اک نشست (استاد محترم کی یاد میں)

تحریر: ساحر مرزا
اول اﷲ علیم، اعلیٰ، عالم جوڈتی
قادر پنہنجی قدرت سین، قائم آھی قدیم
والی، واحد، وحدہ، رازق، رَب رحیم
سو ساراہ سچو ڈتی، چئی حمد حکیم
کری پان کرِیمُ، جوژُون جوژ جہان جی
سر کلیاٹ (شاہ جو رسالو سے منتخب )

تیری ہی ذات اول و آخر، تو ہی قائم ہے اور تو ہی قدیم، تجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے، تیرا ہی آسرا ہے رب کریم، کم ہے جتنی کریں تری توصیف، تو ہی اعلیٰ ہے اور تو ہی علیم، والیِ شش جہات واحد ذات، رازقِ کائنات، ربِ رحیم۔ (منظوم اردو ترجمہ: شیخ ایاز)

مندرجہ بالا حمد باری تعالی جماعت ششم سندھی نصاب کا حصہ تھی یہ قریب نوے کی دہائی اور اوائل اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک کے نصاب کا حصہ تھی ۔ حمد کو زبانی یاد کرنے کے لئے جماعت ششم میں جو محنت کرائی جایا کرتی تھی وہ قابلِ دید تھی اک اردو بولنے والا لڑکا سندھی کی حمد کو اسی خالص لب و لہجے و تلفظ کے ساتھ دہرانے کی لگاتار مشق میں مصروف رہا کرتا تھا ۔

کہ جو تلفظ، لب و لہجہ استادِ محترم سر غلام صاحب (ماہرِ مضمون سندھی، رانا اکیڈمی گورنمنٹ ہائی اسکول، اخترکالونی کراچی) کا ہوا کرتا تھا ۔

اب استاد بذاتِ خود پیدائشی سندھی زبان بولنے والا اس پر مستزاد یہ کہ علومِ زبان دانی مضمون سندھی میں اعلیٰ مہارت اور سونے پر سہاگہ ان کا تجربہ۔ حیرت کی بات ہے کہ مار کھا کے، سزا کے ڈر سے، استاد کے قہر و جبر کے تحت سب یاد کر لیتے ہیں لیکن سر غلام صاحب سا مشفق و متحمل استاد کسی بچے کو طمانچہ تک نہیں مارا کرتے تھے تھے۔

لیکن ہاں....!! اک سزا تھی جو وہ اکثر و بیشتر زیادہ سے زیادہ ایک منٹ تک دِیا کرتے تھے کہ بچے کے بائیں کان کو پکڑ کر چُٹکی میں دبایا کرتے اور درس گاہ میں مشہور ترین تکیہ کلام دُہراتے ''ہائے باجی.... احمد کی مینگو چٹنی، کتنی تیکھی ہے''

یوں تو چند اک سال قبل یہ فقط اک اشتہار تھا، مگر ہمارے لئے یہ جملہ بہت سی یادیں اور وہ لڑکپن کے زمانے کے سارے رنگ و سُر ساز آنکھوں کے سامنے دُہرا دیتا ہے۔

اب یہ حمد ہم نے اس دور میں یاد کی بِنا مار کھائے، بِنا مار پیٹ اور اﷲ کے کرم اور اساتذہ کی توجہ سے کہ سارے اسباق و کتب بھولے نئے یاد کئے پرانے بھول گئے لیکن یہ حمد اس کے الفاظ،استادِ محترم کا لب و لہجہ،کمرہ جماعت کا منظر، میزوں کی چٹختی لکڑی کی خوشبو، کمرہ جماعت کے کچے ٹوٹے فرش پر پانی سے گیلی مٹی کی سوگندھ سب کچھ، تمام تر جزیات محسوس ہونے لگتی ہیں۔

یہ تمام تر کیفیات و الفاظ اور یاد دہانیاں درحقیقت ہماری ذہانت و فطانت یا طالبعلمی کی محنت کا کمال نہیں, درحقیقت یہ اساتذہ کی محنت اور ان کے خلوص کا ثمر ہے جو ہم پا رہے ہیں۔

یوں تو بہت سی درسگاہیں،کالجز اور اداروں سے تعلیم حاصل کی،اساتذہ بھی بہت سے ملے اور چند اک تو ایسے جن کے نام تک نہیں یاد،چہرے و نقوش تک پردہِ یادداشت سے محو ہو چکے،لیکن استاد غلام صاحب ہمیں یاد رہے اور ان کا پڑھایا سبق اک ''حمدِ باری تعالی'' ہمیشہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں وردِ زباں رہی،یہ سب ان کے جداگانہ طریقہ تدریس کا کمال ہے،یہ سب ان کی ہمارے لئے پُرخلوص و مشفقانہ محنت ہے جو ہمیں آج یہاں تک لے آئی۔

اﷲ ان پر رحم و فضل اور آسانی کرے اور ان کا سکھایا گیا ہر سبق ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے (ثم آمین)

استاد کے لئے لازم نہیں کہ وہ اگر اردو کا استاد ہے تو وہ آپ کی زندگی کامیاب نہیں کر سکتا یا اگر سائنس کا استاد ہے اس کا طریقہ تدریس اگر طالبعلم کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تو وہ طالبعلم کو رٹا لگوا کر امتحانات میں اچھے درجے میں کامیاب کروا کر اس کا مستقبل بنا رہا ہے ۔

نہ..... بالکل نہیں، استاد بچے کو اپنے طالبعلم کامیاب ڈگری سے اعلیٰ تعلیمی سرٹیفکیٹ سے نہیں بنا سکتا، بلکہ تربیت و کردار سازی سے بناتا ہے، استاد طالبعلم سے ساتھ جو رویہ اپناتا ہے، جس طور اسے سمجھاتا ہے، جس قدر طلبہ کے مزاج و ذہنی و فکری تقاضوں کو سمجھتا ہے وہ معنی رکھتا ہے کیونکہ اساتذہ معمارِ قوم ہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.