انسان چاند تک پہنچ گیا ،بڑے بڑے ایٹم بم بنا لیے۔ ہر طرح
کی مرض کا علاج بھی ڈھونڈ نکالا مگر لفظوں کی کاٹ کا علاج ابھی تک دریافت
نہ کر سکا۔ ہم انسانوں کا زہر ہمارے لفظوں میں ہی ہوتا ہے اور جب ہم نے کسی
کو اذیت دینی ہوتی ہے تو لفظوں کے ایسے کاری وار کرتے ہیں کہ اگلا صدیوں تک
اُس درد سے باہر نہیں آ پاتا۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم نے جب زبان سے کچھ بولنا ہی ہوتا ہے تو کچھ اچھا
کیوں نہیں بولتے۔ ہمیشہ طنز طعنے ہی کیوں مارتے ہیں۔
الفاظ کا چُناؤ ہی ہماری طبیعت اور تربیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ جس مسلمان کو
اچھے اخلاق کی ترغیب دی گئی ہے نجانے اُسی مسلمان نے کیوں زبان کے ساتھ
نفرت ،غیبت اور طنز کے سانپ پال لیے ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی کو ڈستے رہتے
ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ الفاظ کے اچھے چُناؤ میں ہی اِس دُنیا کی کامیابی کا راز
پنہاں ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک فقیر کسی سڑک کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا
اور اُس کے ساتھ ایک بورڈ رکھا ہوا تھا جس پہ لکھا تھا کہ میں اندھا ہوں
مجھے چندے کی ضرورت ہے۔ پاس سے گزرنے والے لوگوں میں سے کوئی دے دیتا تھا
اور زیادہ تر کچھ دئیے بِنا ہی گزر جاتے تھے۔
وہاں سے کسی گزرنے والے نے جب یہ بورڈ دیکھا تو اُس نے بورڈ اُٹھا کے وہ
لکھے ہوئے حروف مِٹا کے کچھ اور لکھ کے بورڈ کو واپس اُسی جگہ پہ رکھ دیا۔۔۔
اب ہر وہ مردوزَن جس کی نظر بورڈ پہ پڑتی تھی وہ لازماً کچھ نہ کچھ دے کے
ہی اگے بڑھتا۔
پتہ ہے اُس انسان نے کیا کیا تھا؟ اُس نے صرف الفاظ کا بہترین چُناؤ کیا
تھا اور اُن الفاظ کو اُسی بورڈ پہ لکھ دیا تھا۔
”آج کتنا پیارا موسم ہے مگر افسوس میں اِس موسم کو دیکھنےسے قاصر ہوں۔“
ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی اگر الفاظ کا چُناؤ صحیح طرح سے استعمال
کرنا شروع کر دیں تو ہر طرف محبت ہی محبت پروان چڑنے لگ جائے گی۔ سب کے
دِلوں میں عزت بڑھے گی۔ سب ایک دوسرے کی عزت کرنے لگ جائیں گے۔
چلو آؤ کی آج وعدہ کریں کہ آج سے ابھی سے ہم اپنے الفاظ کا چُناؤ اچھے سے
اچھا اور بہتر سے بہترین کریں گے اور خیال کریں گے کہ آج کے بعد میرے بولے
گے الفاظ کسی کو بھی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔
بدتمیز اور اچھے اخلاق میں فرق صرف الفاظ کا چُناؤ ہی ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑی بات ایسا کرنے سے ثواب الگ سے ملے گا۔ سو محبتیں بانٹیں۔
جئیں اور جینےدیں۔
واسلام
شکریہ
|