پاکستان میں یہودی نظام آجائے گا۔ سیاسی سرگرمیوں کے بعد
اس عبارت کی تفصیل ہر چوک پر کھڑے ہوئے شریعت کے مطابق داڈھی والا شخص،
بلوغت کی عمر میں داخل ہونے والے بچے کے کان میں بھرتا نظر آرہا ہے۔ بالکل
اس ہی طرح جیسے مجھے اور میرے تین دوستوں حارث، عزیر اور حسن کو بچپن میں
ڈرایا جاتا تھا کہ یہودی ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں اور اس ملک میں یہودی
نظام آجائے گا- میری طرح میرے دوستوں کی بھی آج تک حسرت ہی رہی ہے کہ وہ
یہودی نظام دیکھ سکیں۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہمیں اس بات کا یقین ہو
گیا کہ اس ملک میں کبھی بھی ایسا نظام نئی آنے والا کیونکہ یہودی نا تواتنے
فارغ ہیں کہ وہ اپنے کام چھوڑ کر ہم پر اپنا وقت ضائع کریں گے اورنہ اس قوم
کو کسی یہودی سازش کی ضرورت ہے۔ بھلا اس قوم کو بھی کسی یہودی سازش کی کیا
ضرورت ہوگی جس قوم کے استاد اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے اپنے طالبِ علم (مشال)
پر گستاخِ رسول کا جھوٹا الزام لگا کر قتل کروا دیں۔ جس قوم کے استاد اس
قدر گِر چکے ہوں اس قوم کی کیا فطرت ہوگی- ہمارے ہاں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا
رہا ہے کہ مفاد پرستی کے لیے تلوار کا وار مذہبی فتوے کے روپ میں کیا جاتا
ہے۔ مگر اس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ فتوے کسی مسجد کے ممبر کی
بجائےقومی اسمبلی کے سپیکروں سے گونجتے ہوئے مذہب پرست لوگوں کی زندگی کو
اثرانداز کرتے ہیں۔ مختلف سیاستدان اور حکمران جن کے بیٹے امریکہ، جرمنی
اور انگلینڈ کی یہودی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جن کے اپنے
گھر کا زیادہ تر حصہ فرنگیوں کے ممالک میں رہتا ہے جو کہ انگریزوں اور
یہودیوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ ہی لوگ اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے
اس قوم کو ایک جملے سے ڈرا رہے ہیں ''پاکستان میں یہودی نظام آجائے گا''
اور جاہاں تک بات ہے یہودی نظام کی تو میں آپکو بتاتا چلوں کہ اسلام کی طرح
یہودی کلچر میں بھی اپنے سے بڑی عمر کے افراد سے اُونچی آواز میں بات کرنے
کو بدتمیزی اور گفتگو کے دوران گالی گلوچ کرنے کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔
یہودی نظام میں بھی جھوٹ بولنے اور امانت میں خیانت کرنے والے کو بُراانسان
سمجھا جاتا ہے۔ اور اس ہی طرح ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کو بھی
ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ ان سب باتوں کو مدِ نظررکھتے ہوئے اس بات کا خیال
کرنا جاہز ہے۔ کہ حقوق العباد کی رُو سے مشرقی اور مغربی نظام کسی حد تک
ایک ہی فطرت کے مالک ہیں- اسلام اور یہودوکفارکے درمیان کوئی بڑا فرق ہے تو
وہ فرق حقوق اللہ کا ہے حقوق اللہ کی خاطر ہمیں نماز،روزہ،حج،زکواۃ
اورتوحید کے بنیادی رکن پرعمل کرنے اور تلاوتِ قرآن جیسی عبادت کا حکم دیا
گیا۔ اور ایک بہتر اور کامیاب زنگی بسر کرنے کے لیے سنتِ نبویﷺ کے مطابق
زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام کے صرف تین بنیادی رکن نماز، روزہ
اور زکواۃ کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند لمحے آیئنے کے سامنے کھڑے ہوکر ایک
سوال اپنے آپ سے پوچھیں ''کیا آپ کو بھی کسی یہودی سازش کی ضرورت ہے''۔
ہمیں یہودیوں اور یہودی نظام سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نئی ہمیں ضرورت ہیں تو
صرف اللہ سے ڈرنے کی اور اللہ پر ایمان لانے کی۔ |