اولاد کی بہترین پرورش ، ان کی راحت ، ترقی و کامیابی کے
لئے ہمہ وقت کوششوں، کاوشوں اور مشقتوں میں مصروف والد، اولاد کے لیے سب سے
زیادہ مخلص رشتہ ہوتا ہے۔جو کہ اپنے عملی تجربات اور معاشی و معاشرتی نشیب
و فراز سے اپنی اولاد کو آگاہ کرتا ہے ۔ دنیا کا ہر والد چاہے وہ معاشی طور
پر کمزور ہی کیوں نہ ہو، اپنی اولاد کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر امیر بننے
کی جان توڑ کوشش کرتا ہے ،وہ اپنے بچوں کی ہر جائز خواہش پوری کرنے کے لیے
ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے اسے پہاڑوں کاسینہ
چیرنا پڑے یا دریاؤں کا رخ موڑنا پڑے ، وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں
ہچکچاتا، نہ کسی صلے کی پرواہ، نہ کسی انعام کا لالچ، ہاں لالچ ہے تو اپنے
بچے کی ایک مسکان کا، بچے کی ایک قلقاری کا جو اس کی دن بھر کی تھکن اتار
دیتی ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ
میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور
معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکے۔ ہمارے مذہب اسلام میں
باپ کوبڑارتبہ حاصل ہے جبکہ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اﷲ تعالیٰ
کی ناراضگی اور باپ کی خوشنودگی کو ربّ تعالیٰ کی خوشنودگی قراردیا گیا ہے۔
قرآن پاک کے احکامات اور نبی کریم صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کے فرمودات کی
روشنی میں والدین ( یعنی دونوں) کی خدمت واطاعت کا حکم دیا گیاہے۔ اگر ماں
کی طرح باپ کی عظمت کا پاس رکھتے ہوئے اس کی اطاعت ،فرمان برداری ،خدمت
اورتعظیم کرکے رضاحاصل کی جائے تو اﷲ پاک کی طرف سے دین ودنیا دونوں کی
کامیابیاں ، سعادتیں اورجنت کی بیشمار نعمتیں نصیب ہوسکتی ہیں۔ باپ کی عظمت
کے بارے میں ایک قصہ عرض ہے کہ ایک بار ایک شخص نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔
اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے پوچھیں
کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں، اور اس کے کانوں نے بھی ان
کو نہیں سنا۔‘‘ جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ
اس کا مال چھین لیں ؟ والد نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ اسی
سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی ، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا
ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔ اس کے
بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے والد سے دریافت فرمایا وہ کلمات کیا ہیں
جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا ؟اس شخص نے
عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو بات کانوں نے بھی نہیں سنی اس کی
اطلاع آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہو گئی ۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے چند اشعار
دل میں پڑھے تھے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اشعار ہمیں بھی
بتاؤ۔ اس صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے دل میں یہ کہا تھا’’
میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ہر زمہ داری
اٹھائی تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش
آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ مگر
ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں نہیں مجھے لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے تمام شب
روتے ہوئے گزار دیتا۔ میرادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ
میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر
تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان
و انعام کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا
ہی کر لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا
حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا ’’انت و مالک لا بیک ‘‘
کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے‘‘(معارف القرآن )۔
قارئین کرام دیکھئے کہ اولاد کے ستائے باپ کے دل سے نکلے الفاظ کس طرح عرش
الٰہی تک پہنچے، اور رحمت الٰہی جوش میں آئی ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کویہ نعمت حاصل ہے
اوروہ ان کی خدمت واطاعت کررہاہے تو وہ بڑاسعادت مند اوراﷲ کا محبوب بندہ
ہے۔ قرآن پاک کے احکامات اور فرمودات رسول صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم میں جا
بجا والدین کی خدمت واطاعت کا حکم دیاگیا ہے۔اولادکی بہترین تعلیم وتربیت
کی غرض سے والد کا کردار ذرا سخت ہوتا ہے،جبکہ اس کے برعکس ماں کی حد سے
زیادہ نرمی اور لاڈ پیارسے اولاد نڈراور بے باک ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس
کی تعلیم ،تربیت اورکردار پربرا اثر پڑ سکتا ہے،جب کہ والد کی سختی،نگہداشت
اورآنکھوں کی تیزی سے اولاد کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں ملتا، شایدیہی
وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولادیہ نہیں
جانتی کہ اس کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام کرنے
کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل وعیال اور
اولادکو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کریا روکھی سوکھی کھاکرگزارہ کرتا ہے،
لیکن پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھاکھانا پینا، لباس ، تعلیم اور
تربیت میسرہو۔ اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور پیارے رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں، ان
کی رائے کو ترجیح دیں ، اور خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو
پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں۔
اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت ان کے لیے خاص کردیں، ان کی دل وجان سے
خدمت واطاعت کریں کیونکہ اولاد کی ترقی و کامیابی کے لیے باپ سے زیادہ مخلص
کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کے روپ میں |