کھوکھلے برتن کو کوئی نہیں پوچھتا، وہ بے ضرر رہ میں پڑا
رہتا ہے مستعمل ہونے کی چاہ اسکے اندر سے نکل جاتی ہے. ملامت دھیرے سے
یکجائی کی آرزو جگا دیتی ہے. الله سے مضبوط تعلق کے لئے انسان کا کھوکھلا
ہونا بہت ضروری ہے ، اور انسان کھوکھلا کب ہوتا ہے جب وہ ٹوٹتا ہے ریزہ
ریزہ ہوتا ہے ، پائی پائی قدم تلے جمی دیکھتا ہے، اور اسے نہ چھو سکتا ہے
نہ اسکے پار اتر سکتا ہے، جب سارے راستوں پر ملنے ، چلنے اور بھٹکنے کی
نوید و مسرت غائب ہو جاتی ہے، رنگ پھولوں سے الگ دکھائی دیتے ہیں، رات حسن
و مہتاب سے عاری نظر آتی ہے، تب ایک احساس جاگتا ہے!
الله موجود ہے ہاں موجود ہے...لیکن یہ دنیا جس بھیڑ چال میں دماغ کی آخری
نسوں تک بے چینی کو پہنچاتی ہے تو انسان اس ایک لمحے کے انتظار میں ہوتا ہے
کہ ایسا ہو جائے جو وہ چاہتا ہے، وہ مل جائے جو دل میں ہے وہ پاس ہو جو دور
ہے اور وہ راہ ہو جو ابھی تک راستے سے سامنے نہیں آئ، نگاہ کے رنگ آنسوؤں
سے ختم ہونے لگیں تو نہ دیکھنے والی سیاہ لائنیں چہرے پر پڑ جاتی ہیں. دل
کو گداز کرنے کا کوئی لمحہ موجود نہیں ہوتا. انسان بے بس ہو رہا ہے. اب اسے
ایک پیارا، خالص اور محبت میں مسکراتا احساس دکھائی دیتا ہے......الله...خالق
کائنات...مالک کن...رب فیکون...بس جب دنیا کے تمام پردے ایک ایک کر کے گرتے
ہیں تو اسکی محبت کی جھلک بڑی صاف اور واضح دکھائی دیتی ہے...
وہ جو حکمران ہے کبھی اپنی محبت دے کر روح کو سرشاری عطا کرتا ہے تو کبھھی
نفس کو آزمائش بنا کر سامنے لا کھڑا کرتا ہے. انسان کو غفوری کا راستہ
شرمندگی کے بعد ہی تو دکھائی دیتا ہے. ایسی خلش ایسی بے بسی کہ انسان سوچتا
رہ جائے. الله کو اس ناپاک چہرے سے ملوں گا. سے اس غلیظ وجود سے پکاروں گا...کیا
اسکا نام لینے کی ہمت ہے. کیا اس پراگندہ وجود کو اسکا احساس لائق ہے. کیا
یہ نہیں جچتا کہ اس زبان کو پہلے پاک کروں توپھر اسکا نام دوہراؤں. لیکن
کسی کے اختیار میں نئی زبان لانا کب ہے. کسی کے پاس کب اختیار ہے لیکن وہ
جو با اختیار ہے....کہتا ہے کہ میرا نام لے کر اپنی زبان کو پاک کر لو.
احسن طریق پر آ جاؤ کہ اپنے وجود کو اپنی ندامت کے آنسوؤں سے غسل دو!
اسکی مہربانی اور اپنی معصیت پر غور کر لو، اسکی محبت اور اپنی بے وفائی کا
حساب نکالو. اپنے وجود کو اسکی یاد، احساس اور احکام سے مہکا دو، ہاں یہی
ایک طریقہ ہے کہ اپنی غلطی اسکے سامنے رکھ دو اور اس سے فیصلہ نہیں...غفوری
مانگو...رحمت مانگو،اور جب اسکے سامنے حاضر ہونا تو اپنا وجود نہیں اسکی
ذات مانگ لینا...وہ جو دلوں کو روشن کرتا ہے اس سے ایمان کی ایک ہلکی سی
کرن مانگ لینا، کسی نیک کے قدموں کی خاک مانگ لینا، کہ نیکوں میں خواہ شمار
نہ ہو انکے غلاموں میں شمار مانگ لینا...اس سے اسکے حبیب کی محبت مانگ لینا...بس
وجود کو پاک کرنے میں اتنی سعی کرنا...اور پھر اپنا آپ اسکے حوالے کر کے
اسکی رحمت کے سامنے اپنی ندامت پیش کرتے رہنا...بادشاہ کو یہی تو پسند ہے...
تو تم میں تڑپ کے آنسو جاگ اٹھیں گے، تمہاری راتیں غموں سے آنسوؤں کی سبیل
لگا دیں گی، تمہیں کچھ یاد نہ ہوگا سوائے اسکے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے
تمہارے سامنے ہے، لیکن اسکے احساس کی تاب بھی کب لا سکو گے. نگاہ اٹھانے کی
ہمت کس میں ہوگی. وہاں بس آنسو ہوں گے، ٹوٹا وجود ہوگا، بکھرے دل کے ٹکڑے
ہوں گے، اور یہ سب ذرے تمہارے رب کے آگے تم پیش کر دو گے کہ تمہارے پاس اور
تو کچھ نہیں ہے...اور جان لو کہ وہ یہی ادھڑے بکھرے وجود کو بڑی مہارت سے
مرمت کرتا ہے. وہ ایک ایک ریشے کی جگہ جانتا ہے، بنانے والا ہی تو ایک ایک
پور جوڑنا جانتا ہے.!
پس خود کوشش نہ کرنا اپنا بکھرا وجود اسکے پاس لے جانا کہ خود کوشش میں لگ
جاؤ گے تو مزید بکھر جاؤ گے. الله نے اپنا آپ ہی تو اپنے بندے کو عطا کیا
ہے. جب دنیا و کائنات میں موجود ہر شے اپنے بندے کو عطا کی اور فرما دیا کہ
"میں تیرا رب ہوں"تو انسان کی تنہائی مٹ گئی. وہ پر باش ہو گیا...بس اسی
ایک کے پاس اپنا سب کچھ لے جانا لے جاتے رہنا کہ وہ ٹوٹے دل کو جوڑنا،
ادھڑے وجود کو سینا خوب جانتا ہے. جو اسکے پاس جاؤ گے تو امر ہو جاؤ گے اور
کسی اور کا ہونے کا سوچو گے تو اپنے بھی نہ رہو گے...دنیا جہاں دھتکارتی ہے
وہیں الله بندے کو اپنا بنا لیتا ہے....شر سے بچ جاؤ! نفس کو مار دو، اسکے
ہو جاؤ جسکا سب ہے.! |