حدیث مبارک ہے ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا
دروازہ ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ باپ دھوپ میں اور ماں چولہے پر جلتی
ہے تو اولاد پلتی ہے ۔فادر ڈے تو سال میں ایک با ر ہی آتا ہے لیکن ماں اور
باپ سے محبت کا سرچشمہ میرے دل میں ہمیشہ بہتا ہے ۔شاید ہی کوئی دن ایسا ہو
گا جب خواب میں والدین سے ملاقات نہ ہوتی ہو ۔یہ بات واقعی حیرت کی ہے میرا
کوئی عزیز لاہور اور کوئی قصور ،کوئی ملتان اور کوئی ساہی وال میں دفن ہے
لیکن تمام عزیز اکثر خواب میں اکٹھے ہی نظر آتے ہیں ۔اس میں کیا حکمت ہے یہ
تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے لیکن مجھے تو یہ پتہ ہے میرے والدین جسمانی طورپر
دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود مجھ سے دور نہیں ہوئے ۔ماں سے محبت کا دعوی تو
ہر کوئی کرتا ہے لیکن باپ چونکہ تھوڑا سخت مزاج ہوتا ہے اس لیے بچوں کی
محبت کا رخ عموماماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے ۔شاید میرا شمار ان لوگوں میں
ہوتا ہے جو جتنا پیا ر ماں کو کرتے ہیں اس سے دوگنی محبت باپ سے کرتے ہیں
۔محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کی یہ بات مجھے نہیں
بھولتی کہ ہمیں کسی بات پر جب ماں ڈانٹتی تو ہم باپ کی آغوش میں پناہ لیتے
تھے۔میرا بھی کچھ یہی حال تھا اس کے باوجود میرے والد بہت سخت مزاج کے مالک
تھے جب کبھی شام ڈھلے ہمیں لالٹین کی روشنی میں پڑھانے بیٹھتے تو غلطی ہوتے
ہی ان کا بھاری بھرکم تھپڑ پٹاک سے میرے گال پر رسید ہو جاتا۔میں تو رو کر
جان چھڑا لیتا لیکن اس تھپڑ پر ماں اور باپ کی جنگ شروع ہو جاتی ۔اگلی صبح
جب میں گھر میں موجود چھوٹے سے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتا تو والد کے ہاتھ
کی انگلیوں کے نشان میرے گال پر نمایاں نظر آتے ۔میری ناراضگی کو دور کرنے
کے لیے والد صاحب مجھے ساتھ لے کر مٹھائی کی دکان پر پہنچ جاتے اور چار آنے
کی برفی لے کر مجھے کھانے کے لیے دے دیتے ۔ انہیں علم تھا کہ برفی مجھے بے
حد پسند ہے اس لیے تھپڑ کی قیمت چار آنے کی برفی ہی ہوتی ۔والد سے محبت کا
عالم یہ تھا کہ مجھے ان کے بغیر نیند بھی نہیں آتی تھی ۔ایک مرتبہ وہ لاہور
ڈاکٹری کے لیے چلے گئے ۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان ریلوے جتنا بھی رننگ
سٹاف ہے ان کا سال میں ایک بار آنکھوں کا معائنہ ہوتا ہے۔ ایک ڈارک روم میں
بٹھا کر آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر نظر کی حد کو چیک کرتا ہے ، اس معائنہ میں پاس
ہونے کے لیے غریب ریلوے ملازمین اپنی محدود ماہانہ تنخواہ سے رشوت بھی دیا
کرتے تھے ۔رشوت کے بغیر ریلوے میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔حتی کہ حکومت کے اعلان
کردہ پنشن کے پیسے بھی صرف اس بیوہ کو ملتے ہیں جو اضافے کے برابر متعلقہ
کلرک کو رشوت دیتی ہے۔بہرکیف والد صبح کی گاڑی میں لاہور روانہ ہوتے اور
شام سات بجے والی گاڑی پر واپس بھی آ جاتے ۔ میں والد کے انتظار میں ریلوے
اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آکر بیٹھ جاتا اگر کبھی والدکو لاہور میں مزید
معائنے کے لیے روک لیا جاتا تو میں ساری رات جاگ کر گزارتا۔والد جب لاہور
سے واپس آتے تو میرے لیے رسوں سے بھرا ہو لفافہ لاتے ۔دیہاتی بچے کے لیے
لاہوری رسوں کا تحفہ واقعی ایک انعام بنتا۔یہ بھی بتاتا چلوں میں کچی پکی
پہلی دوجی ، تیجی اور چوتھی جماعت تک تعلیم واں رادھا رام (حبیب آباد) کے
پرائمری سکول میں حاصل کی ہے۔اس وقت پہلی تین جماعتوں کا امتحان ماسٹر صاحب
زبانی لیاکرتے تھے۔مجھے ایک عجیب مسئلہ تھا جب والد میرے سامنے موجود ہوتے
تو مجھے یاد کیے جانے والے سوال اور پہاڑے ازبر ہوتے ۔ٹیچر کے حکم پر میں
فرفر سنا دیتا اور اسی وقت پاس بھی ہوجاتا ۔اس طرح میں کچی پکی پہلی دوجی
کا امتحان پاس کرتا چلا گیا جب تیسری جماعت کے امتحان کا دن آیا تووالد
صاحب ڈیوٹی پر ہونے کی بنا پر سکول کی کچی دیوار کے اس پار کھڑے نہ ہوسکے
اور مجھے تلاش کے باوجود ان کا چہرہ نظر نہ آیا ۔استاد نے امتحان لینا شروع
کردیا استاد جو پوچھتا، میں سوال سن کر خاموش ہوجاتا۔ نتیجا میں فیل ہو
گیا۔جب مونہہ لٹکائے گھر پہنچا تو شام کو والد صاحب بھی ڈیوٹی ختم کرکے گھر
پہنچ گئے تھے انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا میرا بیٹا پاس ہو گیا ہے نا۔ میں
نے مونہہ لٹکا کے کہا نہیں ابا جی ٹیچر نے مجھے فیل کردیا ہے،اس پر والد
صاحب کو بہت غصہ آیا ۔دوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ لے کرسکول جا پہنچے اور
ہیڈماسٹر ابراہیم صاحب سے کہا میرا بیٹا فیل نہیں ہوسکتا آپ اس کا امتحان
میرے سامنے لیں ۔ٹیچر نے یہ کہتے ہوئے امتحان لینے سے انکار کردیا کہ اب
دوبارہ امتحان نہیں لیا جاسکتا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب میرے والد کے دوست تھے وہ
بولے یہ کونسا ایل ایل بی کا امتحان ہے جو دوبارہ نہیں ہوسکتا۔آپ ابھی
ہمارے سامنے امتحان لیں ۔ ہیڈ ماسٹر کے حکم پرٹیچر نے مجھ سے سوال کرنے
شروع کردیئے ۔میں والد صاحب کا چہرہ دیکھتا اورسوال کا جواب دے دیتا ۔اس
طرح میں بہترین نمبر لے کر پاس ہو گیا۔ہیڈماسٹر اور ٹیچر دونوں سر پکڑ کے
بیٹھ گئے اور کہنے لگے یہ بچہ اپنے باپ کو اتنی محبت کرتا ہے ، یہ باپ کے
بغیر زندگی کیسے گزارے گا۔ہیڈماسٹر صاحب کے یہ الفاظ میرے کانوں میں آج بھی
گونجتے ہیں ۔لیکن باپ سے میری محبت کسی بھی لمحے کم نہیں ہوئی وہ جب تک
زندہ تھے ہر قدم پر میں ان کا سایہ بن کررہتا تھا۔26سال پہلے جب اس دنیا سے
رخصت ہوئے تو میرا ان سے رابطہ اب بھی خواب کے ذریعے قائم ہے ۔مرنے کے بعد
نہ وہ مجھے بھولے اور نہ میں ہی انہیں فراموش کرسکا۔میں سونے کے لیے آنکھ
بند کرتا ہو تو ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں ، نیند سے بیدار ہوتا ہو ں تو اس
دنیا میں اپنے بیوی بچوں کے پاس آجاتا ہوں۔اُس دنیا اور اِس دنیا میں زیادہ
فاصلہ نہیں ہے ۔مجھے یقین ہے میں جب اس دنیا سے رخصت ہونگا تو میں اپنے ماں
باپ کے پاس پہنچ جاؤں گا۔جو یقینا میرا انتظا رکررہے ہو ں گے۔
کون کہتا ہے کہ میں مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا |