برطانیہ کے ایک باسی کم اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب
شائع ہوئی تھی جس کا عنوان تھا عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق 1857 کے
غدر میں ۷ یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش (انڈیا)
کا باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا
گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ
کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں
احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ
دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں
جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور
جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی
واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ
فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا
تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم
میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس
توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان
تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری
طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ
آئے ہیں۔
امریکہ نے 1846 میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔
ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان
علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو
میں مارے گئے تھے ان کی باقیات امریکہ نے 170 سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ
اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور (1884 ۔ 1919) میں نمبیا سے بیس انسانی کھوپڑیاں
سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر 2011 میں وہ بنیادی انسانی حق کی
بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ
مطیع الرحمان جو بیس اگست 1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے
بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے
قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی
حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔
جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی
اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش
کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی
پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور
کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا
تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی
یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار
میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں
کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی
کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی
نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے (صابر ظفر
|