کچھ لوگوں کی آنکھیں بہت دور تک دیکھ لیتی ہیں وہ چاول کے
ایک دانے سے پوری دیگ کا حال جان لیتے ہیں اور کوئی رسک لینے پر تیار نہیں
ہوتے ان کے پاس ناکام تجربوں کے لیے وقت نہیں ہوتا ۔ ہماری ایک کزن نے بیٹی
کی شادی کی چند روز تو دعوتوں ضیافتوں میں گذرے ایک روز لڑکی کی سسرال میں
کچھ مہمان آ گئے ۔ اگرچہ ابھی کھیر پکائی کی رسم انجام نہیں پائی تھی مگر
لڑکی نے کچن میں جانا اور چھوٹے موٹے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا ۔
چنانچہ اس روز بھی اس نے چائے وغیرہ بنائی اور دیگر لوازمات کے ساتھ
مہمانوں کو پیش کی اپنے میاں کی طرف بھی بڑھائی ۔ کہنے لگا کیا تمہیں معلوم
نہیں ہے کہ میں چائے نہیں پیتا پھر مجھے چائے کیوں دے رہی ہو؟
لڑکی نے کہا مجھے معلوم ہے آپ چائے نہیں پیتے مگر میں نے سوچا شاید ابھی آپ
مہمانوں کے ساتھ پی لیں
کہتا مہمانوں کے ساتھ بھی میں کیوں پینے لگا؟ جب میں چائے نہیں پیتا تو بس
نہیں پیتا ہٹاؤ اسے میرے سامنے سے
لڑکی نے کہا ٹھیک ہے میں آئندہ سے خیال رکھوں گی ۔ دو چار روز بعد پھر گھر
پر مہمان آ گئے لڑکی نے چائے بنائی مہمانوں کو دی اور بیٹھ گئی ۔ اس کے
شوہر نے کہا تم نے مجھے چائے کیوں نہیں دی؟
لڑکی نے کہا آپ تو چائے پیتے نہیں اور آپ نے مجھے منع بھی کر رکھا ہے اس
لیے نہیں دی
کہنے لگا چاہے میں پیوں یا نہیں مگر تمہیں مجھ سے پوچھنا تو چاہیئے تھا بس
صرف زبان چلانا جانتی ہو
یہ ساری سینہ زوری اور دیدہ دلیری مہمانوں اور گھر والوں کے سامنے دکھائی
گئی ہے اتنی نوبت کیسے آئی؟ بعد میں معلوم ہؤا تھا کہ لڑکا شادی کے اگلے
روز سے ہی لڑکی پر مستقل نکتہ چینی اور ہر بات ہر کام میں میں میخ نکالنا
شروع ہو گیا تھا اور کوئی اسے سمجھانے اور روکنے ٹوکنے والا نہیں سب خاموش
تماشائی کسی کو ایک لڑکی کی بے بسی سے کوئی سروکار نہیں ۔ دو ڈھائی ماہ
گذرے ہوں گے کہ ایک روز لڑکی نے عاجز آ کر اپنی ماں سے ذکر کر دیا اور اس
سے ملتے جلتے کئی اور بھی واقعات کا ذکر کیا ۔ ہماری کزن اور اس کے شوہر نے
فوراً سے پیشتر اندازہ لگا لیا کہ لڑکا مصدقہ نفسیاتی کیس ہے اور ساری
زندگی بھی سدھرنے والا نہیں ۔ یہ ہماری بیٹی کو اسی طرح ذہنی تشدد کا نشانہ
بنا بنا کر اس کی ساری زندگی عذاب کر دے گا ۔ اتنی نئی نئی شادی میں اس شخص
کا ایک نئی نویلی دلہن کے ساتھ اتنا رکھائی بھرا رویہ ہے تو بعد میں بھلا
یہ کیا لحاظ مروت سے کام لے گا ۔ اس سے پہلے کہ پیروں میں کوئی زنجیر پڑے
یعنی بچی امید سے ہو جائے اس کھڑوس سے جان چھڑاؤ ۔ انہوں نے لڑکی کو دوبارہ
سسرال نہیں بھیجا گھر بٹھا لیا اور لڑکے اور اس کے والدین سے طلاق کا
مطالبہ کر دیا ۔ لڑکے نے طلاق دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ جو مرضی
کر لو طلاق تو میں بھی نہیں دوں گا ۔ پھر پچاس ہزار روپیہ حق مہر سے
دستبردار ہو کر عدالت کے ذریعے خلع لی گئی ۔ دوران عدت ہی لڑکی کا ایک بہت
اچھے خوشحال اور اعلا تعلیم یافتہ گھرانے سے ایک سنگل برسر روزگار لڑکے کا
رشتہ آ گیا پھر شادی بھی ہو گئی سال بھر بعد بچہ بھی ہو گیا ۔ حالانکہ اسی
جگہ پہلی بار بھی شادی ہو سکتی تھی مگر شاید یہ سب کچھ ایسے ہی ہونا تھا ۔
بیشک اس طرح سے اتنا بر وقت اور کڑا فیصلہ لینا آسان نہیں ہوتا ہر کسی کی
اوقات بھی نہیں ہوتی کہ وہ رسک نہ لیں نا ہی ہر لڑکی کی قسمت اتنی اچھی
ہوتی ہے ۔ اکثر ہی لڑکیاں شوہر تو کیا پورے سسرال کے ذہنی و نفسیاتی تشدد
کا نشانہ بنتی ہیں جانی و مالی استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بہت سی سماجی
و معاشی وجوہات کی بناء پر ایک اذیتناک اور تکلیف دہ زندگی کو گذارنے پر
مجبور ہوتی ہیں ۔ مرتے مر جاتی ہیں ایک نام نہاد بندھن کو نبھاتے ہوئے ۔
بیٹیوں کے اچھے نصیب کی دعا کی ہی اس لیے جاتی ہے کہ لوگوں کو اگلوں کے
بیٹوں اور خود ان والدین پر اعتماد نہیں ہوتا ۔ اور بیٹوں کے والدین کو بھی
چاہیئے کہ ان کی اچھی تربیت کریں ان کی ذہنی و اخلاقی صحت پر بھی توجہ دیں
انہیں عورت کی عزت کرنا سکھائیں ۔ اگر تو وہ لائق اصلاح ہیں تو تب تک ان کی
شادی نہیں کریں اس سوچ سے باہر آئیں کہ وہ شادی کے بعد سدھر جائے گا اپنی
نااہلی اور کوتاہیوں کی سزا کسی دوسرے کی بیٹی کو دینے کے شوق پر قابو
پائیں ۔ کسی بھی لڑکی کی شادی اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کی اتنی قیمتی زندگی
اور وقت کسی کی ناہنجار اولاد کی نفسیات اور اخلاقیات کو بھگتنے اسے
سدھارنے کی کوششوں اور اس کے راہ راست پر آنے کے انتظار میں گذر جائے ۔ وہ
بیوی بن کر آئی ہے آپ کے بچے کی آیا ماما بن کر نہیں ۔ یاد رکھیں دوسروں کی
بیٹیاں آپ کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے نہیں ہوتیں ۔ |