ڈور بیل بجی۔۔۔۔۔۔سکینہ میگزین دیکھ رہی تھی۔ دوسری بار
بیل بجی تو اردگرد نگاہ دوڑائی۔۔۔۔۔چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر شیلو دیکھو
ذرا کون ہے۔
شیلو: کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔بیگم صاحبہ ابھی دیکھتی ہوں۔ ۔سکینہ:پتہ نہیں کہاں
گم رہتی ہے شیلو!
گھر پے ہی ہے۔۔۔۔۔۔ہاں گھر پہ ہی ہو گی۔ اللہ جنت نصیب کرے میری مرحوم اماں
کی طرح ہے سکینہ"
سکینہ کے کانوں میں جونہی آواز پڑی تو میگزین بند کیا عینک اتار کر "ارے
سدرہ خوش آمدید" آگے بڑھ کر گلے ملی۔ سدرہ تین چار دفعہ بغلگیر ہوتے
ہوئے۔بہاولپور میں "میں نے" تمہیں بہت یاد کیا۔ سکینہ بازو سے پکڑ "سدرہ
میں بھی تمہیں کبھی نہیں بھولی، اچھا بتاو بچے کیسے ہیں؟ اور دانش بھائی
آئے ہیں؟
سدرہ "ہاں ہاں وہ چھوٹی کا کل پیپر ہے وہ تو اتوار تک آئیں گے میں اور رضا
کل شام ہی پہنچے ہیں۔
سکینہ"چلو اچھا کیا پڑوس سے سناٹا ختم ہوجائے گا۔ سدرہ"اب یہ سناٹا ہمیشہ
کے لیے ختم؟
سکینہ مسکراتے ہوئے" میجر صاحب کی پوسٹنگ لاہور ہوگئ؟
سدرہ " یہاں سے جاتے ہی ترقی ہوگئی تھی تمہارے بھائی کی اب برگیڈیئر کہو"
سکینہ"ماشااللہ" اللہ سلامت رکھیں!
سدرہ" اگلے مہینے ریٹائر ہو رہے۔اس لیے اب ہم یہاں شفٹ ہوگئے۔ ادھر ادھر
دیکھتے ہوئے"بچے اور عباس بھائی کہاں ہیں؟ سکینہ: رجب کا پیپر ہے۔سرخاب
یونیورسٹی اور اپنے بھائی کا تو تم جانتی ہو____کبھی یہاں کبھی وہاں۔
شیلو چائے رکھتے ہوئے۔ سدرہ باجی خوشی ہوئی آپکو دیکھ کر۔ سدرہ چائے کا کپ
اٹھا کر۔۔۔۔گھونٹ لیا شیلو میں کب سے تمہاری باجی ہو گئی۔۔۔۔۔ہیں؟ پچھلے
مہینے پینتیسویں سالگر منائی ہے۔ دانت نکالتے ہوئے۔۔۔یہ 50 سالہ کی ماسیان
خود کو نوجوان لڑکیاں سمجھتی ہیں۔اوٹ پٹانگ ہانکنے لگی
شیلو منہ بسورتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔ سکینہ" جانے بھی دو سدرہ بچاری کا
دل توڑ دیا۔
سدرہ"ارے دفعہ کرو اسے۔۔۔۔۔یہ بتاو یہ سب کیسے ہو گیا۔ تم تو بہت سنبھال کے
رکھتی تھی۔تمہارے اممی کی نشانی____ یقین جانوں سکینہ مجھے تو رات بھر نیند
نہیں آئی۔ سکینہ "حیرانگی سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگی۔۔۔۔کیا کہہ رہی ہو
تم؟
سدرہ نے پرس سے ایک بیگ نکالا۔۔۔۔تم یقین کرو سکینہ یہ ماسی سے توڑے ہونگے۔
انکی نظر جب کسی چیز پر آجائے انکے پاس یہی طریقہ ہے اسے حاصل کرنے کا۔
سکینہ نے بیگ کھولا۔۔۔۔میرے جہیز کا آخری سیٹ۔
سدرہ اچھا میں پھر آون گی۔
سکینہ "شیلو شیلو"
شیلو" جی بیگم صاحبہ"
بیگ اسکی طرف کیا یہ کس نے کیا شیلو؟
شیلو"بیگم صاحبہ اللہ گواہ ہے میں نے نہیں کیا!
سکینہ غصے مین اٹھی "تم سے صفائی نہین مانگی صرف دریافت کیا تھا۔ کس نے
کیا، کب کیا یہ تو میں پتہ لگا لوں گی۔ وہ چلی گئی۔۔۔
_____
زمرد ابھی لائٹ آف کر کے سویا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی فون اٹھایا
"ہیلو" کون؟
اسلام علیکم علی بھائی!
زمرد"وعلیکم سلام!
"میں ڈاکٹر ہدایت اللہ ہوں"
زمرد"جی ڈاکٹر صاحب"
ڈاکٹر "لڑکی کو ہوش آگیا ہے"
زمرد نے منہ پر ہاتھ پھیرا "شکر الحمداللہ'تجسس سے ڈاکٹر صاحب اس نے اپنے
گھر والوں کے بارے کچھ بتایا؟
ڈاکٹر"نہیں،علی تم اسے لے جاو! اٹک کر بولا
زمرد" ڈاکٹر وہ بہت بری حالت میں ہے آپ جانتے ہیں اسے علاج کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر" ہاں ہے تو،مگر وہ جب سے ہوش میں آئی ہے بہت شور مچایا ہوا ہے۔ مجھے
اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔
زمرد"ڈاکٹر ٹیسٹ رپورٹ آئی؟
ڈاکٹر"ہاں باقی ٹیسٹ تو کلیئر ہیں جسم پر تشدد کے نشانات ہیں اور ابھی ڈی
این اے رپورٹ باقی ہے۔
زمرد"کیا مطلب!!
ڈاکٹر"وہ لڑکی تشویشناک حد تک خوف زدہ ہے کسی سے بات تک نہیں کر رہی بس چیخ
رہی ہے۔پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے اپنے آپ کو واشروم میں بند کیا ہوا ہے۔ علی
پلیز! آپ اسے آکر سنبھالیں۔
زمرد"کیا؟ ڈاکٹر میں اسے نہیں جانتا۔
ڈاکٹر "اگر آپ نہیں آسکتے تو ٹھیک ہے۔ ہمیں مجبوری میں اسے ڈسجارج کرنا پڑے
گا۔
زمرد"ڈاکٹر "ابھی اتنا بولا ہی تھا کال ڈراپ ہوگئی۔
پریشانی میں اٹھا ٹیبل سے گھڑی کے ساتھ پڑی چابی اٹھائی چپکے سے باہر نکل
گیا۔ ہسپتال پہنچ کر جب اپنی بائیں کلائی کی طرف دیکھا تو چاندی کی بریسلٹ
پر نظر پڑی جسکے اوپر بنے اوول شکل کے ڈیزائن پر انگریزی کے حروف جی "G"
اور بی" B"بلترتیب درج تھے۔ "او ہو گھڑی تو گھر بھول گئی۔ آستین فولڈ کی
بریسلٹ کو اسکے نیچے چھپا کر صحیح کر لی۔ اتر کر سیدھا لڑکی کے کمرے میں
گیا وہاں دو نرسیں واشروم کے دروازے کو کھٹکٹا رہی تھیں"لڑکی دروازہ کھولو"
وہ پانچ دس منٹ تک کھڑا رہا۔ ایک نرس پیچھے مڑی زمرد کو دیکھ کر چل سویرا
اسکا بھائی آگیا ہم چلتے ہیں۔
زمرد نے خاموشی سے منہ دوسری طرف کر لیا۔انکے جانے کے بعد آگے بڑھا ڈور سے
دوقدم پیچھے کھڑے ہو کر کہا "مجھے نہیں پتا تم کون؟تمہارے ساتھ کیا ہوا؟
میں نے تمہاری مدد کی۔۔۔۔اگر تم ایسے ہی کرتی رہو گی تو ہسپتال والے پولیس
کو بلوا لیں گے۔ اور میرے لیے بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی۔مجھے لگتا ہے تم
مجھے سن سکتی ہو۔
کافی دیر گزرنےکے بعد
اس نے آہستہ آہستہ تھوڑا سا دروازہ کھولا درز سے دیکھتے ہوئے بولی" کیوں؟
زمرد "ہاں انہیں شک ہے میں نے تہمیں اغواء کیا ہے۔دروازہ کھول کر باہر
نکلی۔ "روتے ہوئے اسکے قدموں میں بیٹھ گئی۔پولیس نہیں پلیز! وہ مجھے دوبارہ
اسکے حوالے کردی گی۔
صاحب وہ مجھے خان کو بیچ چکا ہے اب خان مجھے لے جائے گا۔ زمرد اس کے منہ سے
خان کا نام سن کر الرٹ ہوگیا۔ اسے اپنے پاوں سے دور کیا اور پیچھے مڑ کر
دیکھتے ہوئے۔تم اکبر خان کی بات کر رہی ہو؟
لڑکی: جی صاحب۔
زمرد نے بازو سے پکڑ کر اسےکھڑا کیا دیکھو تم فی حال خان کے بارے کوئی بات
کسی سے نہیں کروگی اور ڈاکٹر کو تنگ نہیں کرو گی۔
وہ لڑکی زمرد کی یہ بات سن کر خوف زرد ہوگئی سوچنے لگی"کہیں یہ شاداب کا
بندہ تو نہیں"
زمرد نےبائیں ہاتھ کی انگلی منہ کے پاس کی۔۔۔۔۔تم میری بات سمجھ میں رہی
ہو۔ لڑکی نے اس پر چیختے ہوئے۔ لوں گئ میں اسکا نام۔۔۔۔۔۔ اسکی باتیں سن کر
زمرد نے بایاں ہاتھ ماتھے پر رکھ لیا۔اتنے میں اسکی آستین کسک بریسلیٹ سے
ہٹ گئی۔ جب لڑکی کی نظر پڑی تو گھورنے لگی کبھی اسکے چہرے کو دیکھتی تو
کبھی کلائی کو۔آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں ۔ مسکرا کر بولی اگر مجھ سے روز
ملنے آو گے تو کسی کو تنگ نہیں کروں گی۔ زمرد نے اجلت میں ہاں کردی مگر
کمرے سے باہر نکلتے ہی اسکی بات پر کافی حیران ہوا۔ یہ پاگل تو نہیں لگتی۔
جمائی لی اور ڈاکٹر سے مل کر وہاں سے چلا گیا۔
گھر پہنچا تو شبنم باغیچے میں فون کان کو لگائے کھڑی تھی۔ اسوقت یہاں؟انہیں
کیا ہوا! اندر جانے پر پتہ چلا سب لوگ جاگ کر اسکا انتظار کر رہے تھے۔ ثاقب
ماموں آپ؛ گلے ملا پاس بیٹھ گیا۔ اور سنائیں ماموں قید سے رہائی مل گئی۔
ثاقب:مسکراتے ہوئے ہاں بیٹا۔۔۔۔۔تبی تو تم سے ملنے آیا ہوں ۔ اب ایک نئی
اسکیم آئی ہے پراجیکٹ پے کام شروع کردیا تو اس کے بعد چھ ماہ تک کسی سے
ملاقات نہیں کر سکوں گا۔
زمرد"آپ ہمارا فخر ہے قوم کی خدمت کر رہے ہیں"
ثاقب"بس بیٹا کرم ہے اللہ پاک جسے چاہے عزت عطا فرمائے۔۔۔۔۔آپا کا سناو
کیسی ہیں؟ اور آئی کیوں نہیں؟
زمرد"ایک تو بزنس دوسرا انکے ڈاکٹر نے انہیں سفر سے منع کیا ہے۔ وہ آپ سب
کو بہت مس کرتی ہیں۔
ثاقب:ہاں بیٹا بہت محنت سے انہوں بزنس سیٹ کیا تم بھی تو انکی ہیلپ نہیں کر
رہے۔
سکینہ:بیٹا تم اسوقت کہاں چلے گئے تھے؟
زمرد: ممانی جان کچھ ضروری ڈاکومنٹ ریحان کو دینے تھے۔سکینہ:اچھا بیٹا میں
تمہارے لیے کافی بھیجواتی ہوں۔
زمرد:شکریہ ممانی جان۔
ثاقب: زمرد بزنس سیٹ ہوگیا۔
زمرد"ماموں جان تقریبا ہوچکا ہے۔مینجمنٹ کے ایک دو ہائی پروفائل ممبرز کے
انٹرویوز رہتے باقی کام شروع ہوچکا ہماری کمپنی کو 1 آرڈرز بھی مل چکا ہے۔
ایک دو پراسس میں ہے۔
ثاقب :بہت لکی ہو ویسے۔
سرخاب: نے کافی لاکردی
زمرد:کافی پکڑتے ہوئے "ماموں جان وہ تو میں بہت ہوں!
زمرد کا فون بجا فون کو دیکھ جلدی سے اٹھا ایکسکیوزمی
ثاقب:چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ کر ہاتھ سائیڈ کی طرف کیا اور اثبات میں سر
ہلا کر اجازت دی۔ زمرد کافی اٹھا کر کمرے کی طرف چلا دیا۔سرخاب ثاقب کی گود
میں سر رکھ کر چاچو میں نے آپکو بہت مس۔ ثاقب"میں نے بھی اپنی گڑیا کو بہت
مس کیا" رجب"چپس کھاتے ہوئے چاچو میں بتاتا ہوں۔ کل پرسوں جب سے ماں کے
جہیز والے برتن ٹوٹے تب سے بہت زیادہ مس کیا! ہے نا سر؟
ثاقب" ببلو تم سوئے کیوں نہیں "میری گڑیا کو تنگ مت کیا کرو۔رجب:ببلو کیا
ہوتا ہے چاچو۔۔۔۔جائیں میں نہیں بولتا آپ سے۔
ثاقب اور سرخاب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔
جب رجب چلا گیا تو ثاقب نے کہا میں کل گجرانوالہ جا رہا ہوں عاشق کے پاس
مجھے یاد سے سیمپل دے دینا۔
سرخاب:خوشی اچھلی چاچو "آئی لو یو" ثاقب "لو یو ٹو میری گڑیا۔ شبنم کو اندر
آتے دیکھ کر سرخاب اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ثاقب:بیگم وقت مل گیا؟ شبنم: آپ
کو ہی اپنے رشتہ داروں سے فرصت نہیں ملتی۔ ثاقب:بچہ نہیں ہوں میں وہ اٹھ کر
کمرے میں چلا گیا۔
ادھر زمرد نے دروازہ بند کیا اور ہاں بولو شبیر؟
شبیر:تم نے کال کیوں کی؟
زمرد:شبیر آج مجھے ایک لڑکی ملی اس نے ساری بات شبیر کو بتائی۔
شبیر : تمہیں لگتا ہوگا کہ وہ گڑیا ہے؟
زمرد"نہیں بلکہ مجھے لگتا ہے وہ ہمیں گڑیا کا کھوج دلاوا سکتی ہے۔
خان اور شاداب کے بہت گہرے تعلقات ہیں۔ اس لڑکی نے بتایا ہے اسے کسی نے خان
کو بیچا ہے۔اگر سوچو تو ہمیں بہت مدد مل سکتی ہے۔
شبیر:ضروری بات تمہارے گھر سے شاید کوئی ملازمہ یا کوئی قریبی فرد شاداب کے
ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ تمہاری ایک ایک موومنٹ
کو یہاں رپورٹ کیا جاتا ہے۔
زمرد:ھمھم
شبیر :لگتا ہے کوئی آرہا ہے اللہ حافظ!
زمرد"خدا حافظ!
شبیر نے موبائل ٹانگ پر بندھی بیلٹ کے ساتھ چپکا کر آنکھیں بندھ کر لیں۔
اتنے میں فضلو اندر آیا اچھے سے کمرے کا جائزہ لے کر لائٹ بند کی اور چلا
گیا۔
اسکے جانے کے بعد شبیر نے اٹھ کر اپنے موبائل کر سامنے لگی لائٹ آن کی اور
جوتے کے اندر چھپائی ہوئی یو ایس بی اپنے بیڈ کی ٹیک کے ساتھ لگے خفیہ فنکش
میں دوبارہ فٹ کر دی۔
____
اگلے دن جب رضیہ ہوسٹل پہنچی تو دارو نے کافی غصے کا اظہار کیا۔
وہ ناشتہ کئے بغیر نکلی اور شاداب کے ڈیڑے کا اچھے سے جائزہ لیا۔ چند قدموں
کے فاصلے پر موجود کالج کا باہر سے جائزہ لیا۔ گیٹ پر دو پولیس والے کھڑے
تھے۔ انہیں دیکھ کر وہ دوسری طرف کو ہولی۔ بالوں میں پینسل گھسا کر وہاں سے
چلتی بنی۔
-----
سرخاب سو رہی تھی۔ بیڈروم کا ڈور نوک ہوا۔ اس نے کمبل سے منہ نکال کر آجاو
شیلو ماسی!
درواز کھٹاک سے کھلا۔۔۔۔
سرخاب:جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔۔ ارے تم!
سارہ: بھاگ کر آئی گلے ملتے ہی۔۔۔وہ کہاں ہے۔
سرخاب"ارے کون؟
سارہ:وہی علی؟ سرخاب ہنستے ہوئے۔۔۔۔سارہ وہ تو تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔
سارہ: نہیں نہیں بس وہ یونیورسٹی والی عادتیں چھوڑ دیں ہیں۔سرخاب بال چہرے
سے ہٹاتے ہوئے۔اچھا تو یہ بات ہے۔
وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس گئی پردہ ہٹا دیا۔۔۔۔۔بس یہ آنکھیں بے چین ہیں کہ
ہینڈسم لوگ حقیقت میں کیسے لگتے ہیں۔
سرخاب نے پیچھے سے جا کر اسکے دونوں کندھے پکڑے آنکھیں تو فضول میں بدنام
ہیں ورنہ کچھ چہروں پر اڑ تو دل جاتا ہے۔
سارہ حیرانگی سے اسکی طرف دیکھنے لگی۔ سرخاب نے تھوڑی سے پکڑ کر جاو شیلو
سے کہو کافی بنا دے میں ذر فریش ہو جاؤں ۔
سارہ:نہیں۔۔۔ناشتہ کروں گی میں تو۔
سرخاب نے نائٹ سوٹ کی آستین ٹھیک کی جمائی آئی منھ پر بائیں ہاتھ کی
انگلیاں ٹچ کرتے ہوئے واش روم میں داخل ہوگئی۔
سارہ نے کچن میں جاکر فریج کھولی شیلو جو فرائنگ پین میں انڈا ڈال رہی
تھی۔انڈے کا خول باسکٹ میں ڈالتے ہوئے سارہ بی بی کچھ چاہے؟
سارہ :سیب نکال کر کھاتے ہوئے۔فریج بند کی ہاں"شیلو میرے اور سرخاب کے لیے
ناشتہ بنا دو"
شیلو"ٹھیک ہے سارہ بی بی"
زمرد جوگنگ کے بعد آکر ڈرائنگ روم میں بیٹھا "شیلو ماسی "پھر اٹھ کر کچن کے
دروازے کے سامنے "شیلو ماسی پلیز میری کافی بھیجوا دیں۔
شیلو باہر نکل کر جی صاحب جی۔
سارہ اجلت میں کچن سے نکلی زمرد کو دیکھ کر وہیں ٹھہر گئی۔۔۔
زمرد: آپ کون ؟
سارہ"حواس پر قابو رکھتے۔۔۔ ہیلو زمرد میں سرخاب کی دوست سارہ"
زمرد"نائس ٹو میٹ یو"
سارہ آگے بڑھ کر اسکے قریب ہوگی سیم ہیئر!
زمرد"تھوڑا پیچھے ہٹا اور اپنا ہاتھ کاوچ کی طرف کرتے پلیز "ہیو اے سیٹ"
سارہ"شکریہ! آپ بھی بیٹھیں نا"
زمرد"جی ضرور"
سارہ"بہت قصیدے سنے تھے مگر آپ واقعی جادوئی پرسنیلٹی رکھتے ہیں"
زمرد:آنٹی سے؟
سارہ:نہیں انکل سے۔۔۔۔ظاہر ہے آپکی آدھی بیگم سے۔
زمرد:مسکراتے ہوئے۔۔۔۔۔سرخاب اور میری تعریفیں؟
سارہ" ہنستے ہوئے حیرت ہے آپکو یقین نہیں خود پر؟ شیلو کو دیکھ کر خاموش
ہوگئی۔
شیلو"زمرد کو کافی پکڑاتے ہوئے،غصے سے سارہ بی بی ناشتہ تیار ہے۔
زمرد اٹھ کر چلتے ہوئے سارہ کی طرف دیکھا "سی یو لیٹر"
سارہ کھڑی ہوگئی اور سر اثبات میں ہلایا۔
-----
ڈور نوک ہوا۔ زمرد نے دروازے کی طرف دیکھا شہادت کی انگلی رکھ کر ناول بند
کر لیا "کون؟
دروازہ کھلا تو عباس کو دیکھ زمرد کھڑا ہوگیا "اندر آئیے ماموں جان"
عباس نے آکر زمرد کا کندھا تھپ تھپایا اسکے ہاتھ میں پکڑے راڈرک تھورپ کے
ناول"دی ڈیٹکٹیو " The Detectiveپر نظر پڑی" بیٹا کل 25 مارچ ہے۔
زمرد"آہ!ماموں جان مجھے یاد ہے"
عباس نے اسکا کندھا تھاما"بیٹا مجھے یقین ہے تم جیتو گے"
زمرد"ماموں جان" گلے لگ کر"ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں نہ ابو کے قتل کے گواہ
اور نہ بلڈنگ کی رجسٹری"
عباس" بیٹا مجھے یقین ہے اگر صدیق کے آفس کو چیک کیا جائے تو ڈاکومنٹ مل
سکتے۔
زمرد" جی مجھے بھی یہی شک ہے۔۔۔۔وکیل کہہ رہا تھا میں سرچ کا آڈر نکلوا لوں
گا۔
عباس"انشاءاللہ مجھے یقین ہے ہمارے لیے کوئی نہ کوئی راستہ ضرور کھلے گا"
زمرد"انشاءاللہ"
----
رضیہ:بس کا ویٹ کررہی تھی۔
کچھ دیر بعد بس آگئی وہ بس میں سوار ہوگئی کافی رش تھا۔
ابھی چند منٹ گزرے تھے کسی نے اسکے کندھے کو چھوا وہ پیچھے مڑی تو سب اپنی
اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ کچھ غیر معمولی نظر نہ آیا اس نے ہاتھ سے کندھا صاف
کیا اور پھر سارا دھیان کندھے کی طرف کرکے کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر بعد پھر یہی
ہوا تو وہ تیزی سے مڑی اور ہاتھ پکڑ لیا۔ لڑکے کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں
تھا۔گرفت ڈھیلی تھی لڑکے نے ہاتھ تو چھڑوا لیا مگر رضیہ نے اسے خوب سنائی۔
کالر سے پکڑ کر دھکا دیا وہ سیٹ پر دھڑم سے گرا اسکی کتاب رضیہ کے ہاتھ میں
آگئی۔یہ کیسا علم حاصل کررہے ہو؟افسوس کہ معاشرے سے اخلاقیات ختم ہوتی
جارہی ہے۔ پوری بس جو تقریبا ملازمت پر جانے والے مردوں سے پر تھی اسکی طرف
متوجہ ہوگئے ۔ اسکے برابر بیٹھا ایک آدمی اٹھا اپنی سیٹ اسے پیش کرتے
ہوئے"بیٹا آپ ادھر بیٹھو اسکی طبعیت میں سیٹ کرتا ہوں اس نے زور سے تھپڑ جڑ
دیا۔ رضیہ: انکل اسے مت ماریں اسکا قصور نہیں ہے شاید ہمارے گھروں میں
تربیت کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ایک بزرگ اٹھے ایسی اولاد ہوتی ہے جو صالح
ماں باپ کی نیک نامی پر پانی پھیرتی ہے۔ تقریبا سب اٹھ اٹھ کر اسے لعن طعن
کرنے لگے شور سن کر ڈرائیور نے بس روکی تو کنڈیکٹر نے اسے بس سے اتار دیا۔
رضیہ آفس پہنچتے ہی کاغدات ٹٹولنے لگی۔
___
فضلو:ناشتے والی ٹرے لاکر رکھتے ہوئے۔ سر وہ ایس پی صاحب نے فون کیا۔
شاداب اخبار رکھتے ہوئے۔۔۔۔۔کیا بنا؟
سب بڑے اخباروں میں ہمارے ڈیڑے پر دہشتگردوں کے حملے۔۔۔۔شاداب بات کاٹتے
ہوئے بدو یہ دیکھو ابھی میری ایک آنکھ سلامت ہے۔
فضلو" سہم کر سر وہ کہہ رہے تھے۔ سلیمان سمیت تمام لوگوں اور شبیر کو لگنے
والی گولی ایک گن سے فائر ہوئی ہے۔
شاداب:چائے والا کپ اٹھاتے ہوئے۔کچھ سمجھ نہیں سکا ایک ہی گن سے پانچ لوگ
مار دیئے۔ شبیر بھی اسیکا نشانہ بنا۔۔۔۔۔اسے کیوں چھوڑا!؟
فضلو:ہو سکتا ہے یہ جھوٹ بول رہا ہو کہ سلیمان نے اسے ہائیرکیا ہے۔
شاداب"نہیں سلیمان مجھے کسی سے ملوانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ بات یقینی نہیں
کہ کیا یہ وہی تھا۔
فضلو "سر اس کو فورتھ شیڈول میں رکھ لیا ہے۔ اسکے بیٹ پر خفیہ ڈیوائس لگا
چکا ہوں۔
شاداب"سامنے شبیر کو آتا دیکھ کر"ہاں ارینجمنٹ دھیان سے کرنا"
اسے دیکھ کر ہاں شبیر کیسے ہو؟
شبیر"بہت دیر بعد نرم بستر ملا۔۔۔سکون سے سویا" مگر افسوس میرا محسن آج
میرے ساتھ نہیں۔
شاداب کے چہرے سے غمگینی عیاں تھی۔
فضلو " فون بڑھاتے ہوئے۔۔۔۔سر وکیل صاحب"
شاداب ہاں وکیل صاحب بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔سرچ کی پٹی انہیں
کس پڑھوائی!!
مجھے کوئی بہانہ نہیں چاہے بس حل بتاو کیا حل ہے؟
غصے سے فون کاٹ دیا۔ سلیمان بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔کیا ہو گا۔ آگ ہاں
آگ۔۔۔ہاہاہاہا ادھر ادھر گھومنے لگا۔مگر کون لگائے گا یہ آگ۔۔۔۔۔فضلو اپنی
طرف اشارہ کرتے سر لوکیشن بتائیں میں ہوں نا!
شاداب اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔زیادہ پھدک مت شام کو
ساری ڈیٹیل مل جائے گی۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ شاداب نے مسکرا کر فون
اٹھایا ہاں کالو مال صحیح سے پہنچا دیا۔
کیا غائب ہوگئی۔۔۔۔!؟ ہاں کیا بولا! زور سے پاوں مارا ٹبیل الٹ گیا شبیر نے
چھلانگ لگا کر خود کو بچایا۔ شاداب اسکی پھرتی سے کافی متاثر ہوا۔ پھر فون
کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے مگر کیسے۔۔۔۔۔میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس نے
فون زور سے زمین پر دے مارا۔۔۔شبیر جلدی سے اسکے قریب آیا پلیز پرسکون
رہیں۔
وہ اٹھا اور اندر چلا گیا۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد نکلا میں رحیم یار خان جا رہا
ہوں۔ اپنے تعقب میں چلتے فضلو سے فضلو اسکو کام سمجھا دینا۔
جب شاداب چلا گیا تو شبیر نے فضلو کو ٹٹولنا چاہا مگر اکبر خان کو تحفے میں
دی گئی لڑکی کے بھاگنے کی خبر کے علاوہ کچھ نہ اگلوا پایا۔ شبیر "کیا زمرد
کے پاس یہ لڑکی تو نہیں؟ واشروم میں چلا گیا اور فون نکالنے لگا۔
_____
عابد: جناب چائے لاوں؟
رضیہ :ہاں جلدی اس میں ایک چمچ عقل بھی شامل کرنا۔
عابد:ہنستے ہوئے واقعی آپ کو ضرورت ہے۔
رضیہ:مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پھر یہ چائے تم پی لینا۔۔۔۔۔دماغ نہ چاٹ کسک
ادھر سے۔
عابد:منہ بنا کر مڑا بڑبڑاتے ہوئے اس بار ایسا داو مارا ہے کہ بچ نہیں پاو
گی مس رجی۔
کیبن سے جانکتے ہوئے سنبل ۔۔۔۔
سنبل اسے دیکھے بغیر "ہاں رجی بولو!
"آہستگی سے یار میرے آفس میں کون آتا ہے روز کوئی نہ کوئی ڈاکومنٹ غائب
ہوتا ہے۔
سنبل نے بولے بغیر آنکھ سے اپنی پاس آنے کا اشارہ دیا۔
رضیہ"ادھر ادھر دیکھ بیٹھ بیٹھ کر اسکے کیبن میں چلی گئی۔ "ہاں بولو"
سنبل "یہ کونسا طریقہ ہے؟
رضیہ"خود ہی چپکے سے بولا تھا۔ سنبل سر پر ہاتھ مارتے ہوئے"رجی فائل لے آتی
اب جاو لنچ ٹائم بتاوں گی"
رضیہ اونچی آواز میں "کیا کہا؟ ابھی کے ابھی بتاو!
سنبل "اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے۔۔۔۔اوکے بتاتی ہوں۔
رضیہ:بتاو سنسنی کیوں پھیلا رہی ہو۔
سنبل:دیکھو عابد تمہارے کیبن میں گھس کر تلاشی لیتا رہتا ہے۔
رضیہ:آستین چڑہاتے ہوئے چل پڑی"اس کی تو ایسی کی تیسی"
سنبل نے اسے کھینچ کر نیچے بیٹھا لیا۔ پوری بات سنو اور خدا کا واسطہ میری
نوکری کو داو پے مت لگانا۔
رضیہ:منہ بسورتے ہوئے اچھا۔۔۔۔۔ڈرپوک صحافی بتاو۔
سنبل:عابد وقار سے پیسے لے کر تمہاری تمام رپورٹس کاپی کر کے اسے دے دیتا
ہے۔
رضیہ:منہ کھولتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں رکھ لیں۔۔۔۔آنکھیں پھاڑتے
ہوئے اب تک میرے ساتھ یہ ہوتا آیا ہے۔
سنبل:کل میں اپنا پرس بھول گئی تھی جب لینے آئی تو وقار اور عابد۔۔۔۔اتنے
میں تسکین آفس سے نکلتے ہی "یہ چیخا کون تھا؟ باری باری تمام کیبنز میں
جھانکنے لگا۔
رضیہ:اٹھ کر جانے لگی مگر اسے سر پر دیکھ کر ٹیبل کے نیچے گھس گئی۔
سنبل:گڈ اب نکلنا مت وہ آگیا ہے۔۔۔
تسکین:سنبل کام کیسا چل رہا۔
رضیہ"میں پھنس گئی ہوں ٹیڈپول کو چلتا کرو"
سنبل نے اسے پاوں مارا۔رضیہ"افف" بازو ملنے لگی۔
تسکین"کیا کہا" سنبل "سر سب سیٹ ہے"
تسکین تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے "رجی کہاں ہے؟ پھر واپس آگیا۔
سنبل"وہ رجی تو۔۔۔"
تسکین "تمہارے پاس آوازیں کیسی آ رہی ہیں"
سنبل کا چہرہ پیلا پڑ گیا اٹھ کر سر دیکھ لیں میں اب ڈیوٹی ٹائمنگ میں مووی
نہیں دیکھتی۔ تسکین ہاتھ آگے کرتے ہوئے بیٹھو تم بیٹھ جاو اور بتاو کونسی
رپورٹ تیار کر ہی ہو؟
سنبل ماتھے سے پسینہ پونجھتے ہوئے"صباء کی پچھلے سال سری لنکا کی ٹیم پر
ہونے والے حملے والی"
تسکین"بس یہی؟
سنبل"دوسری رجی نے بنائی ہے 12 مارچ کو ملٹری کے قافلے پر لاہور میں ہونے
والے خودکش حملوں کی، ساتھ وہ بھی ہے۔۔۔ا
رضیہ"افف اللہ میری گردن ٹیڈپول کو بھاگاو۔
تسکین:اچھا وہ رفعت کا انٹرویو مرتب کردیا تھا۔
سنبل"جی سر اور ہاں بتانا بھول گئی رجی آپکو ڈھونڈ رہی تھی کہیں آپکے آفس
میں نہ چلی گئی ہو۔
تسکین"وہ تو میرے آفس کا ستیاناس مار دے گی۔ آفس کی طرف بھاگا۔
رضیہ مشکل سے نکلی اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے"ستیاناس تو میرا کر دیا بڑبڑاتے
ہوئے اپنے کیبن میں چلی گئی۔
-----
سارہ: سرخاب علی کی آنکھیں تمہارے ذکر سے چمک اٹھتی ہیں۔
سرخاب"وہ میری نادانی تھی میرا کل بھی اور آج بھی صرف زمرد ہے زمرد۔
سارہ دوسری طرف چہرہ موڑ کر مسکرانے لگی"سرخاب اتنا آسان نہیں ہوتا کہ پہلے
کسی کو دل میں بساو اور پھر نکال پھینکو۔
سرخاب" ہوتا ہے بہت آسان ہوتا ہے۔۔۔۔۔لیکن تب جب انسان کو اپنی غلطی کا
احساس ہو جائے تو اسے ٹھیک کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
زمرد:انکی باتیں سن کر ۔۔۔۔۔۔۔روبینہ کی بات سوچنے لگا۔
"مما کیا وہ وہی سرخاب ہوگی خود بین اور انتہا کی ضدی"
روبینہ"بیٹا مجھے اور کچھ نہیں پتہ وہ زمرد کے نکاح میں ہے اسکی ہی رہے گی۔
چاہے کچھ بن جاو اسے بہکا نہیں پاو گے۔ اسکے گلے لگ کر مما وہ روایتی کہانی
اب بھول جائیں آپ۔
روبینہ: زمرد بیٹا تو پھر لگی شرط؟
زمرد: آپ ہار جائیں گی!
روبینہ نے کان پکڑ سمجھو تم ہار گئے۔
زمرد بولا مما آپ وعدہ کریں سرخاب کو نہیں بتائیں گی کہ میں نے امریکہ آکر
اپنا نام علی رکھ لیا تھا۔
روبینہ: کیوں۔۔۔۔۔۔اسکے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔تھوری دیر چپ رہی پھر
"اوکے بیٹا!
اسکے فون کی بیل بجی تو سوچ کے سمندر سے باہر آگیا اور "جی ڈاکٹر صاحب؛ میں
ابھی آتا ہوں۔۔۔۔۔۔ واپس روم میں چلا گیا۔
سارہ:میں چلتی ہوں۔۔۔لیکن ایک بات اچھے سے ذہن نشین کرلو محبت اور شطرنج
میں ایک ہی موقع خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ |