ہمارے معاشرے میں تنگ نظری اور بے انصافی کی ایک بڑی وجہ
کم علمی بھی ہے - ہم کسی بات کا ایک ہی پہلو یا ایک ہی معنی جو ہمارے ذھنوں
میں رچا بسا ہوتا ہے وہی مطلب سمجھ بیٹھتے ہیں--اور غور ہی نہیں کرتے کسی
لفظ کے دو یا زائد معانی بھی ہو سکتے ہیں یا کسی تصویر کا دوسرا رخ بھی ہو
سکتا ہے
وٹس ایپ گروپس میں کچھ تحریرات پڑھنے کا اتفاق ہوا-جن میں لکھا تھا
1--مذھب سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رھ جاتی ہے
2-مسلمانوں کے زوال کی وجہ عبادات میں کمی نہیں بلکہ دنیاوی معاملات میں بے
ایمانی اور اسلام کو عبادات تک محدود کرنا ہے
3-عبادت اس مقام تک نہیں پہنچا سکتی جہاں غریب کی خدمت پہنچا دیتی ہے
اوپر والی تحریرات پڑھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ لوگ عبادت کے اصل معنی اور
مفہوم سے آگاہ ہی نہیں اور عبادت کے صرف ایک ہی معنی (یعنی نماز) سمجھ
بیٹھتے ہیں--اور اسطرح عبادت جیسے مقدس لفظ کو سمجھنے میں سخت غلطی کھاتے
ہیں
اوپر درج کردہ تحریرات عبادت کے صرف ایک معنی نماز کو ہی سمجھ کر لکھی گئی
ہیں --اور پڑھنے والے بھی عبادت کا لفظ آتے ہی صرف نماز کو ہی عبادت سمجھ
بیٹھتے ہیں جو ہر گز درست نہیں ہے
ایک علمی شخص جو عبادت کے معنی جانتا ہو گا وہ یقینا اوپر والی باتوں کا رد
کرے گا-اور جان لے گا کہ یہ باتیں محض جذباتی اور خدمت انسانیت کے علمبردار
کم علم لوگوں نے خود ہی گھڑ لی ہیں
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے معنی و مفہوم نہ جاننے کی وجہ سے ہی کم علم لوگ
ایسی باتیں یا تحریرات پوسٹ یا آگے شیئر کرتے جاتے ہیں
1--عبادت کے معنی
عبادت کے معنی عبودیت اختیار کرنے کے ہیں یعنی بندگی اختیار کرنا-- یعنی
اللہ کی بندگی اللہ کی غلامی اختیار کرنا
اور اللہ کی بندگی اور غلامی اختیار کرنا اسی کا نام عبادت ہے
سادہ لفظوں میں اللہ تعالی کے تمام احکامات کی بجا آوری عبادت کہلائے گی
نماز تو اللہ کا ایک حکم ہے باقی احکامات کو ماننا بھی عبادت میں ہی شامل
ہوگا
2--عبادت کے اندر ہی خدمت آجاتی ہے
اب اللہ تعالی نے نماز روزہ کے علاوہ انسانوں سے بہتر سلوک --اور غریبوں
اور کمزوروں سے نیز ہمسائیوں اور بیوی بچوں سے حسن سلوک کا بھی قرآن پاک
میں بار بار حکم دیا ہے
ان تمام احکامات پر عمل کرنا اللہ کی بندگی کہلائے گا عبادت کہلائے گا
چنانچہ خدمت خلق یا حقوق العباد کی ادائیگی کرنا بھی عبادت کہلائے گا شرط
یہی ہے کہ ہر کام اللہ کے احکامات کے ماتحت ہو
3--انسانی زندگی کا مقصد صرف عبادت ہے
عبادت کے اندر ہی سب کچھ آجاتا ہے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ
اگر ہم قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو اس میں انسان کی پیدائش کی غرض صرف اور
صرف ایک ہی لکھی ہے وہ ہے اللہ کی عبادت
اللہ نے پیدائش کی غرض صرف عبادت ہی رکھی ہے مطلب یہ کہ صرف عبادت گزار
بندہ ہی اپنے مقصد کو پا سکتا ہے--انسانیت کی خدمت یہ مقصد ہر گز نہیں ہے
لکھا
اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ عبادت کے اندر ہی خدمت بھی آجاتی ہے
یہ کم علم لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ عبادت سے مراد صرف نماز لیتے ہیں--اور
کچھ بھی مراد نہیں لیتے
4--عبادت وہی شمار ہوگی--جو احکامات الہی کے مطابق ہو
اگر انسان نے صحیح عبادت گذار بننا ہے تو اسے عبادت کے اصل معنی و مفہوم سے
آگاہی لازمی ہے
عبادت کے معنی صرف نماز سمجھنے سے انسان کئی مواقع پر غلطیاں کر بیٹھتا ہے
مثلا
جو آدمی صرف نماز کو ہی عبادت سمجھتا ہے وہ صرف نماز پڑھ کر سمجھ لیتا ہے
کہ اس نے عبادت کر لی ہے مگر یہ بات درست نہ ہوگی
نماز بے شک عبادت ہے--مگر اللہ کے احکامات کو نظر انداز کر کے کوئی نماز
پڑھے گا--تو وہ نماز عبادت نہیں کہلا سکے گی
اگر کوئی نماز محض لوگوں کے دکھاوے کے لیے پڑھتا ہے تو ایسے نمازیوں کے لیے
ہلاکت ہے (سورۃ الماعون)
اسی طرح اگر کوئی نماز بغیر وضو کے اور گندے جسم و لباس سے پڑھے گا تو
چونکہ وہ اللہ کے احکامات مانے بغیر نماز پڑھ رہا ہے لہذا وہ نماز عبادت کے
طور پر قبول نہ ہوگی
اسی طرح اگر کوئی آفس کے یا گھر کے فرض کام چھوڑ کر نوافل نمازیں پڑھتا رہے
تو یہ نمازیں بھی حقیقی عبادت نہیں کہلا سکتیں
اسی طرح غریبوں کی خدمت کرنا بھی عبادت ہے مگر اگر کوئی چوری یا ڈاکہ ڈال
کر کسی کا مال چھین کر غریبوں میں بانٹ دے تو یہ کام عبادت نہیں کہلا سکتا
کیونکہ عبادت تو یہ ہے کہ اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی جائز اور حلال آمد
میں سے صدقہ خیرات کرے
پس عبادت کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے عبادت کے معنی ہیں کہ انسان اپنے
معبود کا عبد بن جائے--یعنی اللہ کا بندہ بن جائے اور اللہ کی غلامی اختیار
کرتے ہوئے زندگی کے ہر قدم پر اللہ کی ہی مانے اللہ کے احکامات کے مطابق ہی
زندگی گزارے--زندگی کے تمام معاملات خوشیوں غموں اور پریشانیوں میں اللہ کے
احکامات کے مطابق عمل کرے تو اسکا ہر عمل عبادت کہلائے گا
5--عبادت کے بغیر خدمت خلق کا دعوی ناقص کہلائے گا
اگر کوئی انسانیت کا خدمت گذار بننا چاہتا ہے--تو اسے لازمی پہلے اللہ کا
عبادت گذار بننا ہوگا
اللہ کے احکات کے بغیر اپنی عقل اور سمجھ سے جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں
وہ ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں
کیونکہ ہمسائیوں کے حقوق غریبوں کے حقوق مظلوموں کے حقوق بیوی بچوں کے حقوق
کیا ہیں یہ انسان اپنی عقل اور اندازوں سے طے کرنے لگے گا تو اکثر جگہوں پر
ٹھوکر کھائے گا---اکثر لوگ حقیقی شعور اور کامل شعور ہرگز نہیں رکھتے
بہت سے لوگ بچوں کو نہ پڑھانا یا بہت سے لوگ بیویوں کوغلام بنا کے رکھنا
اپنی عقل سے جائز سمجھتے ہیں--بہت سے لوگ جھوٹے چھوٹے ظلموں اور زیادتیوں
کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے پھر ہر علاقہ کے ہر معاشرہ کے اپنے اپنے
خیالات ہوتے ہیں--انسان سے حقیقی پیار کرنا اسکے جذبات کا خیال رکھانا اور
انسانیت کی حقیقی معنوں میں خدمت اللہ کے احکامات کے ماتحت ہی کی جا سکتی
ہے
ورنہ اکثر ظلموں کو انسان خدمت سمجھ بیٹھتا ہے
6--انسان جتنا زیادہ عبادت گزار ہوگا اتنا ہی انسانیت کا خدمت گذار ہوگا
انسان جتنا زیادہ اپنے خالق اللہ تعالی کے قریب ہوگا - اتنا ہی وہ زیادہ وہ
اپنے خالق کی مخلوق یعنی انسانوں کے بھی قریب ہوگا
یہ ہو نہیں سکتا ہے اللہ تعالی رب العالمین سے تعلق ہو جو رحمان بھی ہے اور
رحیم بھی یعنی جو تمام رحموں اور محبتوں کا سرچشمہ ہو اس کے احکامات کا
ماننے والا اسی کی مخلوق سے محبت نہ کرے یہ ناممکن ہے |