من حیث القوم کیا ہمیں ادراک ہے کہ دراصل ہمارا شعار کیا
ہونا چاہیے ، ہمارا قومی مقصد کیا ہے، کیا ہم میں سے اکژیت اس سوال کا جواب
جانتی ہے؟ یا پھر اپنی ذات کی ہی مقصدیت کے بارے میں ہمیں کچھ آگہی ہے؟
جواب سب کے پاس ہو گا مگر کیا اس جواب سے اس سوال کی تشفی ہو سکتی ہے جواب
ہم سبھی جانتے ہیں شاید کبھی مان بھی سکیں۔
اس کی وجوہات کیا ہیں شعور دینے والے جب خود ہی با شعور نہ رہیں یا فقط
اپنی ترجیحات کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگ جائیں تو
ایسا ہی ہوتا ہے، انسانی شعور کی پرورش کے اہم ترین عناصر ماں کی گود ،
معلم، منبر ہوتے ہیں اور آج کے دور میں ان میں ایک عنصر میڈیا کا اضافہ ہوا
ہے۔
مادر: لفظ مادر ویسے تو صرف ماں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر یہاں اس سے
مراد والدین سے ہے، والدین ایک انسان کی شعوری زندگی کی ابتدائی سیڑھی ہوتے
ہیں، میرے لاشعور میں آج بھی میری والدہ محترمہ کا ایک جملہ گونجتا ہے جو
کہ اکثر ایک لوری کی صورت میں میرے بچپن میں سناتی تھیں “میرا بیٹا خوب
محنت کرے گا بہت سارا پڑھے گا ایک بہت اچھا انسان بنے گا اپنے ماں باپ اور
ملک کا نام روشن کرے گا“ مگر آج کے دور میں یہ لوری تبدیل ہو کے کچھ اس طرح
سے ہو چکی ہے الفاظ چاہے جو بھی ہوں ان کا لب لباب صرف یہ ہوتا ہے کہ “
میرا بیٹا خوب پیسے کمائے کر ایک بڑا آدمی بنے گا“ دل پر ھاتھ رکھ کر سوچئے
گا کیا والدین کی ساری باتیں اسکول سے لے کر کیرئر کے چنائو اور اس کا بعد
عملی زندگی میں بھی اس ہی جملے کا احاطہ نہیں کرتی ہیں کہ آپ کی عزت زندگی
مستقبل صرف مادیت پرستی سے وابستہ ہیں خیر یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
معلم : انسان کے شعور کا ارتقاء سب سے زیادہ جس ہستی کا محتاج ہے وہ معلم
ہے، جن کا رتبہ بلا شبہ ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے، یہاں بھی سب کچھ تبدیل
ہو گیا ہے اب معلم کا کام آپ کے شعور کو بڑھانے کے بجائے صرف یہ رہ گیا ہے
کی وہ آپ کو بھیڑ میں چلنے اور اپنی ذاتی بقاء کے راستے سمجھائے اور یہ
سکھائے کے دوسروں کو درخور اعتناء کرتے ہوئے اپنی بقاء کی جنگ کیسے لڑی
جاتی ہے میری اس بات پر اعتراض کرنے والوں کی بات سر آنکھوں پر مگر میں ان
سے صرف ایک بات کا جواب چاہوں گا کہ کنڈر گارٹن سے لے کر پی ایچ ڈی تک کہیں
بھی شخصی، گروہی یا پیشہ ورانہ اخلاقیات کی کوئی ایسی کتاب نصاب میں شامل
ہے جس سے آپ یہ جان سکیں کے اچھائی اور برائی کیا ہے اب اگر کوئی وکیل گناہ
گار کو بچاتا ہے یا بے گناہ کو سزا دلواتا ہے تو اس کو سکھایا ہی یہ گیا ہے
کہ اپنی بقاء سب سے زیادہ ضروری ہے اسی طرح کی مثالیں آپ کو زندگی کے ہر
شعبے میں ملیں گی فقط غور کرنے کی ضرورت ہے۔
منبر : دنیا کے بڑے انقلاب اسی منبر نے برپا کیے ہیں مگر یہ تب تک ہی رہا
جب تک اس کی حرمت کی حفاظت ہوتی رہی آج بھی بلا شبہ اس کی عزت و حرمت کے
لئے لوگ کوشاں ہیں مگر ان کی کوششوں پر وہ لوگ پانی پھیر دیتے ہیں جنہوں نے
اس ایک منبر کو سیکڑوں حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر ایک حصہ باقی حصوں کے
نشانے پر ہے اس وجہ سے منبر کے اصل وارثین کا تعین ہی نہیں ہو پاتا جب تک
یہ طے نہیں ہو سکے گا اصل مقصد تب تک پس پشت رہے گا، چند دیوانے کہاں تک اس
لڑائی کو روک پائیں گے جب کے ان کی بات کو سب سراہتے ضرور ہیں مگر وراثت کی
لڑائی زیادہ ضروری ہے۔
میڈیا: دورِ جدید میں میڈیا نے انسانی شعور کو بہت تیزی سے بڑھانے میں
کلیدی کردار ادا کیا ہے، مگر اب کافی عرصے سے یہ اس مقام سے آگے بڑھنے کو
تیار نہیں دراصل انہیں اب آ کے اس بات کا ادراک ہوا کے “ آگہی عذاب ہے“ اور
ہم اپنے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر رہے ہیں پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک
میڈیا دونوں ہی جان گئے ہیں کہ ایک مسئلہ فقط تب تک مسئلہ ہے جب تک وہ بک
رہا ہے جیسے ہی اس کی قیمت میں کمی آجائے تو بناء توقف اس مسئلے کی طرف سے
لوگوں کی توجہ کیسے دوسرے مسئلے پر منتقل کرنی ہے جس کی مارکیٹ ویلیو ان کے
حساب سے بڑھ گئی ہوتی ہے، صبح سے رات تک مسائل کا رونا روتے رہنا اور ان کے
ماہرین سے بڑھ چڑھ کر اس مسئلے کی سنجیدگی کا بیان کروانا بس یہ واویلا
سننا اور پڑھنا ہمارے معاشرے کے لوگوں کا مقدر ہے اتنے بڑے ماہرین اور
میڈیا میں بیٹھے ہوئے عوام کے ہمدرد مسائل کا بارے میں تو جانتے ہیں ان کا
حل نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جب کے ارباب اختیار میں ان کے اثر و رسوخ
اور ان سے دوستیوں کے بارے میں یہ خود ہی بیان کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
میں آخر میں صرف ایک چھوٹا سا فارمولا بیان کرنا چاہوں گا
مادر، معلم، منبر،میڈیا = معاشرہ
اب ان عناصر کو سوچنا ہو گا کے ان کو کیسا معاشرہ بنانا ہے۔ اور معاشرہ فی
الحال سو رہا ہے کیونکہ یہ عناصر بھی شاید سو رہے ہیں۔
شیراز خان
جامعہ اردو(شعبہ ابلاغِ عامہ)
|