وزیراعظم کا دھیما لہجہ

محمد آیان خان (آئیکن)
وزیراعظم کا دھیما لہجہ اپوزیشن کو خاموشی سے مفاہمت کی پیشکش دیکھائی دے رہا ہے ۔دیر آئے درست آئے۔ملک کی بہتری کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ چلنا ہی پڑے گا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے شرکت کی اور خطاب کیا ۔ انہوں نے پہلی بار اپنے خطاب میں دھیما لہجہ استعمال کیا اور اپوزیشن کیلئے بہتر الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے کہا کہ میری اپوزیشن سے کوئی دشمنی نہیں ہے میں سب کا احتساب چاہتا ہوں ۔نیب ادارہ میں نے نہیں بنایا نہ ہی چیئر مین کو میں نے لگایا بلکہ ابھی تک نیب میں ہم نے کوئی چھپڑاسی بھی برتی نہیں کیا لیکن پھر بھی مجھ پر تنقید ہورہی ہے کہ نیب نیاز گٹھ جوڑ ہے ۔ یوں عمران خان لہجے میں آہستا آہستا تلخی بھی دیکھتے رہے لیکن پھر سے کہا کہ میں ملک چلانا چاہتا ہوں میں کسی کو ٹارگٹ نہیں کرنا چاہتا ۔ اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ قرضہ اس لیے مانگ رہے تھے کیونکہ ملک دیوالیہ ہونے جا رہا تھا۔ یہ ہماری وجہ سے نہیں تھا، یہ ملک کی بد قسمتی تھی کہ سابق حکومتوں کی وجہ سے قرضے مانگے۔ اپنے ملک کے ہسپتال بنانے کے لیے پیسے مانگتے ہوئے مجھے شرم نہیں آتی، مجھے شرم تب آئی جب دوسرے ملکوں سے قرضہ مانگا۔ سابق حکومتوں میں توانائی کے منصوبوں کے معاہدے ہوئے لیکن ہم پھنس گئے۔ کورونا وائرس پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سخت لاک ڈاؤن نہ کرنے کی وجہ سے مجھ پر بڑی تنقید کی گئی ۔میں نے پہلے دن سے کہا کہ ملکی حالات کو دیکھ کر فیصلے کریں گے لیکن بار بار کہا جا رہا ہے کہ حکومتی فیصلوں میں کنفیوڑن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اگر کسی حکومت میں کنفیوڑن نہیں تھی تو ہماری تھی۔ عمران خان کی تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان خاموشی سے بیٹھے رہے اور عمران خان کی تقریر کے پوائنٹس لکھتے رہے ۔جیسی ہی وزیراعظم تقریر ختم کرکے ایوان سے چلے گئے تو چیئر مین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لے لیا اور عمران خان کی تقریر کے دوران کئے گئے غلط تعداد وشمار کو درست کرتے رہے اور وزیراعظم پر تنقید کرتے رہے یوں پھر سے ایوان کا ماحول خراب ہوا ۔حال ہی میں وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل بھی حکومت سے راستے جدا کرنے کا اعلان کرچکی ہے اس کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے اپوزیشن ایک بار پھر متحرک ہوگئی ہے،پیپلزپارٹی اور جے یو آئی نے جلد اے پی سی بلانے پر غور شروع کردیا ہے،ذرائع نے بتایا کہ حکومت مخالف تحریک کی حکمت عملی کے لئے پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور اکرم درانی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے ،دونوں رہنماؤں نے جلد اسلام آباد میں ملاقات پر اتفاق کیا ہے ،اس ملاقات میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر مشاورت ہوگی،ملاقات میں اختر مینگل کی حکومتی اتحاد سے علیحدگی سمیت دیگر اہم معاملات زیر غور آئیں گے۔ بلاول بھٹو کی ہدایت پر پیپلز پارٹی رہنماؤں نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے ،پیپلز پارٹی کی جانب سے چھ رکنی اے پی سی کمیٹی نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں رابطے کرنے والی چھ رکنی کمیٹی میں نیر بخاری، راجہ پرویز اشرف اور شیری رحمان،رضا ربانی، فرحت اﷲ بابر اور نوید قمر شامل ہیں۔میڈ یا میں خبریں گردش کررہی ہے کہ تحریک انصاف کے دو سینئر رہنماؤں و وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کیا ہے تاہم وزیراعظم نے انہیں اس حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی اور خاموشی سے دونوں وزراء کی باتیں سنتے رہے دوسری طرف ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ فواد چوہدری نے جو انٹرویو دیا وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دیا اور ایک اہم شخصیت کو اس بارے میں پہلے سے معلوم تھا اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل نے جو فواد چوہدری کی حمایت کی اس پر انہیں خصوصی طور پر کراچی سے کابینہ اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی گئی تھی باقی وزراء ویڈیو لنک پر تھے اور کابینہ اجلاس کے دوران فیصل واڈا کی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی سے بدمزگی بھی ہوگئی تھی ۔ ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ دونوں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے بعض حلقوں سے بڑ ھتے روابط اور خفیہ ملاقاتوں کے تناظر میں فواد چوہدری نے انٹرویو میں جو باتیں کیں ان کا بنیادی مقصد دونوں کو پیغام دینا تھا ۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں اختلافات کی خبریں عام ہوتی جارہی ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھلاڑی ایک بیج پر نہیں ہے کبھی اسد عمر جہانگیر ترین کے اختلافات توکبھی جہانگیر ترین اور شاہ محمود کے اختلافات ،اب تو فواد چوہدری اور فیصل ووڈا بھی اختلافات کی خبروں میں جگہ لینے لگے ہیں اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے عمران خان ٹیم کمزور ہوتی جارہی ہے کیونکہ اگر اوپنر اور دوسرے اہم کھلاڑی ایک دوسرے کو رن آؤٹ کرنے میں مصروف ہوں تو ٹیم تو لازمی ہارے گی۔ایسے میں تو اپوزیشن کو سؤئنگ اور گگلی پھینکے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ حکومتی ارکان خود ہی ایک دوسرے کو ر ن آؤٹ کروارہے ہیں ۔
 

Rahmatullah Shabab
About the Author: Rahmatullah Shabab Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.