|
|
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں صرف عبادت کے لیے تو پیدا نہیں کیا
کیوں کہ عبادت کرنے کے لیے فرشتوں کی کمی نہ تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ
تعالیٰ نے انسان کے دل کو محبت کے جذبے سے روشناس کروایا- یہ محبت غیر
مشروط ہوتی ہے اور رنگ و نسل کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے اس محبت نے کبھی تو
صرف فرہاد کو ایک تیشہ سے نہر کھودنے پر لگا دیا تو کبھی ہیر اپنے رانجھےکے
لیے چوری بنا کر تپتی دھوپ میں اس کو کھانا دینے کے بہانے آنے لگی- ایسی ہی
محبت اللہ تعالیٰ نے لاہور کے مضافات کے رہائشی غلام حسین کے دل میں بھی
ڈال دی- |
|
غلام حسین پیشے کے اعتبار سے مصنوعی زیورات بنانے کا کام کرتے ہیں اور ان
کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو کہ سب شادی شدہ ہیں- ان کی گزشتہ چالیس
سال سے یہ روٹین ہے وہ ہوٹلوں سے بچا ہوا کھانا جمع کرتے ہیں اور اس کے بعد
اس کھانے میں دیسی گھی اور چینی شامل کر کے اس کی چوری بنا لیتے ہیں- |
|
|
|
انتہائی محبت کے ساتھ ان بے زبانوں کو چوری کھلانے کے حوالے سے غلام حسین
کا یہ کہنا ہے کہ وہ اس عمل سے حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس حکم
کی تکمیل کرتے ہیں کہ جانوروں کو دانہ ڈالا کرو یہ ثواب کا باعث ہوتا ہے ۔
غلام حسین صاحب کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ہر روز یہ عمل فجر کے
بعد شروع کرتے ہیں اور دو گھنٹوں میں مکمل کرلیتے ہیں- |
|
ان کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ فجر کے وقت ان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ
ان کو جگایا جا رہا ہے کہ وہ اٹھ کر بے زبانوں میں لنگر تقسیم کریں جو کہ
ان کے منتظر ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد اللہ
تعالیٰ یہ ذمہ داری کسی اور اللہ کے بندے کے سپرد کر دے گا جو کہ ان بے
زبانوں کو کھانا پہنچائيں گے - |
|
|
|
غلام حسین کے روزانہ کھانا دینے کے سبب اردگرد کے جانور ان سے اتنے مانوس
ہو چکے ہیں کہ جیسے ہی غلام حسین گھر سے نکلتے ہیں اردگرد کے گلیوں کے
جانور ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور جب وہ مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں تو
باہر کھڑے ہو کر ان کی واپسی کا انتظار کرتے ہیں- |
|
غلام حسین بھی ان جانوروں سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں اور جب کبھی انہیں ہوٹل
سے ان کے لیے کھانا نہیں مل سکتا تو وہ ان کے لیے گھر میں ہی پراٹھا بنا کر
اس کی چوری بنا لیتے ہیں اور ان جانوروں کو کھلاتے ہیں- |