میں نے آج سے چھ ماہ پہلے جناب وزیر اعظم کو ایک خط لکھا
تھا کہ ہائر ایجو کیشن کمیشن ایک مخصوص مافیہ کا نمائندہ ادارہ ہے۔ جس نے
ریسرچ کو فروغ دینے کی بجائے اس ملک کے اساتذہ کو فنکاروں میں تبدیل کر دیا
ہے۔ اساتذہ تعلیم سے کم اور گریڈوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں ۔ انہیں طلبا کی
بجائے اپنے سینئر کی خدمت اور ان کی چاپلوسی اور جی حضوری کا فن سکھایا جا
رہا ہے۔حال ہی میں پروموٹ ہونے والے ایک پروفیسر صاحب مجھے کہنے لگے کہ
انہوں نے ترقی حاصل کرنے کا راز پا لیا ہے کہ پڑھاؤ کم اور وائس چانسلر کے
دائیں بائیں زیادہ نظر آؤ۔ یہی کامیابی کا زینہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں،ہائر
ایجوکیشن کمیشن شوگر اور پٹرول سے بھی بڑا اور خوفناک مافیہ ہے جو قوم کو
تباہی سے گامزن کرنے پر تلا ہے۔ اس کے موجودہ ذمہ داروں میں بہت کم ایسے
ہیں جنہوں نے کبھی کبھار کلاس روم کی شکل دیکھی ہو گی ورنہ زیادہ تر نان
پروفیشنل لوگ ہیں۔ انہیں تعلیم کا کم اور حکمرانوں کو سبز باغ دکھانے کا
وسیع تجربہ ہے اور اسی تجربے کے بل پر وہ اب بھی اپنا کا م چلا نے اور
تعلیمی نظام کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی قسم کی انقلابی اصلاحات ان کے
بس کی بات نہیں۔ سابقہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اس سے بدرجہا بہتر ادارہ تھا۔
بہتر ہے کہ اس ادارے کو توڑ دیا جائے اور یونیورسٹیوں کو آزادی سے اپنے
فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے۔
میں نے یہ بھی لکھا کہ بی ایس خالصتاً معلومات کی ڈگری ہے ۔ اساتذہ کا کام
طلبا کو اس لیول پر کسی بھی مضمون کے بارے مکمل معلومات دینا ہوتی ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی غلط پالیسیوں سے یونیورسٹیوں سے اساتذہ کا
خاتمہ کر دیا ہے۔ اب یونیورسٹیوں میں صرف ریسرچر ہیں۔مگر وہاں بی ایس کی
کلاسیں شروع کر دی گئی ہیں۔ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ اب وہاں پڑھانے والا ہے
کون،زیادہ تر ریسرچر تو اچھے استاد نہیں ہوتے۔ استاد اور ریسرچر کا مزاج ہی
مختلف ہوتا ہے۔ ریسرچر مکمل مضمون پر حاوی ہی نہیں ہوتے طلبا کو مضمون کیسے
آئے گا، مگر ڈگریاں بانٹی جا رہی ہیں۔ تعلیم اس طرح بری طرح تباہ ہو رہی ہے
کہ جب ذمہ داروں کو اس کا احساس ہو گا تو پانی سر سے گزر چکا ہو
گا۔یونیورسٹیوں میں پرانے ریسرچر تو پھر غنیمت ہیں کہ وہ کسی حد تک پڑھا
بھی لیتے ہیں۔ نئے ریسرچر پر رب کا احسان ہے کہ انہیں کمپیوٹر میسر ہیں اور
ریسرچ کے نام پر انہیں کٹ پیسٹ کی شاندار تعلیم دے کر ریسرچ پیپرز کی ہیچری
لگانے کا فن سکھا دیا گیا ہے۔ مگر پڑھانا ان کے بس کی بات نہیں۔ حد تو یہ
ہے کہ یونیورسٹی جن نئے لوگوں کو کلاس میں پڑھانے بھیجتی ہے انہیں پڑھانے
کاایک دن کا بھی تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ بہت خوبصورتی سے نسلیں بگاڑنے کا کام
کرتے ہیں۔طلبا چیختے رہیں کوئی سنتا ہی نہیں۔ لوگ تعلیم کے بگاڑ کی بات
کرتے ہیں تو عموماً لارڈ میکالے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کے
بانی جناب ڈاکٹر عطا الرحمنٰ اس معاملے میں میکالے سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
بہت جلد جب لوگ پر حقیقت آشکار ہو گی تو اگلی کئی نسلیں انہیں روئیں گی۔
پہلے والی دو سالہ بی ایس سی اور دو سالہ ایم ایس سی کو چار سالہ بی ایس
اور دو سالہ ایم ایس یا ایم فل میں بدلا گیا۔ کسی نے کبھی سوچا کہ کیا
تبدیلی آئی سوائے دو مزید سالوں کے۔ وہی چار سال والا سلیبس چھ سالوں میں
بانٹ دیا گیا۔ کوئی نئی چیز شامل نہیں کی گئی۔ ریسرچ کا پرچار کرنے والوں
سے کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ تم ریسرچ کی بنیاد پر گریڈوں کی لمبی لمبی
چھلانگیں تو لگا رہے ہو مگر کسی ریسرچر کے کسی مقالے کا کوئی حصہ کبھی کسی
نصاب میں شامل ہوا۔ کبھی ملکی سطح پر ان کی ریسرچ سے کوئی فائدہ اٹھایا
گیا۔کوئی انڈسٹری ان کے کسی نئے کام سے فیض یاب ہوئی۔ ہاں ابتلا کے اس دور
میں شاندار سینیٹائزر کی بوتلیں ہمارے سائنسدانوں کی کل کارکردگی تھی اور
باقی سب باتیں۔ ایسی ریسرچ کی تشہیر کرتے انہیں شرم بھی نہیں آتی۔یہ لوگ
صرف نقل کر سکتے ہیں۔ان کی عقل بھی وقف نقل ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حال ہی میں بی ایس پاس طلبا کو بغیر ایم فل کئے پی
ایچ ڈی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ میں خوش ہوں یہ ایک اچھا فیصلہ اورشاید
مقافات عمل ہے۔ پی ایچ ڈی مافیہ نے جس طرح اچھے ٹیچروں کو ختم کیا تھا اب
خود اپنی نالائقی کے ہاتھوں انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ایم فل میں ریسرچ کے نام
پر جو تھوڑا بہت فراڈ نما پڑھایا جاتا ہے، وہ ختم ہوبھی جائے تو طلبا کی
علمیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ کالجز میں پڑھنے والے طلبا اس سے ضرور
استفادہ حاصل کریں گے اس لئے کہ کالجوں میں آج بھی بہترین استاد موجود ہیں
اور وہ چار سال میں طلبا کو مکمل علمیت دیتے اور بہترین تیار کرتے ہیں جب
کہ ان کے مقابلے میں یونیورسٹیوں کے طالب علم علمیت میں بہت پیچھے ہوتے ہیں۔
ریسرچرز نے گریڈوں کے چکر نے یونیورسٹیوں کو تباہ کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت کے بارے میرے جیسے عام لوگوں کا خیال تھا کہ تعلیم کی بہتری
کے لئے کچھ اچھے اقدام کرے گی۔ مگر اس نے تعلیم میں جو تھوڑا بہت میرٹ تھا
وہ بھی ختم کر دیا ہے۔ نا اہل ترین لوگ وائس چانسلر لگائے جا رہے ہیں جو
وزیروں کو خوش کرنے کے سوا کچھ جانتے ہی نہیں۔وزیر انہیں اپنے مفادات کے
لئے استعمال کرتے اور یہ ہوتے ہیں۔کبھی تتحقیق ہوئی تو بڑے بڑے پارساؤں کی
قلعی کھل جائے گی۔ہمارے موجودہ وفاقی وزیر تعلیم پرانے بیوروکریٹ ہونے کی
وجہ سے ڈرافٹ وغیرہ تو شاید اچھا لکھ سکتے ہو گے مگر تعلیم میں اصلاح کے
لئے تعلیمی نظام کو ہر سطح تک جاننا اورانتہائی سمجھدار اور فہم و فراست کا
مالک ہونا ضروری ہے جس سے وزیر تعلیم سمیت موجودہ حکومت کے تمام ذمہ داران
محروم ہیں۔ شاید حکومت خود بھی کسی بڑی تبدیلی کے حق میں نہیں۔
بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کے لئے64 ارب کی رقم رکھی گئی ہے ۔ اس رقم کا بہت
بڑا حصہ ہائر ایجوکیشن کمیشن خود ہڑپ کر جائے گا۔وہاں موجود سفید ہاتھی کام
کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، اپنا حصہ تو وصول کریں گے۔ یونیورسٹیاں اپنا
جائز حق وصول نہیں کر پائیں گی۔حکومت اگر تعلیم کے معاملے میں کچھ سنجیدہ
ہے تو میری رائے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو فوراً ختم کر دے۔ یونیورسٹیوں
میں لیکچرر کے لئے بھرتی پر کم از کم تین سال کا تجربہ لازم قرار دیا
جائے۔صرف ریسرچ پیپر پر پروموشن کا مزاق ختم کیا جائے۔ استاد کا بھرم اس کے
طلبا سے ہوتا ہے۔ ہر سیمسٹر کے خاتمے پر استاد کے بارے ایک مربوط رپورٹ
مرتب کی جائے جس میں طلبا کی رائے بھی شامل ہوتاکہ استاد کی صحیح کارکردگی
کا اندازہ ہو۔استاد کی پروموشن میں ریسرچ سے زیادہ ان رپورٹوں کو اہمیت دی
جائے۔ اگلے گریڈوں میں براہ راست بھرتی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔بڑی
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اسی یونیورسٹی کے سینئر ترین لوگوں کا حق ہونا
چائیے، انہیں موقع دیا جائے۔ دوسرے سینئر موسٹ کو پرو وائس چانسلر لگایا
جائے ۔ آج کل زیادہ تر یونیورسٹیوں میں پرو وائس چانسلر لگایا ہی نہیں جاتا
اور اگر لگایا جائے تو وائس چانسلر کی پسند پر کسی جونیئر کو لگا دیا جاتا
ہے جو پرو وی سی سے زیادہ وی سی کا پرائیویٹ سیکرٹری محسوس ہوتا ہے۔ان
دونوں پوسٹوں کی سلیکشن ہر سیاسی دباؤ سے آزاد ہونی چائیے۔ کوئی وائس
چانسلر جو کسی بھی یو نیورسٹی میں ایک مدت پوری کر لے اسے کسی صورت کسی بھی
یونیورسٹی میں دوبارہ مدت کے لئے تعینات نہ کیا جائے۔یونیورسٹیاں آزاد ہوں
اور ان کا اپنا ایک احتساب کا نظام ہو اور وہ کام چور لوگوں کو فارغ کر
سکیں۔امپورٹڈ وائس چانسلرز کا سلسلہ مکمل بند کیا جائے ۔ ایک تو باہر سے
آنے والا یہاں کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہوتا، دوسرا سب کو معلوم ہے کہ
وہ کسی خاص حوالے سے آیا ہوتا ہے اور خوامخواہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا
جاتا ہے۔اس پر غیر ضروری مراعات کی بارش کی جاتی ہے۔جب کہ خقیقت میں وہ
ہمیشہ نالائق ثابت ہوتا ہے۔پی ایچ ڈی حضرات کو کم سے کم انتظامی پوسٹوں پر
تعینات کیا جائے کیونکہ اس تعیناتی کے کے بعد وہ ریسرچ کرنے کی پوزیشن میں
نہیں ہوتے۔اگر ان کا کام ریسرچ ہے تو ان سے ریسرچ کروائیں۔
|