس رضی اللہ عنہ کی
روایت میں ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! نرخ
بہت بڑھ گئے ہیں، آپ ہمارے واسطے قیمتیں مقرر فرما دیجیے، تو آپ ﷺنے
فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والے ہیں، وہی رزق دینے والے
ہیں اور مَیں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اِس حالت میں مِلوں کہ تم
میں سے کوئی مجھ سے کسی خون یا مال کا مطالبہ نہ کرے۔ [ابوداود]چوں کہ
قیمتیں طے کرنےمیں کسی کے فایدے اور کسی کے گھاٹے کا احتمال ہوتا ہے، اگر
ایسا ہوا تو گھاٹے والا دامن گیر ہوگا، اس لیے آپ ﷺ نے اس سے احتراز کیا۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعت نے تجارت میں نفع لینے کی کوئی
حد یا مقدار متعین نہیں کی، جھوٹ بولے اور گاہک کو دھوکا دیے بغیر جتنا
چاہیں نفع لے سکتے ہیں،لیکن خصوصیت سے اُس وقت -جب کہ ضروری اشیا کا بُحران
ہو-عام معمول سے بہت زیادہ نفع لے کر بیچنا یا کسی کی مجبوری سے فایدہ
اٹھانادرست نہیں، اسے’غبنِ فاحش‘سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسا کرنا انسانی
مروّت کے خلاف ہے، اس لیے اِس سے بچنا ضروری ہے۔ [شرح المجلۃ رستم] فقہاے
کرام نے اسے مالایدخل تحت تقویم المقومینسے تعبیر کیا ہے یعنی ایک چیز کی
قیمت کا اندازہ کئی لوگ لگائیں اور کسی کا تخمینہ اُس حد تک نہ پہنچےتو یہ’
غبنِ فاحش‘ ہے ۔[فتاویٰ شامی]
احتکار اور اُس کی حُرمت
عربی زبان میں مہنگا بیچنے کی نیت سے غلّہ روکنے کو احتکار کہتے ہیں۔
الاحتکار لغۃ: حبس الطعام ارادۃ الغلاء۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]شریعتِ
اسلامیہ نے اس پر بھی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیاہے،اور احتکار کے حرام
ہونے پر جمہور علما کا اتفاق ہے۔یہ حضرات اس آیت سے استدلال کرتے
ہیں:وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ
اَلِيْمٍ اور جو کوئی شخص اس میں ظلم کر کے ٹیڑھی راہ نکالے گا، ہم اُسے
دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ [الحج]
احتکار کبیرہ گناہ ہے
علامہ ابنِ حجر ہیتمیؒ نے احتکار کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، وہ کہتے
ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ میں اِس پر جو شدید وعیدیں آئی ہیں مثلاً -اللہ
کی لعنت اور اللہ و رسول اللہ کا اُس سے بَری الذمہ ہونا اور ایسا کرنے
والے کا کوڑھ اور افلاس میں مبتلا ہونا- اِس سے احتکار کا گناہِ کبیرہ ہونا
معلوم ہوتا ہے، بلکہ ان وعیدوں میں سے بعض ہی اِس کے کبیرہ گناہ ہونے پر
کافی دلیل ہیں۔ [الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
احتکار کیوں حرام ہے؟
فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ احتکار کے حرام ہونے کی حکمت عوام الناس کو
ضَرر سے بچانا ہے اور اسی لیے علما کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی شخص نے
کسی چیز کا احتکار کیا اور لوگوں کو اُس چیز کی سخت ضرورت ہو اور کسی دوسرے
کے پاس وہ چیز دستیاب نہ ہو تو اِس شخص کو احتکار کی ہوئی چیز بیچنے پر
مجبور کیا جائےگا، تاکہ لوگوں سے ضَرر دور ہو جائے اور باہمی تعاون کی راہ
پیدا ہو۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
ذخیرہ اندوز سے اللہ و رسول بَری ہیں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اگر کسی نے اِس ارادے سے ذرا بھی
ذخیرہ اندوزی کی کہ مسلمانوں کے کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوجائیں، تو وہ
خطا کار ہے اور اللہ اور اُس کے رسول پر اُس کا کوئی ذمہ نہیں ۔ایک حدیث
میں ہے: جو شخص چالیس دن تک غذائی ضرورتوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، وہ
اللہ سے بَری ہے اور اللہ اُس سے بَری ہے۔اورجس خاندان میں ایک آدمی بھی
بھوکارہا، اُن سب سے اللہ کا ذمّہ بَری ہے۔ [کنزالعمال]
نوٹ: اِس کی مدت میں اختلاف ہے؛ بعض کے نزدیک ایک ماہ، بعض کے نزدیک چالیس
روز، غرض یہ کہ جب لوگوں کو ضرورت پڑنے لگے اور روکنے سے ضرر ہونے لگے،
احتکار ہوجاتا ہے۔[امداد الفتاویٰ]
ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: دوسرے
شہر سے مال لانے والے کو رزق (یعنی روزی میں نفع) دیا جاتا ہے اور ذخیرہ
اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ایک روایت میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے لیے یہ
بددعا بھی وارد ہوئی ہے کہ جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیا میں ذخیرہ
اندوزی کرے، اللہ تعالیٰ اُسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا
فرمائیں۔[ابن ماجہ ]
فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں
مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلےتو راستے میں اُنھیں جگہ جگہ غلّہ نظر آیا۔
انھوں نے پوچھا: یہ غلّہ کیسا ہے ؟ لوگوں نے بتایا: یہ درآمد کیا گیا ہے۔
آپ نے فرمایا: اللہ اِس میں برکت دے اور اُس شخص کو بھی جس نے اِسے درآمد
کیا ہے! لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین ! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے!
آپ نے پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا تھا ؟ لوگوں نے بتایا: حضرت عثمان
غنی رضی اللہ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ حضرت فاروقِ اعظم
رضی اللہ عنہ نے اُن دونوں کو بُلوا بھیجا اور فرمایا: تم نے مسلمانوں کی
غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی ؟ اُنھوں نے عرض کیا:امیر المومنین
! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لیے ہمیں اختیار ہونا چاہیے)۔
آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص
مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگ
دستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ فروخ نے تو یہ سن کر اُسی وقت
کہا: امیرالمومنین ! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آیندہ ایسا
نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اپنی اُسی بات پر اَڑا
رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اِس لیے ہمیں اختیار ہونا
چاہیے)۔ ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اُسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے
مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔[مسند احمد]
مختلف صورتیں اور ان کا حکم
خلاصہ یہ کہ ذخیرہ اندوزی کی کئی صورتیں ہیں اور ہر ایک کا حکم جُدا
ہے:۱ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کا غلّہ روک رکھے اور فروخت نہ
کرے، یہ جائز ہے۔ لیکن اس صورت میں گرانی اور قحط کا انتظار کرنا گناہ ہے
اور اگر لوگ تنگی میں مبتلا ہوجائیں تو اُس کو اپنی ضرورت سے زائد غلّے کے
فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۲دُوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص غلّہ خرید
کر ذخیرہ کرتا ہے اور جب لوگ قحط اور قلّت کا شکار ہوجائیں تب بازار میں
لاتا ہے، یہ صورت حرام ہے،آں حضرت ﷺنے اس کو ملعون قرار دیا ہے۳تیسری
صورت یہ ہے کہ بازار میں اس جنس کی فراوانی ہے اور لوگوں کو کسی طرح کی
تنگی اور قلّت کا سامنا نہیں، ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، مگر
گرانی کے انتظار میں غلّے کو روکے رکھنا کراہت سے خالی نہیں۴چوتھی صورت یہ
ہے کہ انسانوں یا چوپایوں کی خوراک کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا اِس کے علاوہ
دیگر چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہوجاتی ہے،
یہ بھی ناجائز ہے۔[آپ کے مسائل اور ان کا حل]
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں)
|