۲۰۲۰ کا سورج شاید انسانیت سے ناراض ہوکر ابھرا تھا۔تبھی
تو دیکھتے دیکھتے اپنے اوائل ہی سے اس نے زندگی منجمد کرنا شروع کر دی۔دنیا
کے ایک کونے سے لے کر دوسرے تک اس نے آہستہ آہستہ زندگی قید میں دھکیل
دی۔ایک وقت آیا کہ محسوس ہونے لگا کہ زندگی رک سی گئی ہے۔سمندر کی لہریں
جیسے ساحل کو چھوڑ کر کہیں پاتال میں جا بسی ہیں۔ہوا کی سرگوشیاں اب زمین
تک پہنچنے سے پہلے خلا میں گم ہو جاتی ہیں۔بہار کے نام پہ نکلنے والے
پھولوں کے رنگ زندگی کی مانند ماند پڑ گئے ہیں۔خوشیاں انسان کی دنیا سے
بیزار ہو کر جانے کہاں جا بسی ہیں اور اب یہاں بس نت نئے غموں کا بسیرا
ہے۔خوف انسانی رگوں میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب بہتے خون کے ساتھ جسم
کے ہر حصے پہ اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔سانس لینا محال اور سانس اکھڑنا معمول
کا کھیل بن چکا ہے۔موت شتر بے مہار کی طرح ہر سر پہ منڈلا رہی ہے۔قدرت
انسان کی رسی دراز کیے اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔آفتوں کو جیسے بہار کا
استعارہ مل گیا ہے کہ ایک آفت مکمل کھلتی نہیں کہ پیچھے قطار میں کھڑی کئ
آفتیں کونپلوں کی مانند پھوٹ پڑتی ہیں۔اس سب میں کوئی بھلائی کی امید اگر
کر بھی لی جائے تو وہ شیخی بگھارنے کے مترداف لگتا ہے۔یہی جو دنیا کے
ٹھیکدار اور خود کو دیوتاؤں کا خالق سمجھتے تھے شاید خالقِ حقیقی کے نرغے
میں ہیں۔
اب حق کے سوداگر بھی بیوپار کرتے نظر نہیں آتے۔خدائی مسیحا بھی شاید ہماری
اس دنیا کا راستہ بھٹک گئے ہیں۔ان سب پر المیہ یہ کہ انسانوں میں انسانیت
ناپید ہو چلی ہے۔زندگی وقت کی قید میں ہے اور دنیا قیامتِ صغریٰ کا منظر
پیش کر رہی ہے۔اچھائی کی امید بر آتی نظر نہیں آتی۔مگر تاریخ کے اوراق
پلٹوں تو سمجھ میں آتی ہے پہلے بھی کئی بار ایسی قیامتیں آئیں اور خدا نے
اس دنیا کو پلٹ کر نئی دنیا بسائی۔شاید اب بھی قدرت یہی کر رہی ہے، اور میں
اس بات پہ خوش ہوں کہ میں خدا کی اس دنیا کو پلٹتے ہوئے دیکھ رہی ہوں بس
خواہش یہ ہے کہ وقت کی یہ قید زندگی کے حقیقی معنی اور زندگی میں موجود
لوگوں کی اہمیت سمجھا جائے۔
|