پاکستان میں کمرشل پائلٹ کیسے تیار ہوتے ہیں اور انہیں لائسنس کیسے ملتا ہے؟

image
 
گزشتہ چند روز سے پاکستان میں پائلٹس کے جعلی ہونے کے حوالے سے کافی شور سنا جارہا ہے اور اس وقت کئی پائلٹس کے لائسنس اسی بنا پر منسوخ بھی کر دیے گئے ہیں- اب اس تنازعے کی گونج بین الاقوامی سطح پر بھی سنی جارہی ہے-
 
تاہم ہم اس خبر کی تفصیل میں جانے کے بجائے آپ کو یہ بتائیں گے کہ پاکستان میں کمرشل پائلٹس کیسے بنتے ہیں اور جہاز اڑانے کا لائسنس کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟
 
پائلٹ کو ہوائی جہاز اڑانے کے لیے تین قسم کے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے- سب سے پہلا لائسنس ایس پی ایل یعنی اسٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس کہلاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کو جہاز اڑانے کی اجازت ہے- دوسرا پی پی ایل یعنی پرائیوٹ پائلٹ لائسنس ہوتا ہے جو 40 گھنٹے جہاز اڑانے کے بعد ملتا ہے اور تیسرا سی پی ایل یعنی کمرشل پائلٹ لائسنس ہوتا ہے جو 110 گھنٹے کی پرواز کے بعد ملتا ہے-
 
لیکن یہ لائسنس ملتے کیسے ہیں اس کے پیچھے ایک طویل داستان یا تیاری ہوتی ہے- اس کے لیے آپ کی تعلیم کم سے کم انٹرمیڈیٹ ہونی چاہیے- آپ کو اپنی تعلیمی اسناد آئی بی سی سی سے تصدیق کروانی ہوتی ہیں اور یہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی پالیسی ہے-
 
image
 
اس کے علاوہ آپ کی عمر کم از کم 18 سال ہونی چاہیے اور آپ کا قومی شناختی کارڈ بھی ہونا چاہیے- کمرشل پائلٹ بننے اور اس کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے تقریباً 20 اقسام کے میڈیکل ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتے ہیں-
 
ان میں نظر کا ٹیسٹ، کانوں اور گلے کا ٹیسٹ، آپ کا ای سی جی اور ایکو، آپ کے سینے کا ایکسرے، شوگر کا ٹیسٹ، پیشاب کا ٹیسٹ اور بھی کئی خاص میڈیکل ٹیسٹ شامل ہیں- ان میڈیکل ٹیسٹ پر 30 سے 35 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں اور یہ ٹیسٹ سی ایم ایچ ہاسپٹل سے کروانا لازمی ہوتے ہیں-
 
آپ کی بینائی 6 بائے 6 ہونی چاہیے چاہے چشمہ لگاتے ہیں یا نہیں- اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ جہاز اڑاتے ہوئے چشمہ ضرور لگانا ہوتا ہے- اس کے علاوہ آپ کا وزن آپ کے قد کے مطابق ہونا چاہیے- اگر آپ کا وزن تھوڑا بہت اضافی ہے تو میڈیکل سرٹیفیکیٹ پھر بھی جاری کر دیا جاتا ہے لیکن ساتھ وزن کم کرنے کی تنبیہ سرٹیفیکیٹ کے اوپر مہر کے ساتھ کی جاتی ہے-
 
اس کے بعد آپ کو سیکورٹی کلیرنس بھی درکار ہوتی ہے- اس کے لیے آئی بی اور متعلقہ پولیس اسٹیشن آپ کی جانچ کرتے ہیں اور آپ کے خاندانی پسِ منظر کی بھی جانچ کی جاتی ہے-
 
image
 
ان سب کے بعد آپ کا فلائنگ کلب آپ کے لیے سول ایویشن کی جانب سے ایک اسٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس (ایس پی ایل) جاری کرواتا ہے- جس کے بعد آپ جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کرنا شروع کرتے ہیں-
 
لیکن اب بھاری مالی اخراجات کی شروعات بھی ہوتی ہے- اس کے لیے آپ کو 45 سے 50 لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں- درحقیقت تربیت کے دوران پائلٹ کو فلائنگ کے لیے فی گھنٹہ پرواز پر رقم جمع کروانی ہوتی ہے جو کہ فیول کی مد میں وصول کی جاتی ہے- جیسے کہ صرف لاہور میں فلائی کی فیس کم سے کم 20 سے 22 ہزار روپے فی گھنٹہ ہوتی ہے- 50 لاکھ روپے کی رقم میں آپ کی امتحانی فیس اور آپ کے میڈیکل ٹیسٹ پر آنے والے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں- واضح رہے کہ ہر سال میڈیکل ٹیسٹ دوبارہ کروانے ہوتے ہیں- البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ تمام فیسیں آپ چاہیں تو مختلف اقساط میں بھی ادا کرسکتے ہیں-
 
تربیت کے دوران آپ کے 14 مضامین کا مطالعہ بھی کرنا ہوتا ہے جس میں بائیولوجی، موسم پر مضمون، کئی قسم کی کمیونیکیشن پر مبنی مضامین اور وزن اور توازن سے متعلق مضمون بھی شامل ہے- اس کے بعد آپ کو 15 قسم کے امتحانات بھی دینے ہوتے ہیں-
 
آخر میں جب آپ تمام امتحانات پاس کر لیتے ہیں اور فلائنگ کلب سے اپنے فلائنگ اوورز بھی مکمل کرلیتے ہیں تب آپ کو کمرشل پائلٹ کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: